پنجاب میں انتخابات پر نظرِ ثانی کی درخواستوں پر سماعت میں چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ماضی کو حکومت کے خلاف استعمال نہیں کریں گے، حکومت کی نہیں اللہ کی رضا کے لیے بیٹھے ہیں، ہم اللہ کے لیے کام کرتے ہیں اس لیے چپ بیٹھے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے دائر نظرِ ثانی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل دلائل شروع کریں لیکن میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل عدالت نے کہا تھا نظر ثانی درخواست میں الیکشن کمیشن کے اٹھائے گئے نکات پہلے کیوں نہیں اٹھائے تھے، دوسرا نقطہ تھا وفاقی حکومت پہلے 3-4 رکنی بینچ کے چکر میں پڑی رہی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک صوبے میں انتخابات ہوں تو قومی اسمبلی کا الیکشن متاثر ہونے کا نقطہ اٹھایا گیا تھا اور اپنے جواب میں 3-4 کا فیصلہ ہونے کا ذکر بھی کیا تھا۔
اٹارنی جنرل کے نکات پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے آپ کو خوش آمدید کہا، گڈ ٹو سی یو کہا، آپ کو گھبرانا نہیں چاہیے، عدالت آپ کی سماعت کے لیے بیٹھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی معقول نقطہ اٹھایا گیا تو جائزہ لے کر فیصلہ بھی کریں گے، عدالت میں نقطہ اٹھایا گیا لیکن اس پر بحث نہیں کی گئی، کل نظر ثانی کے دائرہ اختیار پر بات ہوئی تھی۔
اپنے لوگوں سے کہیں ایوان میں سخت باتیں نہ کیا کریں، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ماضی کو حکومت کے خلاف استعمال نہیں کریں گے، حکومت کی نہیں اللہ کی رضا کے لیے بیٹھے ہیں، بہت سی قربانیاں دے کر یہاں بیٹھے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ اپنے لوگوں سے کہیں کہ ہمارے دروازے پر ایسی باتیں نہ کریں، ایوان میں بھی کھڑے ہوکر سخت باتیں نہ کریں، ہم اللہ کے لیے کام کرتے ہیں اس لیے چپ بیٹھے ہیں۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے لیکن جس ہستی کا کام کر رہے ہیں وہ بھی اپنا کام کرتی ہے، آپ صفائیاں نہ دیں عدالت صاف دل کے ساتھ بیٹھی ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہماری ہر چیز درست رپورٹ نہیں ہوتی، کہا گیا عمران خان کو عدالت نے مرسیڈیز دی تھی، میں تو مرسیڈیز استعمال ہی نہیں کرتا، پولیس نے عمران خان کی مرسیڈیز کا بندوبست کیا تھا، اس بات کو پتا نہیں کیا سے کیا بنا دیا گیا، ہم نے آپ کو خوش آمدید کہا، گڈ ٹو سی یو کہا۔
دریں اثنا الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے روسٹرم پر آکر دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عدالت ہمیشہ آئین کی تشریح زندہ دستاویز کے طور پر کرتی ہے، انصاف کا حتمی ادارہ سپریم کورٹ ہے اس لیے دائرہ کار محدود نہیں کیا جاسکتا، مکمل انصاف اور آرٹیکل 190 کا اختیار کسی اور عدالت کو نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا 150 سال کی عدالتیں نظیریں غیر مؤثر ہوگئی ہیں، ڈیڑھ سو سالہ عدالتی نظیروں کے مطابق نظر ثانی اور اپیل کے دائرہ کار میں فرق ہے، اس سوال کا جواب آپ نے کل سے نہیں دیا۔
دائرہ کار بڑھایا تو کئی سال پرانے مقدمات بھی آجائیں گے، جسٹس منیب اختر
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ دائرہ کار پر آپ کی دلیل درست مان لیں تو سپریم کورٹ رولز کالعدم ہو جائیں گے، سپریم کورٹ رولز میں نظر ثانی پر ابھی تک کوئی ترمیم نہیں کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ دائرہ کار بڑھایا تو کئی سال پرانے مقدمات بھی آجائیں گے، کیسے ہو سکتا ہے سپریم کورٹ رولز کا نظرثانی سے متعلق آرڈر 26 پورا لاگو نہ ہو، آرڈر 26 پورا لاگو نہ ہونے سے نظر ثانی دائر کرنے کی مدت بھی ختم ہو جائے گی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا 10 سال بعد کوئی نظر ثانی دائر کر کے کہہ سکتا ہے رولز مکمل لاگو نہیں ہوتے، آپ کو شاید اپنی دلیل مانے جانے کے نتائج کا اندازہ نہیں ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین میں تو نظر ثانی دائر کرنے کی مدت بھی نہیں دی گئی، کیا فیصلے کے 20 سال بعد نظر ثانی دائر ہو سکتی ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے کہا کہ نظر ثانی دائر کرنے کے لیے مقرر کردہ مدت ختم نہیں ہونی چاہیے، سپریم کورٹ رولز بنانے والوں نے آئینی مقدمات میں دائرہ کار محدود نہیں رکھا، ملک کے تین بہترین ججز کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کر رہا ہوں جبکہ وقت کے ساتھ قانون تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ 70 سال میں یہ نکتہ آپ نے دریافت کیا ہے تو نتائج بھی بتائیں، نظر ثانی کا دائرہ کار سپریم کورٹ رولز میں موجود ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ رولز، نظر ثانی کے آئینی اقدام پر قدغن نہیں لگا سکتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دفعہ 184/3 کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے، احساس ہوا ہے کہ اس سے غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں، آپ کی نظر میں نظر ثانی کا دائرہ محدود ہونا درست نہیں ہے، آپ چاہتے ہیں نظر ثانی میں دائرہ وسیع کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا تھا سیکیورٹی اور فنڈز دے دیں انتخابات کروا دیں گے، اب ان تمام نکات کی کیا قانونی حیثیت ہے؟
