منتخب تحریریں

ایک نہ ختم ہونے والا اذیت ناک سفر

Share

چار سال پہلے کی بات ہے، ملک کے دور افتادہ علاقے میں ایک رہنما احتجاجی مارچ کر رہا تھا ، وہ رہنما ریاست کی اچھی کتابوں، بولے تو گُڈ بُکس میں نہیں تھا ، سو اسے روکنے کی کوشش کی گئی ، وہ نہ رکا، جواب میں فائرنگ کر دی گئی جس کے نتیجے میں کم ازکم تیرہ مظاہرین جاں بحق ہوگئے۔اِن غریبوں کی شناخت کے بارے میں اتنا کہنا کافی ہے کہ یہ اربن مڈل کلاس پنجابی نہیں تھے ۔فی الحال اِس بات کویہیں چھوڑتے ہیں اور اپنی لاڈلی برگر کلاس کی بات کرتے ہیں جس نےاِس مرتبہ ضرورت سے زیادہ بڑی واردات کردی ہے۔اب اِن کے چاہنے والوں کوسمجھ نہیں آرہی کہ اِس کا دفاع کیسے کریں ۔ چاہنے والوں کا بس نہیں چل رہا کہ سیدھا یہ لکھ دیں کہ فوجی املاک اور شہیدوں کی یادگاروں کو تباہ کرنے والوں کےمحض کان کھینچ کر(کان بھی زور سے نہیں کھینچنے) رہاکردیں، یہ ہمارے بچے ہیں، شریر ہیں، جذباتی ہیں، اِن کا کوئی قصور نہیں ، جو انہوں نے کیا وہ کئی برسوں کی محرومیوں کا نتیجہ ہے، یہ تو نظام کی ناکامی کا غصہ تھا، ریاست کو چاہئے اِن سے پیار محبت سے پیش آئےاوراِن کے لئے عام معافی کا اعلان کردے،بدلے میں یہ اچھے بچے بن کر رہیں گے،البتہ اگرانہیں جیل بھیج دیا گیاتو یہ تخریب کار بن کر نکلیں گے۔ اِس دلیل کے جواب میں اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ گزشتہ دس سال سے اِن کےلئے عام معافی ہی چل رہی تھی جس کی وجہ سے آج ہم یہاں پہنچے ہیں ۔ جو کام اِن بلوائیوں نے کیا اگر اُس کا دس فیصد بھی کسی نے بلوچستان یا فاٹا میں کیا ہوتا تو اخبارات میں یہ بحث ہی نہ ہورہی ہوتی کہ اِن سے کیا سلوک کیا جائے۔جس واقعے میں تیرہ مظاہرین جاں بحق ہوئے تھے وہ اِس کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔

ایک اور بات یہ لوگ بہت شدو مد سے کر رہے ہیں کہ فائیو اسٹار انقلابیوں کو جس بے رحمی سے گرفتار کیا جا رہا ہے اُس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔اصل میں اِن کی تاریخ شروع ہی ایک سال پہلے ہوئی ہے ، اِس سے پہلے ملک میں کیا ہوتا تھا انہیں کچھ نہیں پتا، کس طرح آمریتوں میں لوگوں نے صعوبتیں برداشت کیں اِن کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ۔ایک دلیل ڈیفنس کے اِن چہ گویراؤں کےحق میں یہ بھی دی جا رہی ہے کہ اصل قصور تو سیکورٹی اداروں کا ہے جنہوں نے حساس عمارتوں کی حفاظت نہیں کی ، اگر وہ بروقت کارروائی کرتے تو اتنا نقصان نہ ہوتا۔ یہ دلیل دیتے وقت اِن کےحامی بڑے غیر محسوس انداز میں بلوائیوں کو کلین چِٹ دے رہے ہیں مگر اِس دلیل میں بھی وزن نہیں کیونکہ جو لوگ اِن کے محض پکڑے جانے پر یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں پیار محبت سے سمجھا بجھا کر چھوڑ دیا جائے،اُن کو اگر موقع پر گولیاں ماردی جاتیں تو ملک میں کس قسم کا کہرام مچتا،یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔لال مسجد کا آپریشن اِس کی چھوٹی سی مثال ہے۔برگر انقلابیوں کے دفاع میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ سب نوجوان تو پُر امن احتجاج کا حصہ تھے مگر ایک سازش کے تحت اُس احتجاج میں کچھ فسادی شامل ہوگئے جنہوں نے تمام توڑ پھوڑکی اور تباہی مچائی لہٰذا اُن فسادیوں کو پکڑ کر سزا دینی چاہئے۔اِس دلیل کی پڑتال بھی کرلیتے ہیں۔پچھلے چند برسوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ کہیں کچھ لوگ اکٹھے ہو کر کسی شخص کو توہین مذہب کے نام پر قتل کر دیتے ہیں۔یہ اِس لئے ہورہا ہے کہ ملک میں انتہا پسندی کا ایک ماحول بنا دیا گیا ہے جس کے تحت لوگوں میں اشتعال اور انتہا پسندی کُوٹ کُوٹ کر بھر دی گئی ہے ، اب انہیں کسی کے حُکم کا انتظار نہیں کرنا پڑتا، وہ خود ہی عدالت لگاتے ہیں اور موقع پر ہی سزا سنا دیتے ہیں۔ سیاسی شعور کے نام پر بھی ہم نے یہی کچھ کیا ہے،جب آپ اپنے پیروکاروں کو مسلسل یہ کہیں گےکہ آپ حق پر ہیں اور آپ کے مخالف باطل لہٰذا آپ نے اُن کے خلاف جہاد کرنا ہے تو لا محالہ اِس بیانئے کا وہی نتیجہ نکلے گا جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اِس حقیقت سے انکار کرنا ممکن نہیں ، باقی جو مزاجِ یار میں آئے۔

