Site icon DUNYA PAKISTAN

سیاست ِ عمران کے بیرونی سہولت کار

Share

برطانیہ کی طرح امریکہ میں بھی عمران خان کے چاہنے والے بے شمار ہیں۔ امریکہ میں مقیم عاشقان عمران کی اکثریت ان کے پاکستانی نژاد برطانوی مداحین کے مقابلے میں کہیں زیادہ خوش حال ہے۔ وہ انتہائی پڑھے لکھے طبقات کی نمائندہ ہے۔شوکت خانم ہسپتال کو باقاعدگی سے فراخدل چندہ دیتے ہیں۔اپنی خوش حالی اور اثر ان دنوں عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر بحال کرنے کے لئے بھی دل وجان سے استعمال کررہے ہیں۔ان کی کاوشوں کی بدولت امریکی اراکین پارلیمان کا ایک مو¿ثر گروہ پاکستان میں ”جمہوریت“ کو ”درپیش خطرات“ کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کرنا بھی شروع ہوگیا ہے۔

ٹھوس ذرائع سے مجھ تک یہ اطلاع بھی پہنچ چکی ہے کہ امریکہ میں مقیم چند خوشحال پاکستانیوں نے چند ہفتے قبل سابق وزیر اعظم کو ان کے لاہور کے زمان پارک میں واقع آبائی گھر میں ملاقات کے دوران یقین دلایا ہے کہ وہ تحریک انصاف سے ”بزدل“ الیکٹ ایبلز کی خوف کی بدولت علیحدگی سے رنجیدہ نہ ہوں۔اپنے خیالات پر ڈٹے رہیں۔ ہر صورت جلد از جلد انتخاب کے حصول کیلئے جدوجہد جاری رکھیں۔ ان سے ملاقات کرنے والوں نے اس امر پربھی اصرار کیا کہ جب عمران خان اپنی جارحانہ جدوجہد کے نتیجے میں فوری انتخاب حاصل کرلیں گے تو وہ ان ”گمنام“ کارکنوں کی انتخابی مہم کا سارا ”خرچہ“ اٹھائیں گے جنہیں تحریک انصاف قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے مختلف حلقوں کے لئے نامزد کرے گی۔

پاکستانی نژاد امریکی شہریوں کی محبت وعقیدت کے طفیل کارفرمالابنگ کمپنیاں اب وہاں کے مشہور ٹی وی چینلوں اور اینکر خواتین وحضرات کو بھی عمران خان پر ”نازل ہوئی مصیبتوں“ کے بارے میں فکر مند کرنا شروع ہوگئی ہیں۔ اتوار کی رات اس ضمن میں ہوئی کاوشوں کا نتیجہ ہمیں سی این این جیسے معروف ٹی وی چینل پر بھی دیکھنے کو ملا۔فرید ذکریااس چینل کا ایک مشہور اینکر ہے۔”جی پی ایس“کے نام سے ہفتہ وار پروگرام کرتا ہے۔عمران خان اتوار کی رات اس کے مہمان تھے۔

رات سونے سے قبل ٹویٹر اکاﺅنٹ دیکھتے ہوئے میری نظرفریدکے لئے اس انٹرویو کے دوسرے حصے پر مبذول ہوگئی۔ مزید گفتگو سے قبل میں دیانتداری سے اعتراف کرتا ہوں کہ ذاتی طورپر میں کبھی فرید ذکریا کا مداح نہیں رہا۔بمبئی کے ایک ”اسلامی سکالر“ رفیق ذکریا کا یہ فرزند اکثر مجھے اپنی بھارتی اور مسلمان شناخت کی وجہ سے ”امریکی جمہوریت کی فراخ دلی“ سے فائدہ اٹھاتا محسوس ہوا۔ اتوار کے روز اس نے عمران خان کا جو انٹرویو لیا اس کے بارے میں میری رائے لہٰذا قطعاََ متعصبانہ بھی ہوسکتی ہے۔اس سے اتفاق ضروری نہیں۔

