یہ آج سے کم و بیش چالیس برس پہلے کی بات ہے میں نے اور حضرت شاہ نے ہسپانیہ (اسپین) کی سرزمین پر قدم رکھا تو اس کے گلی کوچوں میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے دیوانہ وار گھومتے ہوئے یہ احساس نہیں ہوا کہ ہم کسی اجنبی سرزمین پر گھوم رہے ہیں کہ طارق بن زیاد کی سرزمین ہمارے لئے اجنبی کیسے ہو سکتی ہے۔ کھجور کے درختوں، مالٹوں کے باغات اور سرخ مٹی والی یہ زمین پائوں پکڑ پکڑ لیتی تھی۔غرناطہ کی ایک سڑک کے کنارے قطار اندر قطار کھڑے کھجور کے درختوں میں سے گزرتے ہوئے میں نے سڑک پر گری پکی ہوئی کھجوروں میں سے ایک کھجور منہ میں ڈالی کہ کھجور کے یہ درخت عبدالرحمٰن اول نے سرزمین ہسپانیہ میں لگائے تھے اور میں نے اس کھجور کی ملائمت میں صدیوں کا ذائقہ محسوس کیا۔
پہاڑ کی چوٹی پر بنے ہوئے عظیم الشان الحمرا پیلس میں ٹورسٹوں کے ساتھ گھومتے ہوئے بھی میں نے خود کو ٹورسٹ محسوس نہیں کیا کہ میں تو اس خزانے کا وارث تھا ۔ الحمرا کی ایک ایک اینٹ پر لاغالب الا اللہ (اللہ کے سوا کوئی غالب نہیں) کے الفاظ کندہ تھے اور یہ الفاظ اس وقت لکھے گئے تھے جب شہنشاہ خود کو خدا سمجھا کرتے تھے۔ فنون لطیفہ کے سرپرست جس مسلمان بادشاہ نے یہ محل تعمیر کیا تھا اس کی بادشاہت نہ رہی، یہ محل بھی اپنی اصلی شکل میں قائم نہ رہا لیکن خدا کی بادشاہی آج بھی تمام کائناتوں میں قائم و دائم ہے کہ ساری کائناتوں کا مالک وہی ہے ۔ ایک مقامی ٹورسٹ نے مجھ سے پوچھا کہ اس محل کے درو دیوار پر ایک ہی عبارت جگہ جگہ لکھی ہوئی ہے، یہ کیا ہے؟۔میں نے اسے بتایا کہ اللہ کے غالب ہونے کا اقرار ہے۔ اللہ کا نام سن کر وہ چونکی اور اس نے کہا کہ ہم لوگ جب کسی بات پر حیران ہوتے ہیں تو اپنی اسپینش میں ’’ہنہ‘‘ کہتے ہیں اور میں اس کی بات پر چونکا کہ مسلمان اسپین سے چلے گئے پیچھے اللہ کا نام چھوڑ گئے۔
اسپین میں اب مسلمان نظر نہیں آتے۔ جب مسلمانوں پر زوال آیا تو انہیں چن چن کا قتل کردیا گیا اور یوں ان کی نسل ختم کردی گئی ۔ ایک ہزارسالہ حکومت کے بعد زوال کی کئی وجوہ تلاش کی جاسکتی ہیںلیکن ابن خلدون کے نظریہ تاریخ کے مطابق کسی قسم کا عروج اور زوال ایک ایسا عمل ہے جیسا ایک بیج سے پودے کا پھوٹنا، اس کا بڑا ہونا، ثمر آور ہونا اور بالآخر روبہ زوال ہونا۔ میں وہاں ان ’’موروں‘‘ (مسلمان) کی تلاش کرتا رہا جن کے قدموں کی آہٹ سننے کے لئے اقبال آج بھی بے قرار ہے۔
کون سی منزل میں ہے، کون سی وادی میں ہے
عشق بلاخیز کا قافلہ سخت جاں
