Site icon DUNYA PAKISTAN

اے ٹی سی سے 8 مقدمات میں ضمانت منظور، عمران خان نیب کی تفتیش میں بھی شامل

Share

سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی عدالت سے 8 مقدمات میں ضمانت میں توسیع حاصل کرنے کے بعد القادر ٹرسٹ کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب کی تفتیش میں شامل ہوگئے۔

عمران خان جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں انسداد دہشتگردی عدالت میں پیشی کے بعد نیب کے راولپنڈی آفس پہنچے ہیں۔

نیب کی کمبائنڈ انوسٹی گیشن ٹیم نے عمران خان کو شامل تفتیش کرتے ہوئے انہیں سوالنامہ دے دیا۔

نیب کے سوالنامے میں پوچھا گیا کہ دسمبر 2019 میں برطانیہ سے غیرقانونی رقم کی واپسی کی منظوری کے لیے سمری کیوں تیار کروائی ؟ دسمبر 2019 میں برطانیہ سے غیرقانونی رقم کی واپسی کو سرنڈر کرنے کی منظوری کیوں دی ؟ ملزمان سے بدلے میں القادر یونیورسٹی کی زمین اور دیگر مالی فائدے کیوں لیے ؟

سوالنامے میں مزید پوچھا گیا کہ اعلیٰ ترین عوامی عہدے پر بیٹھ کر اختیارات کا ناجائز استعمال کیوں کیا؟ اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے ملزمان سے مالی فائدے کیوں حاصل کیے ؟ برطانیہ سے غیر قانونی رقم ملزمان کو واپس کرکے مجرمانہ عمل کیوں کیا؟ برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی سے خط و کتابت کو خفیہ کیوں رکھا گیا؟ ایسٹ ریکوری یونٹ کی سمری کو خفیہ کیوں رکھا گیا؟

قبل ازیں اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی عدالت نے سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی 8 مقدمات میں عبوری ضمانتوں میں 8 جون تک توسیع کردی جبکہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے القادر ٹرسٹ کیس میں اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی 31 مئی تک درخواست ضمانت منظور کرلی۔

عمران خان القادر ٹرسٹ کیس میں نیب راولپنڈی اور 8 مقدمات میں ضمانت کے لیے انسدادِ دہشت گردی اسلام آباد کی عدالت میں پیشی کے لیے اہلیہ بشریٰ بی بی کے ہمراہ لاہور سے جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد پہنچے۔

علاوہ ازیں نیب نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو القادر ٹرسٹ کیس کی تحقیقات کے حوالے سے آج بیان ریکارڈ کرانے کے لیے سمن جاری کر رکھا ہے۔

اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں سابق عمران خان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج 8 مقدمات میں درخواستِ ضمانت پر سماعت ہوئی۔

درخواست ضمانت پر انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس سماعت کی جہاں عمران خان اپنے وکیل سلمان صفد کے ہمراہ پیش ہوئے۔

سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مجموعی طور پر 8 مقدمات ہیں، ہم تفتیشی افسر کو تمام بیانات دے چکے ہیں، جے آئی ٹی ٹیم عمران خان کو شامل تفتیش کر چکی ہے، یہاں کوئی کا مسئلہ نہیں ہے، تفتیشی افسران کے لیے دستخط شدہ بیانات آگئے ہیں، اگر ان کے مزید بھی کوئی سوال ہیں تو ہم ان سے تعاون کریں گے، گزارش ہے کہ تمام مقدمات میں ایک ہی دن دلائل دینے کی اجازت دی جائے۔

عدالت کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ آپ ایک کیس میں تو دے ہی سکتے ہیں، عمران خان شامل تفتیش ہوچکے ہیں، اس پر سلمان صفدر نے کہا کہ ہم نے نیب میں بھی پیش ہونا ہے، عمران خان کی اہلیہ بھی ساتھ ہیں، عدالت اجازت دے تو آئندہ سماعت پر دلائل دوں گا، لاہور انسداد دہشتگردی عدالت کے جج نے کمرہ عدالت میں ہی شامل تفتیش کرایا، ہماری استدعا یہی ہے کہ کمرہ عدالت میں ہی شامل تفتیش کیا جائے۔

دوران سماعت پراسیکیوٹر نے کہا کہ عمران خان کو بارہا بلایا گیا، وہ تفتیشی افسر کے سامنے پیش نہیں ہوئے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں حکم دیا تب بھی پیش نہ ہوئے، جے آئی ٹی بنی، یہ جے آئی ٹی کے سامنے بھی پیش نہیں ہوئے۔

پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ 4 مقدمات میں جے آئی ٹی بنی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کا عدالتی حکم نامہ پیش کیا 27 مارچ کو ایک ہی حکم نامہ ہوا، نوٹسز ہوتے رہے چھ اپریل،اٹھارہ اپریل کو پیش ہوں یہ پیش نہیں ہوئے، 3 مئی کو کہا اگلی تاریخ میں لازمی پیش ہوں لیکن پھر بھی شامل تفتیش نہیں ہوئے۔

جج نے استفسار کیا کہ آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ آپ کو ڈائریکشن ہوئی ہے آپ نے عمران خان کے پاس جانا تھا، کیا آپ نے سوالنامہ ان کو دیا ہے؟ اس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ 4 مقدمات میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنی لیکن یہ ان میں پیش نہیں ہوئے، پھر کہا گیا ٹانگ خراب ہے یہ پیش نہیں ہو سکتے، عدالت سے استدعا ہے کہ ڈائریکشن دیں ملزم مقدمات میں شامل تفتیش ہو۔

سلمان صفدر نے کہا کہ میں بیانات لیے پھر رہا ہو لیکن ان کو کوئی لینا نہیں چاہتا، جج نے استفسار کیا کہ پنجاب کے جو مقدمات تھے ان میں جے آئی ٹی نے کیسے کام کیا، سلمان صفدر نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی بنائی گئی اور پوری جے آئی ٹی زمان پارک میں آئی اور شامل تفتیش کیا گیا۔

جج نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ کیا چاہتے ہیں کس طریقے سے عمران خان بیان ریکارڈ کرائیں؟ پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ عمران خان جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو جائیں، جہاں بلایا جائے وہ آئیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ جب عمران خان پولیس لائن میں آپ کی کسٹڈی میں تھے تب کیوں بیان نہیں لیا گیا؟ پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ وہ اس وقت نیب کی کسٹڈی میں تھے۔

جج نے ریمارکس دیے کہ کسٹڈی از کسٹڈی، یہ کیا بات ہوئی؟ آپ میرے پاس نہیں آسکتے تھے کہ اجازت دیں ہم نے بیان لینے جانا ہے؟ آپ ایسا نہ کریں، میں پھر کیس لا کی طرف آجاؤں گا، پشاور میں عدالت نے حکم نامہ دیا ہوا ہے کہ کسٹڈی کسٹڈی ہوتی ہے۔

دوران سماعت عمران خان روسٹرم پر آگئے اور عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ایک قاتلانہ حملہ ہوا، دوسرا جوڈیشل کمپلیکس میں ہوا، جب میں گھر سے باہر نکلتا ہوں تو اپنی جان رسک کرتا ہوں، وزیر داخلہ کہہ رہے ہیں میری جان کو خطرہ ہے، میں کہہ رہا ہوں خطرہ ہے، لاہور میں جے آئی ٹی میرے گھر آئی، وہیں تفتیش کی، ہم نے تعاون کیا، صرف چاہتا ہوں کہ جیسے لاہور ہائی کورٹ نے کیا اسی طرح شامل تفتیش کرلیں۔

عدالت نے اسستفسار کیا کہ جے آئی ٹی یہاں موجود ہے؟ پراسیکیوٹر نے عدالت کا آگاہ کیا کہ جے آئی ٹی یہاں موجود نہیں ہے، اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ تو ان کی سنجیدگی کا حال ہے، اگر وہ سنجیدہ ہوتے تو یہاں موجود ہوتے، جے آئی ٹی کا کوئی بندہ یہاں ہونا چاہیے تھا۔

عدالت نے آدھے گھنٹے میں جے آئی ٹی کو طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ جے آئی ٹی آئے اور بتائے کہ وہ کیسے ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں۔

بعدازاں انسدادِ دہشت گردی عدالت نے عمران خان کی عبوری ضمانتوں میں 8 جون تک توسیع کردی، جس کے بعد عمران خان نیب کے راولپنڈی آفس روانہ ہوگئے۔

لوگ پارٹی چھوڑ نہیں رہے، چھڑوائی جارہی ہے، عمران خان

دورانِ سماعت عمران خان نے کمرہ عدالت میں غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لوگ پارٹی چھوڑ نہیں رہے، چھڑوائی جارہی ہے، کنپٹی پر بندوق رکھ کر پارٹی چھڑوا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کبھی پارٹیاں ختم نہیں ہوتیں، پارٹی اس طرح ختم ہوتی ہے جیسے پی ڈی ایم ختم ہورہی ہے، جس طرح پی ڈی ایم کا ووٹ بینک ختم ہو رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میں صرف کارکنان اور خواتین کے لیے پریشان ہوں، جس طرح کارکنان اور خواتین کے ساتھ سلوک کیا جارہا ہے۔

