منتخب تحریریں

مصر کا بازار اور صحافی کا قلم

Share

ہماری سیاست پر ایک اور عشرہ زیاں گزر گیا۔ پیدا کرنے والے کی قسم، ہمیں گزرنے والے ناٹک پر کوئی اختیار تھا اور نہ آنے والے مناظر میں کوئی دخل ہے۔ گزشتہ عہد میں بھی راہِ جفا کے اندھے موڑ اور پاتال کی خبر لانے والی کھائیوں کی نشاندہی کرتے رہے، کبھی گوش شنوائی نصیب نہیں ہوا۔ آئندہ بھی کسی نگہ نیم باز سے پرسش احوال کی توقع نہیں۔ ایک موسم کے گزر جانے اور اگلے موسم کی نمود کے بیچ نئے خد و خال کی ترتیب، خطوط کی رعنائی اور بوئے نفس کی جداگانہ پہچان کا وقفہ عبور گرچہ مختصر ہوتا ہے لیکن ’فکر والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت‘۔ منیر نیازی تو اپنے امتحان میں سرخرو رہے، ہمارے لئے کچھ اوبھے اوبھے سانس کھینچنے کی عقوبت باقی ہے۔ ہمارا سیاسی بحران تو گزشتہ صدی کے پنجابی تھیٹر میں بالی جَٹی اور عنایت حسین بھٹی کا تنبو قنات ناٹک ہے۔ ایک ہی اسکرپٹ کو مقبول گیتوں کے پامال پراگے میں انمل مکالموں کے معمولی رد و بدل سے بار بار دہرایا جاتا ہے۔ کل فیصل رضا عابدی تھے تو آج فیصل واوڈا ہیں۔ کل کوثر نیازی تھے تو آج جلیل شرقپوری ہیں۔ کل طاہر القادری تھے تو آج طاہر اشرفی ہیں۔ کل فیصل صالح حیات تھے تو آج جہانگیر ترین ہیں۔ اصل بحران معیشت، خارجہ پالیسی اور سیاسی تسلسل سے تعلق رکھتا ہے۔

معیشت میں پڑھنے والوں کو دلچسپی نہیں۔ عجیب قوم ہے۔ سارا وقت غربت اور مہنگائی کا رونا روتی ہے لیکن معیشت کے کیف و کم پر سوچنے کی روادار نہیں۔ آج بھی اس زمانے میں بیٹھے ہیں جب کرائے پر غیروں کی درپردہ خدمات کے عوض نان جویں مل جایا کرتی تھی ۔ اب مگر پورب اور پچھم سے من و سلویٰ اترنے کے دن گزر گئے۔ سرد جنگ ختم ہوئے زمانہ بیت گیا۔ آج کی دنیا میں نئی صف بندیاں ہیں اور مقابلے کے نئے دائو پیچ۔ کہیں G 7 کے سات بڑے صنعتی ممالک ہیں تو کہیں G 20 کے دولت مندوں نے پھڑ جما رکھی ہے۔ کہیں بحرالکاہل سے پیوستہ چار کھلاڑیوں نے QUAD کے عنوان سے بساط بچھا رکھی ہے تو کہیں ایشیا کے جنوب مغرب میں دس ریاستوں نے ASEAN کے نام سے مورچہ مرتب کر رکھا ہے۔ وسطی ایشیا اور روس کے پانچ ممالک نے Eurasian Economic Union کے نام سے علاقائی تعاون کی تنظیم قائم کر رکھی ہے۔ حالیہ عرصے میں ایک طرف ایران اور سعودی عرب سمیت بیشتر عرب ممالک کے تعلقات بہتر ہوئے ہیں، دوسری طرف خطے میں اسرائیل کا کردار تبدیل ہو رہا ہے۔ نئے زمانے میں حقیقی معاشی مقابلہ تو امریکہ اور چین میں ہے۔ چین رقبے کے اعتبار سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک اور ایک ارب چالیس کروڑ آبادی کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ 33 کھرب ڈالر کا جی ڈی پی دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ مینو فیکچرنگ اور برآمدات میں پہلے نمبر پر ہے۔ چنانچہ چین نے بھی بھارت، پاکستان اور وسطی ایشیا کے ممالک ملا کر شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن قائم کر رکھی ہے۔ یہ Aldous Huxley کی Brave New world ہے۔ ہکسلے نے اس ناول کا عنوان شیکسپیئر کی تمثیل The Tempest کی کردار Miranda کے ایک مکالمے سے مستعار لیا تھا۔

How many goodly creatures are there here!

