لا علمی فرد اور حقیقت کے مابین ایک پردہ حائل کر دیتی ہے۔ یوںغلط فہمی کو جگہ مل جاتی ہے۔ یہ لا علمی اگر کسی ایسے فرد کو لاحق ہو جو کسی حکومتی منصب پر فائز ہے تو اس کا حجاب گویا پورے معاشرے کے لیے پردہ بن جاتا ہے۔ جناب فواد چوہدری بھی اسلامی نظریاتی کونسل کے باب میں لا علمی کا شکار ہوئے۔ اس لا علمی پر مستزاد ان کا تنقیدی وفور ہے۔ یوں انہوں نے ایک ایسی بحث اٹھا دی، جو غیرضروری تھی۔ اگر وہ کونسل کی سفارشات پر تبصرہ کرنے سے پہلے، اپنی لاعلمی کا مداوا کرتے تو خود بھی بحث کا عنوان بننے سے محفوظ رہتے اور کونسل کے معزز چیئرمین کو بھی وضاحتوں میں اپنا وقت نہ ضائع کرنا پڑتا۔
پہلی لا علمی تو یہ ہے کہ نیب آرڈیننس، جیسے پہلی بارکونسل کے ایجنڈے کا حصہ بنا۔ یہ خلافِ واقعہ ہے۔ کونسل نے 2003ء میں پہلی بار اس آرڈیننس کا تفصیلی جائزہ لیا تھا۔ اس پر ایک مفصل رپورٹ مرتب کی تھی جو حکومت کو بھجوا دی گئی اور اسے شائع بھی کر دیا گیا۔ یہ ”قوانین کی اسلامی تشکیل: سلسلہ دوم، ”جلد چہارم‘‘ کے عنوان سے موجود ہے۔ اس جائزے کے لیے جسٹس افضل حیدر صاحب کی قیادت میں کمیٹی بنی تھی جس نے آرڈیننس کی ہر شق کو دیکھا، اسلامی نقطہ نظر سے اس کو پرکھا اور اپنی رائے مرتب کی۔
بعد میں اس میں ترامیم بھی ہوئیں، اس لیے اس کا دوبارہ جائزہ لیا گیا۔ اس جائزے کے لیے جسٹس (ر) رضا خان صاحب کی سربراہی میں ایک نئی کمیٹی بنی۔ اس کمیٹی کے ایک سے زائد اجلاس ہوئے اور اس نے اپنی رپورٹ مرتب کی جس کی کونسل نے توثیق کی۔ 9 جنوری کو ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب، چیئرمین کونسل نے، دیگر سفارشات کے ساتھ، نیب آرڈیننس کے بارے میں کونسل کی سفارش کا بھی اعلانِ عام کیا۔
نئی سفارش میں کونسل نے 2003ء میں جو سفارشات پیش کی تھیں، ان کی توثیق کے ساتھ، کچھ راہنما اصول مرتب کر دیے جن کا مقصد قوانین کو اسلام کے تصورِ جرم و سزا سے ہم آہنگ بنانا ہے۔ یوں نئی سفارشات میں کوئی ایسی بات نہیں کہی گئی جو جوہری طور پر 2003ء کی سفارشات سے مختلف ہو۔ محترم فواد چوہدری صاحب کو یاد ہو گا کہ جس کونسل نے یہ سفارشات مرتب کی تھیں، اس کی تشکیل ان کے ایک ممدوح جنرل پرویز مشرف صاحب کے دور میں ہوئی تھی اور باوقار دینی شخصیات اس میں شامل تھیں۔
دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ کونسل نے کبھی معاشرے اور مذہبی طبقات کو راہنمائی فراہم نہیں کی۔ اگر فواد چوہدری صاحب کونسل کی سفارشات کے ‘اشاریہ‘ ہی کو دیکھ لیتے تو انہیں اندازہ ہو جاتا کہ کونسل نے ریاست اور سماج کی کب اور کس طرح راہنمائی کی ہے۔ کئی جلدوں پر مشتمل تفصیلی سفارشات کے ساتھ، کونسل نے ان کا ایک اشاریہ بھی مرتب کر دیا ہے۔
ان سفارشات کے بارے میں ایک سے زیادہ آرا ہو سکتی ہیں۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ یہ سفارشات کونسل کی عمومی صلاحیت کا مظہر ہوں گی؛ تاہم اس کے مطالعہ سے اس غلط فہمی کا پوری طرح ازالہ ہو جاتا ہے کہ کونسل نے کوئی راہنمائی فراہم نہیں کی۔ موجود قوانین کے ساتھ، کونسل نے جن موضوعات پر رائے دی ان میں ٹیسٹ ٹیوب بے بی، کلوننگ، اعضا کی پیوند کاری، خاندانی منصوبہ بندی اور ٹرانسپورٹیشن شامل ہیں۔ یہ محض ایک جھلک ہے ورنہ ان موضوعات کی فہرست بہت طویل ہے۔
فواد چوہدری صاحب کے پسندیدہ موضوع، رویتِ ہلال پر بھی کونسل اپنی رائے دے چکی۔ کونسل نے وزارتِ سائنس کی اس کاوش کی بھی تحسین کی جو اس نے قمری کیلنڈر مرتب کرنے کے لیے کی۔ یہ بات البتہ ان پر واضح رہنی چاہیے کہ چاند چڑھانا، حکومت کا کام ہے یا رویتِ ہلال کمیٹی کا۔ کونسل کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ کونسل تو یہ علمی راہنمائی فراہم کر سکتی کہ اسلام میں رویتِ ہلال کا تصور کیا ہے۔
انہیں تیسری غلط فہمی یہ ہوئی کہ کونسل کے اراکین اپنی مرضی سے اس ادارے کے رکن بنتے ہیں۔ کونسل کی تشکیل حکومت کا کام ہے۔ یہ ایک آئینی ادارہ ہے اور اس کے اراکین کے انتخاب کا ایک باضابطہ طریقہ موجود ہے۔ اس میں اگر کوئی کمی ہے تو اس کی ذمہ دار کوئی حکومت ہی ہو گی۔ چوہدری صاحب کو اگر اس بارے میں کوئی شکایت ہے تو انہیں متعلقہ لوگوں سے رجوع کرنا چاہیے۔
