”ہم درد کے ماروں“ کو بالآخر مان لینا چاہیے کہ ”اپنے“ اپنے ہی رہتے ہیں۔ خدانخواستہ ان کے ہاتھوں لاہور کی خدیجہ شاہ سے منسوب کوئی حرکت نہ سرزد ہوجائے تو اکثر ان کی خطاﺅں کو درگزر کردیا جاتا ہے۔تازہ ترین مثال ہمارے ”اصل مالکوں“ کی جانب سے تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری اسد عمر کے ساتھ ہوا ”مشفقانہ“ سلوک ہے۔
9مئی کے بعد سے عمران خان کی بنائی جماعت کے خلاف کڑے وقت کا آغاز ہوچکا ہے۔اپنی سرشت میں یہ جماعت ”انقلابی“ کبھی نہیں رہی۔ عاشقان عمران کا انبوہ ہے۔ اس کے بانی کو بڑی لگن اور محنت سے ”اقتدار میں باریاں“ لینے والے ”چور اور لٹیروں“ کے مقابلے میں ”بندہ ایمان دار ہے“بناکر ہمارا ”دیدہ ور“ بنانے کی کوشش ہوئی تھی۔کسی زمانے میں عالمی شہرت یافتہ فاسٹ باﺅلر اور ورلڈ کپ جیتنے والی کرکٹ ٹیم کے ”کپتان“ بھی رہے تھے۔
کرکٹ میچوں کو ٹی وی سکرینوں پر ”لائیو“ دکھانے کا سلسلہ جنرل ضیاءکے مارشل لاءکے دوران نفسیاتی جنگ کے حتمی ماہر شمار ہوتے میجر جنرل مجیب الرحمن مرحوم نے نہایت مہارت سے اپنی نگرانی میں شروع کروایا تھا۔رومن ایمپائر والے اپنی رعایا کا جی بہلانے غلاموں کو شیروں سے لڑنے کے لئے اکھاڑے میں پھینک دیا کرتے تھے۔ٹی وی دورِ حاضر کا ایسا ہی ایک تماشہ ہے۔جنرل مجیب نے اس کی بدولت عوام کوسیاسی معاملات بھلاکر کرکٹ سے لطف اندوز ہونے کی علت میں مبتلا کیا۔ اتفاق یہ بھی ہوا کہ اپنے مربی جنرل ضیاءکی طرح تعلق ان کا بھی جالندھر کی مردم خیز مٹی سے تھا۔ عمران احمد خان نیازی ہونے کے باوجود اپنی والدہ کی وجہ سے اس شہر کے ”فرزند“ بھی تصور ہوتے تھے۔
جنرل مجیب ریٹائر ہوگئے تو نفسیاتی جنگ کے کارآمد حربے اس ہسپتال کے قیام کے لئے چندہ جمع کرنے کی مہم تیار کرنے پر مرکوز کردئیے جو عمران خان کرکٹ سے ریٹائر ہوجانے کے بعد کینسر جیسے موذی مرض کے علاج کے لئے شہر لاہور میں بنانا چاہ رہے تھے۔ ”چندہ مہم“ نے پاکستان کے تقریباََ ہر سکول میں پڑھنے والے بچے کو عمران خان کادیوانہ بنادیا۔ 1990ءکی دہائی میں سکول کی طالب علم رہی یہ نسل جوان ہوئی تو ”سیاستدانوں“ کا روپ دھارے ”چور اور لٹیروں“ کے خلاف عمران خان بھی سیاست میں کودپڑے۔ ”تبدیلی“ کا نعرہ لگاتی نوجوان نسل ”جب آئے گا عمران“ کے خواب دیکھنا شروع ہوگئی۔سیاست میں آکر مگر عمران خان خاطر خواہ جلوہ نہ لگاپائے۔ 1997ءکا عام انتخاب نواز شریف نے ”ہیوی مینڈیٹ“ کے ساتھ جیت لیا۔ خان صاحب کے حصے میں ایک نشست بھی نہ آئی۔ ”ہیوی مینڈیٹ“ کے نشے سے سرشار نواز شریف تاہم ”تاریخ“ بنانے کی جستجو میں مبتلا ہوگئے۔ اس ضمن میں پاکستان کے ازلی دشمن سے کوئی ایسا بندوبست ڈھونڈنا شروع کردیا جو سرمایہ دارانہ نظام کے حتمی نمائندے امریکی صدر نکسن نے کمیونسٹ نظام کے کٹر نمائندے ماﺅزے تنگ کے چین کے ساتھ 1970ءکی دہائی میں تشکیل دیا تھا۔ پاکستان کے ”ماﺅزے تنگ“ یعنی نواز شریف نے ”ازلی دشمن“ یعنی بھارت کے وزیر اعظم واجپائی کو بس میں بیٹھ کر لاہور آنے کی ترغیب دی۔ موصوف یہاں آئے تو مینارِ پاکستان بھی گئے جو ”دوقومی نظریہ“ کی علامت ہے جسے ہندوانتہاپسند ”بھارت ماتا“ کی تقسیم کا ذمہ دار تصور کرتے ہیں۔نواز شریف مگر نکسن یا ماﺅزے تنگ بن نہیں پائے۔ ”کارگل“ ہوگیا اور بالآخر جنرل مشرف قوم کو سیدھی راہ پر چلانے کے لئے ”اصل جمہوریت“ متعارف کروانے کی جدوجہد میں مصروف ہوگئے۔