اب تصویر کا دوسرا رُخ دیکھتے ہیں۔دوسرا رُخ یہ ہے کہ جنہیں ہم فائیو اسٹار انقلابی کہہ رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ سچ مُچ انقلابی ہوں،ضروری تو نہیں کہ ہمیشہ غریب اور پسے ہوئے طبقے کے لوگ ہی انقلاب لائیں ، پڑھا لکھا اور متمول طبقہ بھی تو ملک کی خاطر جدو جہد کر سکتا ہےلہٰذاعین ممکن ہے کہ یہ جدو جہد درست سمت میں ہو مگر پھر دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا،اگریہ واقعی حق و باطل کا معرکہ ہے، جہاد ہے،آزادی کی جنگ ہے تو ایسی جدو جہد میں ضمانتیں نہیں کرواتے، ممی ڈیڈی کو یہ نہیں کہتے کہ فلاں انکل کو فون کرکے کہیں کہ مجھے کینٹ تھانے سے چھڑا لیں ، فار گاڈ سیک یہاں اے سی بھی نہیں اور مچھر بھی بہت ہیں۔چہ گویرا اور ماؤ زے تُنگ نے عدالتوں سے رجوع نہیں کیا تھا۔دوسرا، کیا یہ لوگ واقعی نظریاتی ہیں اور اِن کی جنگ کسی نظریے کی خاطر ہے؟ نہیں ،ایسا نہیں ہے، اسے دیوتا کی محبت میں دیوانگی تو کہا جا سکتا ہےمگرنظریاتی جنگ نہیں کہہ سکتے ، اگر یہ نظریاتی جنگ ہوتی تو کسی ایک شخص کی ذات کے گرد نہ گھومتی۔

سچ پوچھیں تو صورتحال قابل قبول نہیں ، کوئی جمہوریت پسند اور آزاد خیال شخص ایسا معاشرہ نہیں چاہتا جہاں بنیادی انسانی حقوق سلب کئےجا تے ہوں، مگر مصیبت یہ ہے کہ جمہوریت پسندوں کے لئے اِن بلوائیوں نے کوئی راستہ ہی نہیں چھوڑا۔یہاں دانشوروں کو صرف اپنا ریکارڈ درست رکھنے کی فکر ہے ، وہ بڑھ چڑھ کرغیر قانونی اقدامات کی مذمت تو کر رہے ہیں، جو بالکل کرنی چاہئے ، مگر اُن کا مطمح نظر کوئی قابل عمل حل پیش کرنا نہیں بلکہ صرف شہیدوں میں نام لکھوانا ہے تاکہ سند رہے اور کل کو جب فسطائیت کا دور واپس آئے تو وہ اطمینان سے کہہ سکیں کہ ہم نے تو اُس وقت بھی مذمت کی تھی اورآج بھی مذمت کر رہے ہیں۔دانشوروں کی اِس روش کی وجہ سے آج ہم واپس اُسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے، خدا ہی جانتا ہےکہ یہ سفر کتنا طویل اور اذیت ناک ہے!