الیکشن کمیشن نے صدر کو ایک ہی دن انتخابات کرانے کا مشورہ کیوں نہیں دیا، چیف جسٹس
الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ کی نظر میں نظر ثانی کا دائرہ محدود ہونا درست نہیں ہے، آپ چاہتے ہیں نظر ثانی میں دائرہ وسیع کیا جائے، اس نقطے پر اٹارنی جنرل سے رائے لیں گے، اب اصل مقدمہ کی جانب آئیں اس پر بھی دلائل دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 9 رکنی بینچ نے اپنے حکم میں اہم سوالات اٹھائے تھے، سیاسی جماعتوں کے مفادات کہیں اور جڑے ہوئے تھے، قانونی نکات پر دلائل کے بجائے بینچ پر اعتراض کیا گیا، سات رکنی بینچ عدالت کے حکم پر بنا ہی نہیں تو 4/3 کا فیصلہ کیسے ہوگیا۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت دو منٹ میں فیصلہ کر سکتی ہے کہ نظر ثانی خارج کی جاتی ہے تاہم عدالت قانونی نکات سن کر فیصلہ کرنا چاہتی ہے، الیکشن کمیشن نے صدر کو وہ صورتحال نہیں بتائی جو عدالت کو اب بتا رہے ہیں، صدر کو صرف تاریخ دینے کا لکھا گیا تھا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن کو بااختیار بنانے کی کوشش کرتی ہے، الیکشن کمیشن نے صدر کو ایک دن انتخابات کی ایڈوائس کیوں نہیں دی اور نہ سیکیورٹی اور نہ فنڈز کا بتایا، زمینی حالات کا ذکر کیے بغیر کہا جا رہا ہے 218/3 کے تحت مزید اختیارات دیے جائیں، آئین اختیار دیتا ہے تو استعمال کرنے سے پہلے آنکھیں اور ذہن بھی کھلا رکھیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ تلور کے شکار والے کیس میں بھی عدالت نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی، 16 ہزار ملازمین کے کیس میں نظر ثانی خارج ہوئی لیکن عدالت نے 184/3 اور 187 کا اختیار استعمال کیا اور ججز کیس میں بھی عدالت نے اپنا فیصلہ خود تبدیل کیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت نے ججز کیس میں از خود نوٹس کیس پر نظر ثانی کی تھی۔
بعد ازاں پنجاب انتخابات میں نظرِ ثانی کی درخواستوں پر مزید سماعت کل سوا 12 بجے تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔
انتخابات التوا کیس کا پس منظر
واضح رہے کہ 23 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30 اپریل بروز اتوار کو شیڈول پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کو ملتوی کردیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 8 اکتوبر کو ہوں گے، آئین کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے انتخابی شیڈول واپس لیا گیا اور نیا شیڈول بعد میں جاری کیا جائے گا۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ اس وقت فی پولنگ اسٹیشن اوسطاً صرف ایک سیکیورٹی اہلکار دستیاب ہے جبکہ پولیس اہلکاروں کی بڑے پیمانے پر کمی اور ’اسٹیٹک فورس‘ کے طور پر فوجی اہلکاروں کی عدم فراہمی کی وجہ سے الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
فیصلے کی تفصیل کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ اس صورت حال میں الیکشن کمیشن انتخابی مواد، پولنگ کے عملے، ووٹرز اور امیدواروں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے متبادل انتظامات کرنے سے قاصر ہے۔
مزید کہا گیا تھا کہ وزارت خزانہ نے ’ملک میں غیر معمولی معاشی بحران کی وجہ سے فنڈز جاری کرنے میں ناکامی‘ کا اظہار کیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے نشان دہی کی تھی کہ الیکشن کمیشن کی کوششوں کے باوجود ایگزیکٹو اتھارٹیز، وفاقی اور صوبائی حکومتیں پنجاب میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں انتخابی ادارے کے ساتھ تعاون کرنے کے قابل نہیں تھیں۔
الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے ردعمل میں 23 مارچ کو پی ٹی آئی نے پنجاب میں 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔
بعد ازاں 25 مارچ کو پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی تھی۔
جس پر 4 اپریل کو سماعت کرتے ہوئے عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن 90 دن سے آگے نہیں جاسکتا، الیکشن کمیشن کے غیر قانونی فیصلے سے 13 دن ضائع ہوئے، آئین اور قانون الیکشن کمیشن کو تاریخ میں توسیع کی اجازت نہیں دیتا، الیکشن کمیشن نے انتخابات کی 8 اکتوبر کی تاریخ دے کر دائرہ اختیار سے تجاوز کیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ صدر مملکت کی دی گئی تاریخ کا فیصلہ بحال کیا جاتا ہے، 30 اپریل سے 15 مئی کے درمیان صوبائی انتخابات کرائے جائیں۔
بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ملک بھر میں تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کرانے کے معاملے پر حکومتی اتحاد اور اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کو آپس میں مذاکرات کرنے کی بھی ہدایت کی تھی تاہم وہ مذاکرات کسی حتمی نتیجے کے بغیر ختم ہوگئے تھے۔