بشریٰ بی بی کی 31 مئی تک حفاظتی ضمانت منظور

قبل ازیں اسلام آباد کی احتساب عدالت میں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی درخواست ضمانت منطور کرلی گئی۔

القادر ٹرسٹ کیس میں بشری بی بی کی درخواست ضمانت پر سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

وکیل خواجہ حارث اور بیرسٹر گوہر کی جانب سے دائر درخواست میں استدعا کی گئی کہ نیب کی جانب سے ملزمہ بشریٰ عمران کو گرفتار کیا جا سکتا ہے، عدالت بشریٰ عمران کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرے۔

عدالت نے بشریٰ بی بی کی 5 لاکھ مچلکوں کے عوض 31 مئی تک بشریٰ بی بی کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔

بعدازاں عدالت نے بشریٰ بی بی کی این سی اے 190 ملین پاؤنڈ القادر ٹرسٹ کیس میں عبوری ضمانت کا تحریری حکمنامہ بھی جاری کردیا۔

تحریری حکمنامے میں کہا گیا کہ عدالت کے سامنے اس وقت ریکارڈ موجود نہیں ہے، ملزمہ بشریٰ بی بی کی 5 لاکھ مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کی جاتی ہے، تفتیشی افسر آئندہ سماعت پر ریکارڈ کے ساتھ پیش ہوں، بشری بی بی کی ضمانت 31 مئی تک منظور کی جاتی ہے۔

سیکیورٹی انتظامات

عمران خان کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پیشی کے پیش نظر جوڈیشل کمپلیکس کے باہر اسلام آباد پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی۔

جوڈیشل کمپلیکس کی سڑک کو سیل کردیا گیا جبکہ غیرمتعلقہ افراد پر جوڈیشل کمپلیکس کی طرف جانے پر پابندی عائد کردی گئی، پولیس کی چیکنگ کے بعد جوڈیشل کمپلیکس کی طرف صرف متعلقہ افراد کو جانے کی اجازت دی گئی۔

جوڈیشل کمپلیکس کے باہر انسدادِ دہشت گردی اسکواڈ اور رینجرز کی نفری بھی تعینات کردی گئی۔

پسِ منظر

واضح رہے کہ عمران خان کے خلاف تھانہ سنگجانی، بارہ کہو، سی ٹی ڈی ، تھانہ گولڑہ میں ایک ایک مقدمہ درج ہے جبکہ تھانہ رمنا اور تھانہ کھنہ میں 2، 2 دہشتگردی کے مقدمات درج ہیں۔

رواں ماہ 9 مئی کو ہونے والی گزشتہ سماعت میں عمران خان اسلام آباد میں درج 7 مختلف مقدمات میں ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے جوڈیشل کمپلیکس پہنچے تھے جہاں انہوں نے وکالت ناموں پر دستخط کیے۔

عدالت نے ہدایت کی کہ عمران خان کی تمام 7 درخواستوں پر دستخط اور انگوٹھے لگوا لیں، بعد ازاں عدالت نے عمران خان کی 7 مقدمات میں 50، 50 ہزار کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کر لی تھی۔

عدالت نے 23 مئی (آج) تک ضمانت منظور کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر پولیس سے ریکارڈ طلب کر لیا تھا۔

تاہم اسی روز یعنی 9 مئی کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے رینجرز کی مدد سے القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کو گرفتار کرلیا تھا۔

گرفتاری کے اگلے روز عمران خان کو پولیس لائنز میں منتقل کردہ احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا، عدالت میں نیب نے ان کے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی تاہم عدالت نے انہیں عمران خان کا 8 روزہ ریمانڈ دے دیا تھا۔

بعدازاں پاکستان تحریک انصاف نے اپنے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا تھا، رہنما پی ٹی آئی فواد چوہدری اور بیرسٹر علی ظفر نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

11 مئی کو سپریم کورٹ نے عمران خان کی القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتاری غیرقانونی قرار دیتے ہوئے ان کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

12 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی القادر ٹرسٹ کیس میں 2 ہفتوں کے لیے عبوری ضمانت منظور کرلی تھی۔

15 مئی کو لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی نیب کی جانب سے القادر ٹرسٹ سے متعلق انکوائری میں 23 مئی تک حفاظتی ضمانت منظور کرلی تھی۔