موجودہ کونسل نے بہت سنجیدگی کے ساتھ قوانین کا دینی نقطہ نظر سے جائزہ لیا ہے۔ اس کی تشکیل کو دو سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس عرصے میں کسی نے اس کی سنجیدگی اور ثقاہت پر انگلی نہیں اٹھائی۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز اس کے چیئرمین ہیں جنہوں نے تمام عمر تعلیم و تحقیق میں گزاری۔ چوہدری صاحب حکومت میں بھی اپنی اس رائے میں منفرد ہیں۔ وزیر مملکت پارلیمانی امور برادرم علی محمد خان صاحب 8 جنوری کو کونسل کی ایک تقریب میں شریک تھے اور انہوں نے کونسل کی کارکردگی کی فراخ دلی کے ساتھ تحسین کی تھی۔
تیسری غلط فہمی وزیر موصوف کو یہ ہوئی کہ کونسل کے پاس کوئی قوتِ نافذہ ہے اور وہ حکومت یا سماج کی اسلامی تشکیل میں کوئی علمی کردار ادا کر سکتی ہے۔ کونسل آئینی طور پر ایک مشاورتی ادارہ ہے جس کا کام پارلیمان اور حکومت کو قانون سازی کے باب میں دینی نقطہ نظر سے مشاورت فراہم کرنا ہے۔ کونسل یہ کام خوش اسلوبی سے کر رہی ہے۔ اب تک کے تمام قوانین کا اسلامی نقطہ نظر سے جائزہ لیا جا چکا اور اس کی رپورٹ ایک سابقہ دور میں حکومت کو پیش کی جا چکی۔
ماضی کی حکومتوں نے اس کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ موجودہ حکومت کا رویہ بھی ان سے کچھ مختلف نہیں۔ اگر اس رپورٹ میں کوئی سقم ہے تو اس کی نشاندہی کی جانی چاہیے۔ یقیناً کونسل اس پر ایک بار پھر غور کرے گی۔ اس لیے کہ انسانی کام میں کچھ حرفِ آخر نہیں ہوتا۔ لیکن جب تک یہ نشاندہی نہیں ہوتی، تمام تر ذمہ داری حکومت کی ہے اور اسے ہی جواب دہ ہونا ہو گا۔
اس کے باوصف کہ یہ اس کی آئینی ذمہ داری نہیں، کونسل سماج کی اخلاقی تعلیم اور تربیت کے لیے اقدامات کرتی رہتی ہے۔ اس مقصد کے لیے مطبوعات شائع کی جاتی ہیں۔ تربیتی ورکشاپس کا انعقاد ہوتا ہے۔ دیگر علمی اور تربیتی اداروں کے ساتھ مل کر سرگرمیاں کی جاتی ہیں۔ پیغامِ پاکستان کی تشہیر اور ابلاغ کے لیے ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب اور دیگر اراکین نے خاموشی کے ساتھ جو خدمات سرانجام دیں، وہ اس پر مستزاد ہیں۔
فواد چوہدری صاحب اگر ان تمام امور سے واقف ہوتے تو یقیناً تنقید سے گریز کرتے۔ میرا خیال ہے کہ انہیں ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب کی پیشکش پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ نیب آرڈیننس پر کونسل کی رائے کے بارے میں اگر انہیں کوئی شرعی اعتراض ہے تو وہ ضرور بیان کریں۔ کونسل اس کا جائزہ لے گی اور اگر کونسل نے ان کی تنقید میں وزن محسوس کیا تواس کو اپنی سفارشات کا حصہ بنائے گی۔ کونسل ایک علمی ادارہ ہے جس میں کسی فرد کی انا کے لیے کوئی جگہ ہونی چاہیے نہ کسی تعصب کے لیے۔میری ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب سے بھی د رخواست ہو گی کہ وہ فواد چوہدری صاحب کو مدعو کریں اور انہیں بتائیں کہ کونسل کیا کر چکی، کیا کر رہی ہے اور مستقبل میں کیا عزائم رکھتی ہے۔ اس سے یقیناً ان غلط فہمیوں کا ازالہ ہو گا جنہوں نے ملک میں ایک غیر ضروری بحث کو جنم دیا۔
اس بحث کا ایک دوسرا زاویہ بھی ہے۔ بعض لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ اس کونسل کا وجود ہی غیر ضروری ہے۔ انہیں کونسل کی کسی خاص ہیئت پر اعتراض نہیں بلکہ ان کے نزدیک اس طرح کے ادارے کی ضرورت ہی محلِ نظر ہے۔ اگر فواد چوہدری صاحب یہ رائے رکھتے ہیں تو انہیں اس پر اپنا موقف پیش کرنا چاہیے؛ تاہم انہیں یہ بات پیشِ نظر رکھنا ہو گی کہ کونسل ایک آئینی ادارہ ہے جسے کسی حکومتی حکم سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ان کا مقدمہ یہ ہے تو بھی ان کی تنقید کا مخاطب نظریاتی کونسل نہیں، ان کی اپنی حکومت اور پارلیمان کو ہونا چاہیے۔