Site icon DUNYA PAKISTAN

گوانتاناموبے کا ’قیدی فنکار‘ اور اس کے فن پارے

Share

نتاشا ملک کی جانب سے پیش کی جانے والی نمائش ’دی ان فورگوٹن مون: لیبرٹنگ آرٹ فرام گوانتانامو بے‘ ایک فنکارانہ کوشش ہے جو کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک ٹیکسی ڈرائیور احمد ربانی کی 21 سالہ الم ناک قید پر مرکوز ہے۔ احمد ربانی کو امریکا پر 11 ستمبر کے حملوں کی ذمہ دار تنظیموں میں سے ایک سے وابستہ دہشت گرد ہونے کے جھوٹے الزام پر گوانتاناموبے جیل میں قید رکھا گیا تھا۔

انڈس ویلی اسکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر گیلری میں منعقد ہونے والے اس شو میں کچھ ایسے فن پاروں کی نمائش کی گئی جو احمد ربانی نے اس وقت تخلیق کیے تھے جب وہ بغیر کسی الزام کے زیرِ حراست تھے اور ان پر تشدد کیا جارہا تھا۔ اس شو میں مزید 10 فنکاروں کے فن پارے بھی شامل کیے گئے جنہوں نے احمد کی بنائی ہوئی ان پینٹنگز جو اس وقت سینسر کی گئی تھیں انہیں دوبارہ تخلیق کیا۔ اس کام کے لیے انہوں نے احمد کے وکیل کی طرف سے لکھے گئے ان پینٹنگز کے تفصیلی نوٹس سے مدد لی۔

وہ فن پارے اب بھی امریکی حکومت کی تحویل میں ہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ یہ پینٹنگز قومی سلامتی کے لیے براہِ راست خطرہ ہیں۔ جب میں نے احمد ربانی سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے تو انہوں نے کہا ’کیونکہ وہ یہ نہیں چاہتے کہ دنیا کو معلوم ہو کہ امریکا میں بنیادی انسانیت کا بھی فقدان ہے‘۔

آرٹ شو اپنی کہانی سنانے اور ناقابلِ فراموش نقوش چھوڑ جانے کا ایک عمل ہے۔ ظاہری طور پر تو یہ احمد ربانی کی ذاتی کہانی پر مشتمل نمائش ہے لیکن مجموعی طور پر اس میں امریکا اور پاکستان دونوں حکومتوں کے وحشیانہ کاموں، گوانتاناموبے کی بندش اور انصاف کے حوالے سے نظریات، سینسرشپ، بے گناہی اور ’ہمیشہ کے قیدی‘ (امریکا کی ٹارچر پالیسی جہاں قیدیوں کو بغیر کسی الزام کے غیر معینہ مدت تک قید کیا جاتا ہے) جیسے عوامل پر زور دیا گیا ہے۔

بلاعنوان (2018ء)

10 ستمبر 2002ء کو احمد ربانی کی پوری زندگی ہی ہمیشہ کے لیے تبدیل ہوگئی۔ انہیں ان کی اپنی ہی حکومت نے ان کے بھائی کے ہمراہ اغوا کیا اور جنرل پرویز مشرف کے دورِ صدارت میں کل 5 ہزار ڈالرز میں امریکا کو فروخت کردیا گیا۔ بعد میں امریکی اور پاکستانی حکومتوں نے دعویٰ کیا کہ غلطی سے انہیں مطلوب دہشت گرد حسن گل سمجھ لیا گیا تھا، لیکن احمد کا دعویٰ ہے کہ دونوں حکومتیں شروع سے ہی واضح طور پر جانتی تھیں کہ وہ حسن گل نہیں ہیں۔