کھلے دل سے کیا یہ اعتراف تاہم مجھے یہ اصرار کرنے سے روک نہیں پائے گا کہ اپنی عمر تمام صحافت کی نذرکردینے کے بعد خوب جان چکا ہوں کہ آپ اگر کسی سیاستدان کے ہمدرد ہوں تو اس کے جذبات ناظرین تک پہنچانے کے لئے اپنا سوال ایک صحافی کس انداز میں پیش کرے گا۔ صحافتی زبان میں اسے Framing of the Questionیعنی سوال کی تشکیل کہا جاتا ہے۔

اس تناظر میں ذہن میں رکھتے ہوئے جس کلپ کا میں ذکر کررہا ہوں اسے انٹرنیٹ پر ڈھونڈ کر غور سے دیکھیں۔ فرید اپنے سوال کا آغاز ایک فقرہ یاد دلاتے ہوئے کرتا ہے جو دعوے دار ہے کہ ”ریاستوں کی فوج ہوتی ہے مگر پاکستان آرمی “ وکھری نوعیت کی واحد فوج ہے جس کی ایک ”ریاست“ بھی ہے۔ یہ ”حقیقت“ بیان کرنے کے بعد وہ عمران خان سے نہایت فکر مندی سے سوال کرتا ہے کہ وہ تن تنہا ایسے طاقت ور ادارے سے ”جنگ“ جیت پائیں گے۔

مذکورہ سوال کی تشکیل کے طفیل فراہم کردہ سہولت کا عمرا ن خان نے کمال مہارت سے فائدہ اٹھایا۔ مصر رہے کہ وہ فوج سے لڑنا نہیں چاہتے۔ اس کے نتیجے میں ”جنگ“ جیت بھی گئے تو پاکستان کی حالت مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک جیسی ہوجائے گی۔وہ مگر پاکستان کو دفاعی اعتبار سے مضبوط تر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اپنی ”نیک نیتی“ کے اظہار کے بعد عمران خان جنرل باجوہ کے لتے لینا شروع ہوگئے۔الزام لگایا کہ غالباََاپنی مدت ملازمت میں توسیع کی خاطر وہ پی ڈی ایم میں شامل ”چور اور لٹیروں“ سے ساز باز میں مصروف ہوگئے اور انہیں گھر بھجوادیا۔

امریکہ کے بجائے باجوہ کو اپنی فراغت کا ذمہ دار ٹھہرانے کے بعد وہ مصر رہے کہ انہیں نئے آرمی چیف کی قیادت میں کام کرنے والی ”فوج“ (رینجرز نہیں)نے گرفتار کیا تو ان کے مداحین فرطِ جذبات سے مغلوب ہوگئے۔ ان کے فطری ”احتجاج“ کو مگر ”لوٹ مار اور آتش زنی“ کا نام دیتے ہوئے تحریک انصاف کو کمزور کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔

تحریک انصاف کو کمزور کرنے کی کاوشوں کا ذمہ دار انہوں نے بالواسطہ انداز میں موجودہ عسکری قیادت کو ٹھہرایا۔ یہ تاثر دیا کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو یقین ہے کہ نئے انتخاب انہیں پاکستانی سیاست سے فارغ کردیں گے۔اسی باعث وہ ”سپریم کورٹ“ کے احکامات کی ”حکم عدولی“ کرتے ہوئے نئے انتخاب سے کترارہی ہیں۔ عمران خان صاحب کا دُکھ یہ محسوس ہورہا تھا کہ نئی عسکری قیادت پی ڈی ایم جماعتوں کی ”فکرمندی“ دور کرنے کے لئے تحریک انصاف پر ”ظلم“ ڈھانا شروع ہوگئی ہے۔

تحریک انصاف کے خلاف جاری ”ظلم کی داستان“سناتے ہوئے عمران خان نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پاکستان کی ”تاریخ“ میں ”آج تک“ کسی جماعت کی خواتین کو گرفتار نہیں کیا گیا۔

