شدید بے یقینی کے ان دنوں میں ”تجزیے“ کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اس کے باوجود میرے کچھ ”با خبر“ دوست ہیں جو نجی محفلوں میں تواتر سے دعویٰ کررہے ہیں کہ عمران خان کو ہماری ریاست کے کرتا دھرتا بیرون ملک منتقل ہونے کے ”پیغامات“ بھیجنا شروع ہوگئے ہیں۔ ایمانداری کی بات ہے کہ وطن عزیز جن ”انہونیوں“ کی زد میں ہے ان کی شدت اتنی حیران کن نہ ہوتی تو میں اپنے دوستوں کی بتائی خبر پر آنکھ بند کرکے اعتبار کرلیتا۔
اعتبار میں اس لئے بھی کرلیتا کیونکہ اکتوبر2000ءسے تسلسل کے ساتھ میں انگریزی اخبار کے لئے لکھے ایک کالم میں اشاروں کنایوں سے یہ ”خبر“ دیتا رہا کہ نواز شریف کو جلاوطن کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ وقت چونکہ گزر گیا ہے اس لئے اب اعتراف کرسکتا ہوں کہ میرے اعتماد کا منبع ایک خوشحال اور پاکستان کے لئے خاصے بااثر اسلامی ملک کے اسلام آباد میں مقیم سفیر تھے۔وہ اسلام آباد میں بہت عرصہ تعینات رہے۔انتہائی کم گو اور وجیہہ شخصیت تھے۔ جانے کیوں انہیں میرا پھکڑپن بھاگیا۔ اپنے گھر تنہا بیٹھے ہوئے ہوتے تو فون پر میری مصروفیات دریافت کرتے۔ میں اگر فارغ ہوتا تو اپنی قیمتی گاڑی بھیج کر بلوالیتے۔ رات گئے تک میرے ساتھ حالاتِ حاضرہ زیر بحث لانے کے بجائے پاکستان کی تہذیبی تاریخ اور رسم وروایات کے بارے میںاپنے ذہن میں موجود سوالات اٹھاتے رہے۔ اپنے ملک کے حکمران خاندان سے ان کا قریبی تعلق تھا۔ وہ ہمیشہ مجھے ”برادر“ کہہ کر مخاطب کرتے اور ہمیشہ گلہ کیا کہ میں نے ان سے کبھی کسی ویزے کی سفارش نہیں کی۔نہ ہی ان کی میزبانی سے ہوس ناک انداز میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔
بہرحال ایک روز ان کے ساتھ دو گھنٹے تنہائی میں گزارنے کے بعد میں نے اُکتاجانے کا ڈرامہ لگایا۔درخواست کی کہ مجھے گھر بھجوانے کا بندوبست کریں۔ وہ حیران ہوئے تو میں نے انہیں یاد دلایا کہ میں ذات کا رپورٹر بھی ہوں۔ان کے ساتھ گپ شپ لگانے میں مجھے بہت مزا آتا ہے۔ ”خبر“ مگر دھیلے کی بھی نہیں ملتی۔ میں اس کی تلاش میں لہٰذا دیگر لوگوں پر خود کو نازل کرنے کو مجبور ہوجاتا ہوں۔میری مصنوعی خفگی سے وہ زیر لب مسکرائے ۔مجھے مزید بیٹھنے کو مائل کیا۔میں رضامند ہوگیا تو نہایت سادگی سے فرمانے لگے کہ جو خبر وہ مجھے دینے والے ہیں میں اس کا اعتبار نہیں کروں گا۔اعتبار بھی کرلیا تو اسے چھاپنے کی ہمت نہیں دکھاپاﺅں گا۔ بیزاری سے بھرا میرا جواب تھا کہ وہ پہلے خبر تو دیں۔مجھے قابلِ اعتبار لگی تو اسے سنسنی خیز انداز میں چھاپ نہ سکا تب بھی اشاروں کنایوں میں اپنے قارئین کو اس سے ہر صورت آگاہ کروں گا۔
میرے جواب کی بدولت انہوں نے ڈرامائی توقف کے بعد اطلاع یہ دی کہ نوازشریف کو سعودی عرب بھیجنے کی تیاری ہورہی ہے۔ چند روز بعد انگریزی اخبار کے لئے اپنا کالم لکھتے ہوئے محض چند سطروں میںاس جانب اشارہ کردیا۔وہ کالم چھپا تو مجھے جنرل مشرف کے بااعتماد معتمد طارق عزیز مرحوم نے اپنے دفتر بلوالیا۔ اِدھر اُدھر کی گپ شپ کے بعد پنجابی میں یکدم گویا ہوئے کہ مجھے وہ (یعنی نواز شریف کے سعودی عرب جانے کی) ”بیہودہ“ خبر کہاں سے ملی ہے۔”بےہودہ“ ٹھہرانے کے باوجود انہوں نے مذکورہ خبر کی ڈٹ کر تردید نہیں کی۔اس خبر کی مزید تصدیق کی تلاش لہٰذا میری مجبوری بن گئی۔ بالآخر نواز شریف سعودی عرب روانہ بھی ہوگئے۔