مگر مجھے وہاں کوئی ’’مور‘‘ نظر نہیں آیا۔ فٹ پاتھ پر گھڑیاں بیچتے ہوئے ایک سیاہ فام سے میں نے یونہی پوچھا ’’آر یو مسلم، اس نے کہا ’’یس‘‘ اور پھر خاموشی سے کلمہ پڑھا ’’اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمد عبدہ و رسولہ ‘‘اس سیاہ فام مسلمان کا تعلق سینیگال سے تھا اور وہ حصول رزق کے لئے اسپین میں آباد ہوگیا تھا۔ اب ہم رزق کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں پہلے خدا کا پیغام دنیا میں پھیلانے کے لئے اپنے آرام دہ گھروں سے بہت دور نکل جایا کرتے تھے اور جن کشتیوں پر سوار ہو کر ساحلوں پر اترتےتھے ان کشتیوں کو جلا دینے کا حکم دیتے تھے کہ واپسی کا خیال دلوں میں نہ آئے۔
غرناطہ سے قرطبہ کی طرف جاتے ہوئے پھر وہی کھجوروں کے جھنڈ ہم پاکستانی زائرین کو یہ احساس دلانے کے لئے ہمارے راستوں میں کھڑے تھے کہ تم یہاں اجنبی نہیں ہو۔ ہم تمہارے کلمہ گو بھائیوں کی نشانی ہیں لیکن مسجد قرطبہ میں داخل ہوتے ہوئے یہ تسلیاں میرے کسی کام نہ آئیں اور اس ناقابل یقین حد تک خوبصورت مسجد کی تنہائیاں دیکھ کر میری آنکھیں پرنم ہوگئیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کا پروفیسر رابرٹ مسجد قرطبہ کو دنیا کی خوبصورت عمارت قرار دیتا ہے۔ اس کی نظریں یہیں تک جا سکتی تھیں اس کےلئے یہ جاننا مشکل ہے کہ یہ محض سنگ و خشت سے بنی ہوئی عمارت نہیں ہے۔ اس میں ان مسلمان غازیوں ، مجاہدوں اور شہیدوں کے دل دھڑکتے ہیں جنہوں نے جہالت میں ڈوبے ہوئے یورپ کو علم کی روشنی سے روشناس کرایا اور یوں اس مسجد کے چہرے پر پھیلا ہوا صدیوں کا نور ہی اس کی خوبصورتی ہے۔ اس مسجد کی تنہائی دور کرنے کے لئے یورپ کے ’’لبرل‘‘ باسیوں نے اس کے ایک حصے میں چرچ بنا دیا تھا جو آج بھی ان کی ’’فراخ دلی‘‘ کا ثبوت دینے کے لئے موجود ہے۔ چنانچہ جب میں اس مسجد کے بے شمار ستونوں میں سے ایک ستون کے پیچھے اپنے خدا کے حضور سجدہ ریز تھا، چرچ کی گھنٹیاں مسلسل سنائی دے رہی تھیں۔
مسجد کے مین گیٹ سے باہر ایک اسپینش نوجوان سر پر ہیٹ پہنے بانسری نما کوئی چیز بیچ رہا تھا اور گھیرے دار اسکرٹ پہنے ہوئی اس کی گرل فرینڈ اس کے ساتھ اٹکھیلیاں کرنے میں مشغول تھی۔ تھوڑی دیر بعد نوجوان نے جیب سے سگریٹ اور چرس نکالی اور پھر دونوں بھرے ہوئے سگریٹ کا دھواں مسجد قرطبہ کی فضائوں میں بکھیرنے لگے۔ میں اور حضرت شاہ مسجد کے برابر میں بہتے ہوئے دریائے کبیر کی طرف نکل گئے مگر وہاں دریا کی جگہ گھنی جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں۔ ہم بہت دیر تک پل پر کہنیاں جمائے یونہی کھڑے رہے۔ اقبال نے وہاں کھڑے ہو کر ایک نئے زمانے کا خواب دیکھا تھا۔ حضرت شاہ نے ایک نظر خشک دریا پر ڈالی اور پھر اقبال کے شعر پڑھے:؎
آب روان کبیر ،تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالم نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب