لاہور ہائی کورٹ میں اینکر عمران ریاض کی بازیابی سے متعلق درخواست کی سماعت میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) انویسٹیگیشن نے بتایا کہ آئی ایس آئی، ایم آئی نے کہا ہے عمران ریاض ان کے پاس نہیں ہیں۔
چیف جسٹس امیر بھٹی نے عمران ریاض کی بازیابی کے لیے ان کے والد محمد ریاض کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی، جس کے دوران آئی جی پنجاب کی جگہ ڈی آئی جی انوسٹی گیشن کامران عادل عدالت میں پیش ہوئے۔
درخواست گزار کے وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ ہم نے درخواست میں کچھ فریق شامل کرنے کے لیے متفرق درخواست دی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے کس کس کو فریق بنانا ہے؟ تو اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے بتایا کہ وزیر اعظم، وزیر اعلی پنجاب، سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری داخلہ کو فریق بنانا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیس کو سیاسی نہ بنائیں سیاسی بنائیں گے تو شاید کیس سن ہی نہ سکوں، سیکریٹریز کو تو ہم پہلے ہی نوٹس کر چکے ہیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کیس کو چلنے دیں ہمارا مقصد یہ ہے کہ عمران ریاض کو بازیاب کرا سکیں اس کی زندگی کو محفوظ بنانا ہے۔
وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ آج آئی جی پنجاب خود عدالت میں پیش نہیں ہوسکے آج ان کی حاضری معافی منظور کی جائے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئی جی پنجاب ہیں کدھر وہ کہاں مصروف ہیں یہ بتائیں؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ آئی جی پنجاب شہدا کی تقریب میں گوجرنوالہ میں ہیں اس لیے عدالت نہیں آئے۔
چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ آئی جی پنجاب کا گوجرانولہ جانے کا شیڈول کہاں ہے کس نے بھیجا وزیر اعلی یا کس نے جانے کا کہا وہ ریکارڈ دیں، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن نے کہا کہ ہم سارا ریکارڈ اور شیڈول جمع کرا دیتے ہیں۔
ڈی آئی جی انویسٹی گیشن نے عدالت کو بتایا کہ انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) نے کہا ہے کہ عمران ریاض ان کے پاس نہیں ہیں۔
ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے کہا کہ عمران ریاض کے والد نے درخواست دی ہے، وہ عدالت میں بات بھی کرنا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس امیر بھٹی نے کہا کہ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں، عدالت لوگوں کے دکھوں کو اپنے اندر جذب کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کرنا ہے، دیر سویر کو مسئلہ نہیں بنانا چاہیے، ہم نے زندگی کو محفوظ کرنا ہے، عدالت نے تحریری طور ہر جواب مانگا ہے۔
عمران ریاض کے والد نے عدالت کو بتایا کہ ’میرے بیٹے نے ایک وی لاگ کیا جس پر اسے انتقام کا نشانہ بنایا گیا‘۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ تو ذریعہ معاش بن گیا ہے کہ جتنے بڑے الزامات لگائیں اتنے پیسے آتے ہیں، جائیں قرآن پاک پڑھیں اور دیکھیں کہ قرآن کیا کہتا ہے۔
عدالت نے عمران ریاض کے وکلا کو آج پولیس کی ٹیم سے ملاقات کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ پولیس ٹیم سے ملاقات کر کے جو شواہد آپ کے پاس ہیں وہ انہیں فراہم کریں۔
بعدازں عدالت نے سماعت ملتوی کردی۔
عمران ریاض خان گرفتاری کیس
خیال رہے کہ عمران ریاض کو 11 مئی کو سیالکوٹ ایئرپورٹ سے بیرونِ ملک جاتے ہوئے مینٹیننس آف پبلک آرڈر رولز کے تحت گرفتار کر کے کینٹ پولیس اسٹیشن لے جایا گیا تھا اور بعدازاں سیالکوٹ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔
ان کے وکیل نے بتایا تھا کہ ’اس دوران ان کے اہلِ خانہ سے ان کا اس سے کوئی رابطہ نہیں ہوسکا تھا اور سوشل میڈیا پر کچھ افواہیں گردش کرنے لگیں تو 12 مئی کی صبح لاہور ہائی کورٹ میں وکلا کے ذریعے ایک رٹ پٹیشن دائر کی گئی‘۔
12 مئی کو ان کی بازیابی سے متعلق درخواست پر ہوئی سماعت میں ڈی پی او سیالکوٹ نے عدالت کو بتایا تھا کہ اینکر نے بیانِ حلفی جمع کرادیا تھا جس پر ان کی نظر بندی کے احکامات واپس لے کر جیل سے رہا کیا جاچکا ہے۔
جس پر عدالت نے پولیس کو عمران ریاض کی جیل سے رہائی کا ویڈیو ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
15 مئی کی سماعت میں لاہور ہائی کورٹ نے عمران ریاض کو گرفتار کرنے والے پولیس اہلکار کو معطل کردیا تھا جبکہ چیف جسٹس نے ایس ایچ او کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری اور ڈی پی او کو سخت کارروائی کا انتباہ دیا تھا۔
16 مئی کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سیالکوٹ کے ڈی پی او کو اینکر عمران ریاض خان کو 48 گھنٹوں میں پیش کرنے کے حکم کے ایک روز بعد سٹی پولیس نے نامعلوم افراد اور پولیس اہلکاروں کے خلاف ان کے اغوا کا مقدمہ درج کرلیا تھا۔
اینکر عمران ریاض خان کے والد محمد ریاض کی مدعیت میں لاہور کے تھانہ سول لائنز میں تعزیرات پاکستان کی سیکشن 365 کے تحت فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرلی گئی تھی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ اینکرپرسن کو پولیس اہلکاروں نے گزشتہ ہفتے سیالکوٹ ایئر پورٹ سے گرفتار کیا اور اس کے بعد سیالکوٹ جیل منتقل کر دیا گیا۔
درخواست گزار نے کہا تھا کہ گرفتاری کے وقت میرے بیٹے کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں تھا اور انہیں غیرقانونی طور پر حراست میں لیا گیا اور اس دوران اہل خانہ سے بھی ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
18 مئی کو لاہور ہائی کورٹ نے اینکر پرسن عمران ریاض کی بازیابی سے متعلق کیس میں پولیس کو کل (19 مئی) تک پیش رفت سامنے لانے کی ہدایت کی تھی۔
19 مئی کی سماعت میں پولیس کی جانب سے عمران کی گرفتاری سے متعلق ایک سی سی ٹی وی ریکارڈنگ عدالت میں چلائی گئی، جس میں انہیں جیل سے گاڑی میں لے جایا جا رہا تھا، فوٹیج میں تین گاڑیاں جیل کے باہر کھڑی تھیں اور ان میں سے ایک میں عمران ریاض کو ساتھ لے جاتے ہوئے دیکھا گیا۔
20 مئی کو عدالت نے پنجاب پولیس کو اینکرپرسن عمران ریاض خان کو 22 مئی (پیر) تک بازیاب کروا کر ہر صورت میں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
22 مئی کو ہوئی سماعت میں آئی جی پنجاب نے عمران خان کے ٹھکانے سے متعلق لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے ساری ایجنسیوں کےافراد کے ساتھ میٹنگ کی، پورے پاکستان کی پولیس سے پوچھ لیا ہے، کسی کے پاس عمران ریاض نہیں ہے۔