17 مئی کو نیب نے عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس کی تحقیقات کے لیے 18 مئی کو ہیڈکوارٹرز راولپنڈی میں طلب کرلیا تھا تاہم عمران خان 18 مئی کو نیب کے سامنے پیش نہیں ہوئے تھے۔

بعد ازاں 19 مئی کو نیب نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو القادر ٹرسٹ کیس کی تحقیقات کے حوالے سے 23 مئی کو (آج) بیان ریکارڈ کرانے کے لیے دوبارہ سمن جاری کردیا تھا۔

القادر ٹرسٹ کیس

یہ سب 5 سال پہلے اس وقت شروع ہوا جب برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے خاندان کے ساتھ 19 کروڑ پاؤنڈز مالیت کے تصفیے پر اتفاق کیا۔

این سی اے کے جاری کردہ بیان کے مطابق تصفیے میں برطانیہ کی ایک جائیداد، 1 ہائیڈ پارک پلیس، لندن، شامل تھی جس کی مالیت تقریباً 5 کروڑ پاؤنڈ تھی اور تمام رقم ملک ریاض کے منجمد اکاؤنٹس میں آگئیں۔

اسی سال جب یہ پتا چلا تھا کہ ملک ریاض نے کراچی کے مضافات میں ضلع ملیر میں ہزاروں ایکڑ اراضی غیر قانونی طور پر حاصل کی تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس کے عوض ملک ریاض کی رئیل اسٹیٹ کمپنی، بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کی جانب سے 460 ارب روپے کے سیٹلمنٹ واجبات کی پیشکش قبول کر لی تھی۔

این سی اے کے فیصلے کے چند گھنٹے بعد ملک ریاض نے ٹوئٹ کیا تھا کہ برآمد شدہ رقم، سپریم کورٹ کے 460 ارب روپے جرمانے کی ادائیگی میں جائیں گے۔

بعدازاں جب این سی اے نے 3 دسمبر کو اپنے فیصلے کا اعلان کیا تو یہ رقم حکومت پاکستان کے اکاؤنٹ کے بجائے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹس میں منتقل کر دی گئی جبکہ اس وقت کے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے دعویٰ کیا تھا کہ رقم براہ راست ریاست کے پاس آئے گی۔

بعد میں اس ابہام کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے جواب دیا تھا کہ ’کیا سپریم کورٹ حکومت کا حصہ نہیں ہے؟ لہٰذا اگر پیسہ سپریم کورٹ میں جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پیسہ ریاست کے پاس آتا ہے‘۔

جون 2022 میں یہ معاملہ ایک مبینہ آڈیو لیک ہونے کے بعد دوبارہ سامنے آیا جس میں مبینہ طور پر ملک ریاض اور ان کی بیٹی کے درمیان ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی تھی، جس میں دونوں کو عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی دوست فرح خان عرف گوگی کے فرضی مطالبات کے بارے میں بات کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔

عمران خان کی حکومت کے کچھ مبینہ احسانات پر، خاتون نے اپنے والد کو بتایا کہ فرح نے انہیں بتایا تھا کہ (سابق) خاتون اول نے ان سے 3 قیراط کی ہیرے کی انگوٹھی قبول نہ کرنے کو کہا تھا اور 5 قیراط کا مطالبہ کیا تھا۔

گزشتہ برس یکم دسمبر کو بظاہر رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے قریبی ساتھیوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش میں قومی احتساب بیورو نے علی ریاض اور دیگر فائدہ اٹھانے والوں کو پیش ہونے کو کہا۔

نیب کے نوٹس میں کہا گیا کہ اختیارات کے غلط استعمال، مالی فوائد اور اعتماد کی مجرمانہ خلاف ورزی کے الزامات کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ علی ریاض ملک اور دیگر نے حکومت پاکستان کو فنڈز کی واپسی کے لیے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیہ کا معاہدہ کیا۔

مزید برآں میسرز بحریہ ٹاؤن نے القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے موضع برکالا، تحصیل سوہاوہ، ضلع جہلم میں واقع 458 ایکڑ، چار مرلہ اور 58 مربع فٹ زمین عطیہ کی ہے، لہٰذا آپ کے پاس ہر وہ معلومات/شواہد ہیں جو مذکورہ جرم (جرائم) کے کمیشن سے متعلق ہیں۔

غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق عمران خان کی اہلیہ ٹرسٹ کے ٹرسٹیز میں سے ایک ہیں۔

Exit mobile version