ہیلتھ کیئر کمیشن پنجاب کا ایک ادارہ ہے۔ اس کا ایک اہم کام جعلی ڈاکٹروں ، حکیموں کے خلاف ایکشن لینا ہے۔ اگر آپ یا آپکے پیاروں کا واسطہ کسی اتائی سے پڑ جائے تو آپ بلا جھجک یہاں درخواست دے سکتے ہیں۔ یہ ایکشن لیں گے اور متعلقہ کلینک یا دواخانہ بند کرکے معالج کیخلاف ایف آئی آر درج کروادیں گے۔اس کے بعد کیا ہوگا یہ نام اور مقام کی تبدیلی کے بعد عبدالرشید کی زبانی سنئے!
عبدالرشید کا تعلق پنجاب کے ایک گائوں سے ہے ۔ اس کی ایک چھوٹی سی کریانے کی دکان ہے۔آج سے دو سال قبل عبدالرشید کے ہاں دس سال بعد پہلی ولادت متوقع تھی۔ گائوں میں ایک ہی خاتون تھی جس نے خود کو ڈاکٹر مشہور کیا ہوا تھا۔ کیس اُس کے پاس لے جایا گیا۔ خاتون نے اپنی ڈاکٹری کا بھرپور مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں نومولود کی وفات ہوگئی۔عبدالرشید اور اس کی بیوی کیلئے یہ صدمہ قیامت سے کم نہیں تھا۔ گائوں والوں کیلئےیہ معمول کی بات تھی کیونکہ ’لیڈی ڈاکٹر‘ کا کہنا تھا کہ کبھی کبھی کوئی کیس بگڑ بھی جاتاہے لیکن عبدالرشید اور اس کی بیوی کو سن گن مل گئی کہ خاتون اصلی ڈاکٹر نہیں۔ پہلے انہوں نے علاقے کی پولیس چوکی میں درخواست دی، شنوائی نہ ہوئی تو ایم این اے کے پاس گئے، وہاں سے بھی کورا جواب ملا تو ڈی سی صاحب کو درخواست دے دی۔ انہوںنے کمال شفقت سے اپنے سیکرٹری کے ذریعے جواب دیا کہ یہ معاملات ہیلتھ کیئر کمیشن والے ڈیل کرتے ہیں لہٰذا اُن سے رابطہ کریں۔دونوں میاں بیوی دھکے کھاتے لاہور پہنچے اور ہیلتھ کیئرکمیشن میں درخواست دی۔اس درخواست کے ساتھ چونکہ کچھ ضروری چیزیں منسلک کرنا تھیں لہٰذا پہلی دفعہ میںیہ درخواست جمع نہ ہوسکی۔ یہ رات انہوں نے ایک دربار کے احاطے میں گزاری ۔ اگلے دن دوبارہ ہیلتھ کیئر کمیشن پہنچے۔ اب کی بار درخواست جمع ہوگئی اور ایک نمبر الاٹ کردیا گیا۔ یہ واپس گائوں آگئے۔ کچھ دنوں بعد اِنہیں ایک سمن موصول ہوا کہ فلاں تاریخ کو آپ کے کیس کی سماعت ہے۔ دونوں نے رخت ِ سفر باندھا اور پھر لاہور کی طرف روانہ ہوئے۔ یہاں ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کے بعد جب باری آئی تو پتا چلا کہ جعلی لیڈی ڈاکٹر تو حاضر ہی نہیں ہوئی۔ اگلی تاریخ پڑ گئی اور یہ دونوں واپس گائوں آگئے۔ پھر یہ معمول ہوگیا۔ ہر مہینے ڈیڑھ کے بعد ان کو پیشی کا سمن موصول ہوتا۔ دکان کو تالا لگایا جاتا اور لاہور جانے والی سستی ترین بس پکڑ لی جاتی۔ خاتون لیڈی ڈاکٹر اس دوران اِنہیں مختلف ذرائع سے ہراساں کرتی رہی لیکن میاں بیوی اپنی دھن کے پکے تھے لہٰذا ڈٹے رہے۔ لگ بھگ دس پیشیوں کے بعد گزشتہ دنوں اللہ نے ان کی سن لی ۔چونکہ جعلی لیڈی ڈاکٹر پیش نہیں ہوئی تھی اس لئے کیس کا فیصلہ میاں بیوی کے حق میں ہوگیا اور جعلی لیڈی ڈاکٹر پر ایف آئی آر اور پانچ لاکھ جرمانہ کر دیا گیا۔ کاغذوں میں یہ سزا سنا دی گئی ہے لیکن جعلی لیڈی ڈاکٹر نے جرمانہ بھی نہ ادا کیا اور منٹوں میں ضمانت بھی کروا لی۔ اب عبدالرشید اور اس کی بیوی سیشن کورٹ کے چکر لگارہے ہیں۔ دکان کا بیڑا غرق ہوچکا ہے اور تاریخ بھگتنے کے بعد دونوں کورٹ کی عمارت کے باہر دال چاول کا ایک ٹھیلہ لگالیتے ہیں۔وکیل اور ان کا خرچہ نکل آتا ہے۔ رات کو یہیں سوجاتے ہیںجبکہ گائوںمیں جعلی لیڈی ڈاکٹر حسب معمول اپنے ’فرائض‘ سرانجام دے رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہیلتھ کیئر کمیشن کی جانب سے سائل کی داد رسی صرف اتنی تھی؟ جرمانے کی رقم ہیلتھ کیئر کمیشن کو ملنی چاہئے یا سائل کو؟ ایسے بیسیوں کیسز ہیں جو ہیلتھ کیئر کمیشن کی عمارت میں سننے کو ملتے ہیں۔ ایک صاحب نے بتایا کہ جس جعلی ڈاکٹر کے خلاف انہوںنے کیس جیتا تھااس نے ابھی تک ہیلتھ کیئر کمیشن کو جرمانے کی رقم ادا نہیں کی ۔ اصولاً ہیلتھ کیئر کمیشن کی ٹیم کو قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی مدد سے اس جعلی ڈاکٹر کو گرفتا رکرناچاہئے لیکن ہویہ رہا ہے کہ اُنہی سے ریکویسٹ کی جارہی ہے کہ آپ جعلی ڈاکٹر کا پتا چلائیں تاکہ ہم اسے گرفتار کروا سکیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ جعلی ڈاکٹرایک اور کیس میں عدالت سے ضمانت پر ہے اور باقاعدگی سے پیشیوں پر آرہا ہے ۔ ہیلتھ کیئر کمیشن والوں کو بارہا بتایا گیا کہ حضور جس بندے کو آپ ڈھونڈ رہے ہیں وہ فلاں عدالت میں فلاں روز پیش ہوگا۔گرفتار کروا دیں۔ لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔
پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن سے بات کریں تو وہ اپنی مجبوریاں بیان کرنے لگتا ہے۔ ان میں سےکچھ مجبوریاں تو ایسی ہیں کہ یہاں بیان کروں تو رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ یہ جو جعلی ڈاکٹر جرمانوں کے باوجود کسی اور نام سے کلینک کھول لیتے ہیں، یہ جو اِن کی گرفتاریاں نہیں ہورہیں، یہ جو مسلسل مریضوں کی حوصلہ شکنی ہورہی ہے اسکےذمہ دار پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن میں موجود کچھ وہ عناصر ہیں جن کا معاشی مفاد سارے نظام کا بیڑا غرق کر رہا ہے۔ ڈی جی ہیلتھ کیئر کمیشن کے بارے میں سنا ہے کہ نیک نیت اور اصول پرست انسان ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ جعلی ڈاکٹروںکیخلاف کارروائی کرتے ہوئے اپنے کچھ اصلی ڈاکٹروں پر بھی ایکشن لیں۔اُن کیسز کو نکلوائیں جن میں جعلی ڈاکٹروں کو جرمانےکئے جانے کے باوجود نہ رقم موصول ہوئی نہ ڈاکٹر کے خلاف قانونی کارروائی ہوئی۔ آپ کا ادارہ بیشتر کیسز میں تھانے میں ایف آئی آر درج کروا کے بری الذمہ ہوجاتاہے۔لوگ جعلی ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھ کر بھی پس رہے ہیں اور ہیلتھ کیئر کمیشن میں شکایت درج کروا کے بھی خوار ہورہے ہیں۔