How beauteous mankind is! O brave new world

ہکسلے کے طنزیہ ناول کے لئے یہ بہترین استعارہ تھا کہ شیکسپیئر کی میرنڈا اپنی معصومیت میں جزیرے پر موجود کرداروں کی خباثت سے قطعی بے خبر ہے۔ ہم مگر نئی مردم شماری کے مطابق 25 کروڑ شہری ان حقائق سے نظر نہیں چرا سکتے کہ ہماری برآمدات کا گودام خالی ہے۔ قرض کی تمسک پر واجب الادا اعداد و شمار ڈالر کی قیمت سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ 40 برس قبل تعلیم، صحت اور شہری سہولتوں کا بجٹ کاٹ کر قرض کی واپسی اور دفاعی اخراجات بچا لئے تھے۔ اب قرض کی اقساط کا حجم دفاعی اخراجات سے بڑھ گیا ہے۔ ٹیکس روپوں میں جمع ہوتا ہے اور درآمدات کے لئے ڈالر ادا کرنا پڑتے ہیں۔ خام مال درآمد نہیں ہو گا تو برآمدات کا شعبہ کیسے فعال ہو گا۔ گویا خارجہ پالیسی اور داخلی بیانیے پر بیک وقت نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ خارجہ پالیسی کا احوال یہ ہے کہ کوئی شاہراہ دستور کے سیکٹر G۔ 5 سے جاری ہونے والے بیانات کو نظر بھر کر بھی نہیں دیکھتا۔ وجہ جاننا ہو تو انیسویں صدی کے ہندوستان میں چلئے۔ بہادر شاہ ظفر دہلی کے لال قلعے میں فروکش تھے لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کا صدر مقام کلکتہ میں تھا۔ یہ محض اتفاق نہیں تھا کہ 10 مئی 1857 کے آندولن میں بنگال کی 74پیادہ اور رسالے کی 10رجمنٹوں نے بغاوت کر دی لیکن پنجاب اور شمال مغربی سرحد کی چھائونیاں خاموش رہیں۔ 9 مئی 2023 کو ہنگامہ کرنے والے درجنوں سویلین عمارتوں کو چھوڑ کر دفاعی تنصیبات کی طرف لپکے۔ انتظار حسین حیات ہوتے تو انہوں نے لکھا ہوتا، ’صاحبو! مئی کا مہینہ شورش کے لئے اچھا شگن نہیں، ستمبر، اکتوبر کے خوشگوار موسم میں البتہ گومتی کا پانی اتر جاتا ہے۔ چنانچہ شاعر اور صحافی کو کمپنی بہادر کے ترانے لکھنے میں سہولت ہوتی ہے۔ ‘ سو جسے دین و دل عزیز ہو، وہ ان دنوں اخبار اور ٹیلی ویژن پر حب الوطنی کے اٹھلاتے چشموں میں ڈبکی لگائے اور گنگا نہائے۔’ رسالہ در اسباب بغاوت ہند‘ لکھے۔’ حکومت برکات انگلشیہ سرکار ‘ رقم کرے۔ یہ سوال البتہ سر اٹھاتا رہے گا کہ ہمیں اپنی نائو مغرب کے پانیوں میں ڈالنا ہے یا چین بہادر سے دوستی گانٹھنا ہے۔ یہ درویش تو صرف یہ عرض کر سکتا ہے کہ آنے والے برسوں میں وہی قوم ترقی کر سکے گی جس کے تعلیمی ادارے انسانی سرمایہ پیدا کریں گے، جس کی زرعی پیداوار کلبلاتی آبادی کی بھوک مٹا سکے گی، جس کے کارخانوں کا پہیا گھومتا رہے گا اور جس کے بازاروں میں غیر ملکی سیاح بے خوف و خطر سیر چمن کو نکلیں گے۔ رہی سیاست تو گزشتہ مقتدر جماعت کو جوق در جوق خیرباد کہنے والوں کی حب الوطنی میں کون کافر شک کر سکتا ہے۔بادشاہ مر گیا، بادشاہ زندہ باد۔