اپنے ہدف پر لیکن وہ بھرپور توجہ اس لئے نہ دے پائے کیونکہ امریکہ میں نائن الیون ہوگیا۔اس کے بعد امریکہ کو ایک بار پھر پاکستان کی ”جغرافیائی اہمیت“یاد آگئی۔ افغان ”جہاد“ کا سیزن ٹو(2)شروع ہوگیا۔ اس با ر”وار آن ٹیرر“ اس کا عنوان تھا۔ عمران خان مشرف کی آمد سے بہت خوش ہوئے۔ موصوف کے بااعتماد معاونین کی کافی تعداد ویسے بھی خان صاحب کی گرویدہ تھی۔ 1999ءکی ایک انتہائی سرد رات ایچی سن کالج لاہور میں ان کے ساتھ پڑھے ایک مشترکہ دوست کے گھر عمران خان مجھے ایک کونے میں بیٹھاکر تفصیل سے بتاتے رہے کہ ”جنرل مشرف“ کی حمایت سے وہ اپنی ”عوامی مقبولیت“ کو بروئے کار لائیں گے تو پاکستان بدل جائے گا۔میں ان دنوں جھکی پن کے مرض میں شدت سے مبتلا نہیں ہوا تھا۔ ابن انشا کی طرح ”ہم چپ رہے….“ والے رویے کے ساتھ خان صاحب کی گفتگو سنتا رہا۔
جنرل مشرف کو مگر عمران خان کی”مقبولیت“ نہیں چودھری شجاعت کی سیاسی جوڑ توڑ والی ”فراست“ درکار تھی۔ وہ مسلم لیگ (ق) کی سرپرستی میں مصروف ہوگئے۔ خان صاحب خفا ہوکر ڈرون حملوں کے خلاف احتجاجی جلوس نکالنا شروع ہوگئے۔ یوں انہیں وار آن ٹیرر میں محصور ہوئے پشتون عوام کی حمایت بھی ملنا شروع ہوگئی۔ جنرل مشرف مگر عمران خان کی ”احتجاجی تحریک“ کی بدولت اقتدار سے فارغ نہیں ہوئے۔انہیں گھر بھیجنے کے بے تحاشہ عوامل تھے۔ وہ اقتدار سے فارغ ہوئے تو 2008ءکے انتخاب میں خان صاحب نے ”عدلیہ“ کی محبت میں حصہ نہیں لیا۔محترمہ بے نظیر کی شہادت نے پیپلز پارٹی کو طاقت ور بنایا۔ پنجاب اسے پھر بھی نصیب نہیں ہوا۔ وہ شریف خاندان کے ہاتھ واپس چلا گیا۔
اقتدار کے خواہاں افراد کو تتلیوں کی طرح نچانے والوں کو 2008ءمیں ”چور لٹیروں“ کی اقتدار میں واپسی پسند نہیں آئی۔انہیں لگام ڈالنے کو عمران خان سے رجوع کرنا پڑا۔ اس ضمن میں کامل تیاری کے بعد 2011ءمیں لاہور کے مینارِ پاکستان کے میدان میں ایک جلسہ ہوا اور بلے بلے ہوگئی۔ تحریک انصاف کا ”ایمپائر“ کی شفقت سے نیا جنم ہوا تو اسد عمر جیسے ”کارپوریٹ وزرڈ“ یعنی محض اپنی ذہانت کے بل بوتے پر گوگل اور اپیل جیسی کامیاب کمپنیوں کے خالق تصور ہوتے افراد بھی اس جماعت میں شامل ہونے لگے۔
میں ان دنوں بھی فریاد کرتا رہا کہ اسد عمر Steve Jobsنہیں جس نے آئی فون کو تقریباََ بنیادی ضرورت بنادیا ہے۔ موصوف کا ”شجرہ“ اور اس حوالے سے کاروباری حلقوں سے بنائے تعلق انہیں ”ہونہار“ بنائے ہوئے ہے۔ربّ کا شکر میں بالآخر درست ثابت ہوا۔اگست 2018ءمیں عمران خان وزیر اعظم بنے یا بنادئے گئے تو موصوف وزارت خزانہ کے مدار المہام بنائے گئے۔ان کے قائد یعنی عمران خان بارہا عوامی اجتماعات میں بڑھک لگاچکے تھے کہ وہ پاکستان کے لئے اقتصادی سہاروں کی تلاش میں آئی ایم ایف سے ر جوع کرنے کے مقابلے میں خودکشی کو ترجیح دیں گے۔ آئی ایم ایف کے ”تھاپڑے“ کے بغیر تاہم پاکستانی معیشت کو سنبھالنا مشکل تھا۔ اپنے قائد کی خوشنودی کے لئے اسد عمر نے اس ضمن میں ”اڑی“ دکھائی تو واٹس ایپ پیغام لکھ کر خان صاحب نے انہیں فارغ کردیا۔ ان کی جگہ آئی ایم ایف کے دیرینہ چہیتے ڈاکٹر حفیظ شیخ وزارت خزانہ کے مالک بنادئے گئے۔ اسد عمرکی انا کو لیکن دھچکا نہیں لگا۔ سرجھکائے ”اچھے دنوں“ کا انتظار کرتے رہے۔
سرجھکائے ”اچھے دنوں“ کے انتظار کی عادت ہی بدھ کی رات انہیں جیل سے باہر نکالنے کے کام آئی۔تحریک انصاف چھوڑی نہیں۔اس کے سیکرٹری جنرل کے عہدے سے لیکن مستعفی ہوگئے ہیں۔عمران خان کی بنائی تحریک انصاف کی کور کمیٹی سے بھی علیحدگی اختیار کرلی ہے۔ پریس کانفرنس کے بعد وہ جانے کہاں چلے گئے۔ ان کی پریس کانفرنس مگر واضح انداز میں بتارہی تھی کہ جہاں بھی گئے ہیں وہاں خوش ہی رہیں گے۔ انہیں فواد چودھری یا ڈاکٹر شیریں مزاری کی طرح ”گمنام“ رہنے کو مجبور نہیں کیا جائے گا۔