جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم اس جہانِ رنگ و بو میں 92 برس گزار کر راہیٔ ملکِ عدم ہوئے۔ (فروری 1928 میں انڈین گجرات کے شہر احمد آباد میں آنکھ کھولی۔ 1950 میں ہجرت کی۔ کراچی کو مسکن بنایا اور یہیں آسودہ خاک ہوئے) دوست احباب انہیں محبت سے ”فخرو بھائی‘‘ کہتے۔ وہ زود رنج ہونے کی شہرت رکھتے تھے۔ اپنی ”انا‘‘ کا بھی بہت احساس رہتا۔ عزتِ نفس (Self Respect) پر کوئی سودے بازی نہ کرتے۔ جسے درست سمجھتے، اس پر ڈٹ جاتے۔ اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنے میں تامل نہ ہوتا اور اس میں کسی بھی منصب کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھتے۔ وہ سپریم کورٹ کے ان تین ججوں میں شامل تھے، 1981 میں جنہوں نے جنرل ضیاء الحق کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا (دیگر دو جج، چیف جسٹس شیخ انوارالحق اور جسٹس دراب پٹیل تھے) چیف جسٹس انوارالحق ان چار ججوں میں شامل تھے جنہوں نے بھٹو کی پھانسی کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کی تھی لیکن اب انہوں نے ضیاء الحق کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا کہ نصرت بھٹو کیس میں انہوں نے اس شرط کے ساتھ 5 جولائی 1977 کے مارشل لاء کی توثیق کی تھی کہ 1973 کا آئین ملک کے بالاتر قانون کی حیثیت سے موجود رہے گا اور سپریم کورٹ کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹر یٹر کے کسی بھی حکم، کسی بھی اقدام پر نظر ثانی کا اختیار حاصل ہو گا۔ جناب دراب پٹیل ان تین ججوں میں تھے جنہیں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے اختلاف تھا۔ ان میں جسٹس حلیم بھی تھے۔ اب وہ پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر، شیخ انوارالحق کی جگہ چیف جسٹس بن گئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی وزراتِ عظمیٰ تک اس منصب پر فائز رہے اور یوں (اس وقت تک) پاکستان کی تاریخ کے طویل ترین عرصے تک چیف جسٹس رہنے کا اعزاز حاصل کیا۔
ہم فخرو بھائی کی بات کر رہے تھے۔ سپریم کورٹ کی ججی سے دستبرداری کے بعد وہ مختلف اوقات میں اٹارنی جنرل، وفاقی وزیر قانون اور گورنر سندھ کے منصب پر فائز رہے اور جب بھی کوئی بات اپنے مزاج، اپنے اصول کے خلاف محسوس کی، استعفا دے کر گھر چلے آئے۔ بھٹو صاحب کے دور میں اس بات پر اٹارنی جنرل کے عہدے سے مستعفی ہو گئے کہ حکومت نے ایک کیس میں ان سے مشورے کے بغیر شریف الدین پیرزادہ کی خدمات پرائیوٹ وکیل کے طور پر حاصل کر لی تھیں۔ 18ویں اور 20ویں آئینی ترامیم کے بعد، پاکستان کی تاریخ کے سب سے بااختیار، خود مختار اور آزاد الیکشن کمشن کے سربراہ اس شان سے بنے کہ انہیں حزبِ اقتدار اور حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کا اعتماد حاصل تھا۔ اس منصب کے لیے ان کا نام قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان نے تجویز کیا تھا (تحریک انصاف اور جماعت اسلامی 2008 کے انتخابات کے بائیکاٹ کے باعث قومی اسمبلی میں موجود نہیں تھیں، اس کے باوجود چودھری نثار علی خان نے جماعت اسلامی کی قیادت سے بھی مشاورت کی۔ عمران خان سے تو چودھری صاحب کی ویسے بھی گاڑی چھنتی تھی۔ ایچی سن کالج کے دنوں سے یارانہ تھا۔ تب چودھری نثار کالج کی کرکٹ ٹیم کے کپتان اور عمران اس کا حصہ تھے) چیف الیکشن کمشنر کے منصب کے لیے فخرو بھائی کے نام پر عمران خان چودھری نثار سے بھی زیادہ پُر جوش تھے۔
دسمبر میں کینیڈا والے ”شیخ الاسلام‘‘ مئی 2013 کے عام انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی مہم پر پاکستان تشریف لائے تو اس میں فخرو بھائی کو مشتعل کرنے کی حکمت عملی بھی اختیار کی گئی۔ وہ جولائی 2012 میں اس منصب پر فائز ہوئے تھے اور میڈیا میں ”شیخ الاسلام‘‘ کے سپورٹرز کو اب یاد آیا تھا کہ 84 سالہ فخرو بھائی کی صحت اس قابل کہاں کہ یہ بھاری ذمہ داری نبھا سکیں۔ اس بات کا بھی بتنگڑ بنانے کی کوشش کی گئی کہ ایک ملاقات میں وہ سول ڈریس میں آرمی چیف (جنرل کیانی) کو نہیں پہچان پائے تھے۔ ”شیخ الاسلام‘‘ کے سپورٹرز کا فخرو بھائی کے لیے ”مخلصانہ‘‘ مشورہ تھا کہ وہ اس عمر میں اپنا مردہ خراب کرنے کی بجائے عزت و احترام کے ساتھ گھر کی راہ لیں لیکن فخرو بھائی یہ سارا کھیل سمجھتے تھے؛ چنانچہ انہوں نے ”باعزت استعفے‘‘ کا دانہ چگنے سے انکار کر دیا اور گیارہ مئی کے انتخابات اس شان سے منعقد کروائے کہ یورپی مبصرین بھی انہیں پاکستان کی تاریخ کے سب سے بہتر انتظامات والے انتخابات قرار دے رہے تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ووٹرز کی تصاویر کے تحت کمپیوٹرائزڈ لسٹیں تیار ہوئیں۔ ان انتخابات میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ ٹرن آئوٹ رہا (8,42,07,524 رجسٹرڈ ووٹوں میں سے 4,53,88,404 ووٹ کاسٹ ہوئے) اور سب سے زیادہ امیدواروں نے حصہ لیا۔ یہ انتخابات عدلیہ کی نگرانی میں ہوئے حالانکہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے (مارچ 2009 میں) بحالی کے بعد نئی جوڈیشل پالیسی کے تحت فیصلہ کیا تھا کہ عدلیہ کا کوئی رکن ”انتظامیہ‘‘ کے کسی کام میں حصہ نہیں لے گا۔ اس کے تحت وہ عام انتخابات کے عمل سے بھی عدلیہ کو دور رکھنا چاہتے تھے۔ یہ خود چیف الیکشن کمشنر جناب فخرالدین جی ابراہیم (اور عمران خان بھی) تھے، جن کے اصرار پر چیف جسٹس اس پر آمادہ ہوئے۔ چیف جسٹس نے اس کے لیے ملک بھر کے سیشن ججوں کی ایک میٹنگ بلائی اور ان سے خطاب میں کہا کہ تاریخ نے ان کے کندھوں پر نہایت اہم ذمہ داری ڈال دی ہے۔ قوم نے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے ان پر جو اعتماد کیا ہے، انہیں اس پر پورا اترنا ہے (اسی میٹنگ کو بعد میں عمران خان دھاندلی کے منصوبے کا حصہ قرار دینے لگے)۔ 11 مئی کے انتخابات کے وقت عمران خان زخمی ہونے کے باعث ہسپتال میں تھے۔ صدر زرداری نے فون پر عیادت کرتے ہوئے ”آر اوز‘‘ کے الیکشن والی بات بھی کان میں ڈال دی، جسے خان نے پلے باندھ لیا۔ ”35 پنکچرز‘‘ والی بات بھی اسی دوران عام ہوئی۔ یہ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی کی نواز شریف کو (گیارہ مئی کی شب) ٹیلی فون کال کا افسانہ تھا، خان کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس اس کی ریکارڈنگ بھی موجود ہے۔ خان کے ذرائع کا دعویٰ تھا کہ 35 پنکچرز والی بات خان کو آغا مرتضیٰ پویا نے بتائی، جنہیں یہ بات ایک غیر ملکی سفارت خانے سے معلوم ہوئی تھی۔ سفارت خانے ہی نے یہ کال ریکارڈ کی تھی۔ آغا صاحب نے اس کہانی سے لا تعلقی کا اظہار کر دیا۔ 126 روزہ دھرنے کے بعد چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں، جوڈیشل کمشن نے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے تحقیقات کا آغاز کیا تو ملک کے مہنگے ترین قانون دان حفیظ پیرزادہ (1973کے آئین کے مصنف) تحریک انصاف کے وکیل تھے۔ ان کے پاس تحقیقاتی کمشن کے روبرو پیش کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں تھا۔ خود عمران خان ”35 پنکچرز‘‘ کو سنی سنائی بات قرار دے رہے تھے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمشن نے عام انتخابات میں کسی ”منظم دھاندلی‘‘ کی تردید کر دی تھی۔ یہ جناب فخرالدین جی ابراہیم کی سربراہی میں الیکشن کمشن کے لیے عظیم الشان اعزاز تھا۔
فخرو بھائی دیگر اعزازات کے ساتھ، اس گراں قدر فخر کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں تو ہمارے بعض دوستوں نے لکھا کہ فخرو بھائی نے اس دھاندلی کی تحقیقات کے لیے بہت کوشش کی لیکن نواز شریف حکومت نے ساتھ نہ دیا؛ چنانچہ انہوں نے اس عہدے سے مستعفی ہو کر گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ حقیقت یہ تھی کہ فخرو بھائی نے اس کے بعد 30 جولائی کا صدارتی انتخاب بھی کروا دیا تھا۔ آئین کے مطابق وہ خود اس میں ریٹرننگ آفیسر تھے۔ صدارتی انتخابات کے نتیجے کا اعلان بھی خود انہوں نے کیا اور اس کے بعد وہ یہ کہہ کر مستعفی ہو گئے کہ انتخابات کے آزادانہ و منصفانہ انعقاد پر وہ اپنے رب اور اپنی قوم کے سامنے سرخرو ہیں۔ تب ان کی عمر 85 سال ہو گئی تھی اور وہ مزید 4 سال اس ذمہ داری کی ہمت نہیں پاتے تھے۔