سعودی عرب بھجوانے سے قبل مشرف حکومت نے نوازشریف کو ”طیارہ اغواءکیس“ جیسے سنگین جرم میں سزا دلوائی تھی۔ اس کے باوجود مہربان ہونا پڑا۔اس کی بنیادی وجہ امریکی دباﺅ بھی تھا۔ بہت کم لوگوں کو یاد رہا ہوگا کہ کارگل واقعہ کی وجہ سے پاک-بھارت جنگ کے مزید پھیلاﺅ کو روکنے کے لئے نواز شریف کو امریکہ جانا پڑا تھا۔ امریکی صدر کلنٹن نے 4جولائی کے یوم آزادی کی چھٹی اور تقریبات کے باوجووموصوف سے ملاقات کا وقت نکالا۔ کارگل جنگ روکنے کے لئے امریکہ نے جو ٹائم لائن تیار کی تھی نواز شریف اس پر من وعن عمل کرنے کو تیار نہیں تھے۔مصر رہے کہ وہ اگر آمادہ ہوگئے تو پاکستان کی عسکری قیادت انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔کلنٹن نے ان کا حوصلہ بڑھانے کو وعدہ کیا کہ اس صورت وہ ان کے لئے عافیت کی راہ ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔
2000ءکا صدارتی انتخاب کلنٹن تیسری بار لڑنہیں سکتا تھا۔اس کی غیر موجودگی نے بش کی کامیابی یقینی بنادی۔امریکہ کا نومبر میں صدر منتخب ہوجانے کے بعد اپنا منصب وہ اگلے برس کے جنوری میں سنبھالتا ہے۔نومبر سے جنوری تک جوہفتے اسے ملتے ہیں ان کے دوران رخصت ہونے والا صدر وہ سب کام نبٹانے کی کوشش کرتا ہے جن کا ارادہ باندھ لیا گیا ہوتا ہے۔عین اس وقت طاقتور خلیجی ممالک کے ذریعے کلنٹن کو نواز شریف سے کارگل بحران کے حل کے دوران کیا وعدہ یاددلایا گیا اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم کے سعودی عرب جانے کی راہ نکل آئی۔
2000ءکے بعد نواز شریف 2019ءمیں بھی عدالت سے سزا یافتہ ہونے کے باوجود جیل سے نکال کر پہلے ہسپتال اور بعدازاں لندن بھیج دئیے گئے تھے۔وجہ اس کی قمر جاوید باجوہ کی اپنی معیادِ ملازمت میں توسیع کی خواہش تھی۔ اس کے علاوہ جیل میں چند ایسے واقعات بھی یقینا ہوئے جو نواز شریف کے لئے جان لیوا ثابت ہوسکتے تھے اور باجوہ صاحب ایک اور سابق وزیر اعظم کی موت کی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں تھے۔
نواز شریف کے ماضی کو دیکھیں تو عمران خان کے بارے میں جو قیاس آرائیاں ہورہی ہیں وہ قابل اعتبار سنائی دیتی ہیں۔عمران خان کے خلاف مگر طیارہ اغوا جیسا کوئی سنگین کیس نہیں۔ ”القادر ٹرسٹ“ کے الزام کے تحت ہوئی گرفتاری بھی سپریم کورٹ نے دو دن سے زیادہ برقرار رہنے نہیں دی۔ایسے حالات میں سابق وزیر اعظم جو خود کو ہمت نہ ہارنے والا کھلاڑی پکارتے ہیں جلاوطنی کو آمادہ کیوں ہوں گے؟۔ بائیڈن انتظامیہ کی پاکستان سے تقریباََ لاتعلقی ہے۔امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے وزیر اعظم پاکستان کو خیر سگالی والا روایتی فون تک نہیں کیاتھا۔ موجودہ وزیر اعظم ویسے تو ”امپورٹڈ“ کہلاتے ہیں۔ بائیڈن نے مگر ان سے بھی رابطہ نہیں کیا۔قصہ مختصر امریکہ ان دنوں اس امر کی بابت قطعاََ لاتعلق ہے کہ پاکستان کا سیاسی اور اقتصادی بحران مزید گھمبیر نہ ہو۔
ہمارا یار چین یقینا پاکستان میں طویل المدت سیاسی استحکام کا خواہاں ہے۔ وہ مگر اپنے دوست ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا عادی نہیں۔ وگرنہ پاک-چین دوستی کے بانیوں میں سے نمایاں ترین ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی سے بچانے کی کوشش کرتا۔ خلیج میں ہمارے چند ”برادر“ ملک البتہ پاکستان میں بڑھتی بے یقینی سے مطمئن نہیں۔ ان کی ترجیحات میں البتہ پاکستان ان دنوں سرفہرست نہیں رہا۔ ایسے عالم میں موجودہ حکومت پر عمران خان کو بیرون ملک بھجوانے کے لئے کونسا طاقت ور ملک میدان میں اُترے گا؟ میں اس کا اندازہ لگانے میں ناکام رہا ہوں۔
دوست مگر مصر ہیں کہ گولڈ سمتھ خاندان کی اہمیت نظرانداز نہ کروں۔عمران خان کی سابق اہلیہ جمائمہ ایک رحمدل خاتون ہیں۔عمران خان کے دونوں بیٹے ان کے پاس ہیں۔ان کی خواہش ہوسکتی ہے کہ پاکستان میں اپنا دل جلانے کے بجائے عمران لندن منتقل ہوجائیں اور اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے اچھے دنوں کا انتظار کریں۔ اس حقیقت کے باوجود سوال یہ اٹھتا ہے کہ جمائمہ اور ان کے خاندان کا برطانوی حکومت پر اثر ان دنوں کتنا طاقتورہے۔اس کی بابت علم ہوجائے تب ہی اس ضمن میں کوئی رائے دینے کے قابل ہوسکتا ہوں۔