اس آرٹ نمائش کا اہتمام اس عزم کے ساتھ کیا گیا کہ اس میں حصہ لینے والے دیگر فنکاروں کی پینٹنگز سے حاصل ہونے والی آمدنی کا 100 فیصد حصہ احمد ربانی کو دیا جائے گا، جو ابھی تک انہیں ملا تو نہیں لیکن امید ہے کہ جلد ہی یہ رقم انہیں مل جائے گی۔ احمد ربانی نے اپنے فن پاروں کو کراچی میں منعقد ہونے والے شو میں فروخت کرنے سے گریز کیا ہے۔ کراچی میں احمد آرٹ شو کے آغاز سے صرف دو ماہ قبل واپس آئے تھے۔

آرٹ شو کی کیوریٹر کے مطابق قرون وسطیٰ کی طرز کے تشدد کی تکنیکوں سے لے کر ایک بےگناہ شخص کی الم ناک آپ بیتی منظر عام پر آنے تک، احمد ربانی کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا پیمانہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ نتاشا جتنا زیادہ اسے پڑھتی تھیں، وہ اتنی ہی بے چین ہوتی جاتی تھیں۔ دوسری جانب احمد کی صورت حال بالکل مختلف ہے۔ انہوں نے ہمارے انٹرویو سے چند منٹ قبل مجھے اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ وہ پچھلے 48 گھنٹوں میں صرف دو گھنٹے سوئے ہیں اور ایسا انہوں نے احتیاط کے طور پر کیا۔

یہ سن کر میں سوچنے لگی کہ کیا مجھے ان سے اس وقت انٹرویو کرنا چاہیے یا نہیں، اس پر انہوں نے فوراً مجھے یقین دلاتے ہوئے جواب دیا کہ وہ ٹھیک ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ صرف کھڑے ہوکر سو سکتے ہیں اور یہ کہ وہ بستر پر بالکل نہیں سو سکتے کیونکہ جیسے ہی ان کا سر تکیے پر ٹکتا ہے، وہ بیدار ہوجاتے ہیں۔ وہ اکثر نیند میں چہل قدمی بھی کرتے ہیں کیونکہ یہ سرگرمی انہیں سکون اور آرام فراہم کرتی ہے۔

احمد ربانی نے باضابطہ طور پر 2011ء میں پینٹنگ کرنا شروع کی تھی لیکن انہیں اپنا پہلا کینوس 2016ء میں ملا۔ تو اس سے قبل وہ پینٹنگ کیسے کرتے تھے؟ اور کس پر کرتے تھے؟ بنیادی طور پر کسی بھی چیز جیسے ڈینم کے ٹکڑے، ساتھی قیدیوں کے یونیفارم کے کپڑے اور یقیناً اردگرد کی دیواروں پر وہ فن پارے تخلیق کرتے تھے۔ جیل میں پینٹ کے استعمال کی اجازت سے پہلے وہ کافی، چائے پاؤڈر اور گریوی کو آرٹ کے مواد کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ وہ کاغذ، ٹشو رولز اور اپنے جیل کی کوٹھری کی دیواروں پر پینٹ کرتے تھے۔ کبھی کبھار بدلہ لینے اور جیل کے محافظوں کو ناراض کرنے کے لیے وہ انسانی فضلے کا استعمال بھی کرتے تھے۔

احمد ربانی

احمد ربانی تمام تر صلاحیتوں کا سہرا اپنے بلاک سے تعلق رکھنے والے ایک یمنی قیدی صابری القریشی کو دیتے ہیں جسے وہ اپنا ’استاد‘ کہتے ہیں۔ یہ دلچسپ ہے کہ یمنی آرٹ اور احمد ربانی کے انداز میں کچھ مماثلتیں پائی جاتی ہیں جیسے پس منظر میں شہر کے مناظر کی تکرار اور کسی موضوع کو پینٹ کرنے کا طریقہ۔ اگرچہ احمد ربانی نے ابتدائی طور پر پیسٹلز کو اپنے میڈیم کے طور پر استعمال کیا کیونکہ صابری بھی یہی استعمال کیا کرتے تھے، لیکن کافی تجربہ کے بعد انہوں نے بعد میں ایکریلیکس کو تسلی بخش پایا اور اب یہ ان کی بنیادی ترجیح ہے۔ اس کے بعد انہوں نے صابری کو ایکریلک پینٹنگ سکھائی جو فنکاروں کے طور پر ان کی دوستی کا ایک انداز ہے۔