ذاتی طورپر مجھے رینجرز کے ہاتھوں عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری نے بہت تکلیف پہنچائی ہے۔تحریک انصاف کے اندازِ سیاست کی بابت ہزاروں تحفظات کے باوجود میں تحریک انصاف کے مختلف رہ نماﺅں کے گھروں پرچھاپوں کی حمایت نہیں کرسکتا۔سابق وزیر اعظم کی چند مداح خواتین کے ساتھ بھی پولیس کا رویہ قابل مذمت ہے۔مذکورہ بالا رائے کے اظہار کے باوجود فرید ذکریا جیسے پھنے خان ”صحافی“ کو (جو امریکہ کی ایک مشہور یونیورسٹی کا ہونہار طالب علم بھی ر ہا ہے) یاد دلانا چاہوں گا کہ صحافت کا بنیادی فریضہ Fact Checkیعنی حقائق کی تصدیق بھی ہے۔وطن عزیز کی ”تاریخ“میں تحریک انصاف کی خواتین ”پہلی بار“ ریاستی جبر کی زد میں نہیں آئیں۔ فرید ذکریا کو غالباََ بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام معلوم نہیں۔ وہ کئی بار جنرل ضیاءکے دور میں جیل گئیں یا گھروں میں نظر بند رہیں۔ ان کے ساتھ ہوئے سلوک کی بابت فرید ذکریا جیسے ”محقق“ ہونے کے دعوے دار کو علم ہونا چاہیے تھا۔ وہ مگر چار منٹ تک نہایت احترام اور فکر مندی سے عمران خان کی سنائی درد بھری داستان سنتا رہا۔احتیاطاََ فرید کو یہ بھی یاد دلادوں کہ مریم نواز نامی بھی ایک خاتون ہیں۔ عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران انہیں اپنے جیل میں مقید والد کے روبرو گرفتار کرنے کے بعد جیل میں عام مجرموں کی طرح رکھا گیا تھا۔

فرید ذکریا اور عمران خان کی تسلی کے لئے مان لیتے ہیں کہ ”خواتین“ ہونے کے باوجود بیگم نصرت بھٹو ،محترمہ بے نظیر اورمحترمہ مریم نواز جابرانہ رویے کی غالباََ اس وجہ سے مستحق تھیں کیونکہ ان کا تعلق مبینہ طورپر ”کرپٹ خاندان“ سے تھا۔اگست 1983میں لیکن جمہوریت بحالی کے مطالبے کے ساتھ ایک تحریک چلی تھی۔ فرید ذکریا اگر ”تحقیق“ کو آمادہ ہوتو فقط یہ معلوم کرلے اس تحریک کے دوران سندھ میں مورونام کے ایک قصبے سے نکلے جلوس پر ہیلی کاپٹر سے برسائی گولیوں نے کتنی خواتین کو ہلاک یا زخمی کیا تھا۔ اس تحریک کے دوران رسول بخش پلیجو کی تشکیل کردہ خواتین کی ایک ”سندھیانی“ تحریک بھی تھی۔اس کی سینکڑوں اراکین بھی گرفتار ہوئی تھیں۔

پاکستان کی تاریخ میں سیاسی نظریات کی وجہ سے پولیس تشدد کا ذکر کروں تو عاصمہ جہانگیر کو بھی یاد رکھنا ہوگا۔ 1981کی ایک تصویر آج بھی ریکارڈ میں موجود ہے جواس بہادر خاتون کو ہمارے عوامی شاعر حبیب جالب کے ہمراہ لاہور کے مال روڈ پر پولیس کی برسائی لاٹھیوں اور آنسو گیس کا مقابلہ کرتے ہوئے دکھاتی ہے۔مزید واقعات لکھوں تو کتاب درکار ہوگی۔ فرید ذکریا کی ”صحافت“ کو ”دور سے سلام“ کے بعد آپ سے اجازت کا طلب گار ہوں۔

Exit mobile version