بلاعنوان (2018ء) نامی فن پارے میں احمد ربانی نے امریکی آزادی کے مجسمے کو علامتی طور پر درخت سے لٹکے دکھایا ہے، اس سے حقیقت اور تصور کے درمیان فرق واضح ہوتا ہے۔ احمد ربانی آزادی کی عالم گیر علامت کے طور پر امریکا کے شان دار تصور پر سوال اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے امریکا کے شان دار تصور کو حقیقت سے دور قرار دیا اور ان کا یہ فن پارہ اس پر طنز ہے۔ انہوں نے امریکا کو آزادی کا فریب قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایران، افغانستان، پاکستان اور شمالی کوریا جیسے ممالک کو لیکچر دینے میں آگے آگے ہوتا ہے جبکہ اسے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔

اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ ان کی پینٹنگز میں آزادی کا موضوع بار بار دہرایا جاتا ہے۔ بلاعنوان (2018ء) میں عبادت گزاروں جو ظاہری طور پر مسلمان ہیں، کو ایک ایسے درخت کے سامنے سجدہ ریز دکھایا ہے جس پر امریکی آزادی کا مجسمہ پھل کی طرح لٹکا ہوا ہے، 2017ء میں ایک اور بلاعنوان پینٹنگ میں ہم نے دیکھا کہ لوگ آگ کی پرستش کررہے ہیں۔ یہ دیکھ کر تجسس ہوتا ہے کہ کیا یہ آگ وہی ہے جو آزادی کے مجسمے کے ہاتھ میں موجود مشعل سے نکلی ہے یا پھر احمد ربانی مذہب کی وحدانیت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور اس وجہ سے اسے انسانیت کی وحدانیت کے برابر قرار دے رہے ہیں، وہ اس جذبے کو بہت مقدس گردانتے ہیں۔

احمد ربانی کا کہنا ہے کہ ان کی تمام پینٹنگز کو جو چیز ایک ساتھ جوڑتی ہے وہ گوانتانامو جیل کی تلخ یادیں ہیں۔ قید اور سینسرشپ بھی ان کے فن پاروں کے اہم موضوعات ہیں۔ ایک تصویر میں حراستی مرکز کی تصویر کشی کی ہے جہاں ایک ڈھانچا ریمورٹ ہاتھ میں لیے پہلے سے کنٹرول شدہ ٹی وی چینلز کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہا ہے، اسی طرح ایک تصویر میں احمد ربانی عقوبت خانے میں خون سے لت پت ٹارچر کرسی پر بیٹھے ہیں۔ یہ فن پارے درگزر کے انداز میں تشدد اور سینسر شپ کے ان مختلف طریقوں کی عکاسی کرتے ہیں جن سے اس قیدی فنکار کو گزرنا پڑا۔ میں نے یہاں درگزر کے انداز میں اس لیے کہا ہے کیونکہ بدسلوکی کے باوجود، احمد کی نرم مسکراہٹ اور مزاح ایک امید کی عکاسی کرتا ہے جو کہ ان کے کام سے بھی عیاں ہے۔

اور آخر میں احمد ربانی درخواست کرتے ہیں کہ اس پیغام کو قارئین اور حکام تک پہنچایا جائے کہ ’میں اپنے آپ کو اس وقت تک آزاد نہیں سمجھوں گا جب تک میرے تمام بھائیوں کو گوانتاناموبے سے آزاد نہیں کیا جاتا۔ صرف ایک فرد کی قید کے ساتھ بھی میری زنجیریں واپس آجائیں گی‘۔

Exit mobile version