Site icon DUNYA PAKISTAN

’مائنس ون‘ کی بازگشت: عمران خان کے علاوہ پارٹی کی قیادت کون کر سکتا ہے اور کیا نئی قیادت ووٹر کو قابلِ قبول ہو گی؟

Share

پاکستان کی سیاست میں ’مائنس ون‘ فارمولا کی بازگشت ماضی میں متعدد مواقع پر نہ صرف سننے کو ملتی رہی ہے بلکہ اس کا عملی اظہار بھی سامنے آتا رہا ہے اور اب نو مئی کے واقعات کے تناظر میں ایک مرتبہ پھر یہی بازگشت تحریک انصاف اور عمران خان کے حوالے سے سننے کو مل رہی ہے۔

پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے (سابق) رہنماؤں کی جانب سے یکے بعد دیگرے کی جانے والی پریس کانفرنسز کے بعد ان چہ میگوئیوں میں تیزی آئی ہے۔

واضح رہے کہ نو مئی کے واقعات، جن کے دوران کور کمانڈر ہاؤس لاہور اور جی ایچ کیو سمیت مختلف عسکری تنصیبات کا جلاؤ گھیراؤ ہوا، کے بعد تحریک انصاف کے اکثر رہنما اور کارکن گرفتار کر لیے گئے۔ عدالتی احکامات کے بعد باوجود ان میں سے متعدد کو رہائی کے بعد فوراً دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔

ڈاکٹر شیریں مزاری، ملیکہ بخاری، مسرت جمشید چیمہ نے حال ہی میں رہائی کے فوری بعد پارٹی کو چھوڑنے کا اعلان کیا۔ ان کے علاوہ فواد چوہدری، ملک امین اسلم، عامر کیانی، فیض اللہ کموکا، چوہدری حسین الہی، چوہدری وجاہت حسین جیسے اہم نام اب تک پارٹی چھوڑنے یا سیاست سے الگ ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔

پارٹی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر بھی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ پارٹی عہدوں سے مستعفی ہو رہے ہیں تاہم انھوں نے فی الحال پارٹی چھوڑنے کا اعلان نہیں کیا۔

بڑھتے دباؤ کے پیش نظر عمران خان نے بدھ کے دن قوم سے خطاب میں تسلیم کیا کہ اس وقت ان سے رابطہ کرنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ عندیہ بھی دیا کہ وہ مشروط انداز میں ’پیچھے ہٹنے‘ کو تیار ہیں۔

اگرچہ ان کے اس بیان کے بارے میں زیادہ وضاحت موجود نہیں لیکن اس سے قبل تحریک انصاف کے سابق رکن اسمبلی جلیل شرقپوری یہ تجویز دے چکے ہیں کہ عمران خان پارٹی کو چوہدری پرویز الہی، اسد عمر یا شاہ محمود قریشی کے حوالے کر دیں۔

تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان کی جانب سے قیادت کسی اور کو سونپنے کے امکانات کم نظر آتے ہیں تاوقتیکہ قانونی مشکلات یا مقدمات اُن کے لیے پارلیمانی سیاست کا دروازہ بند نہ کر دیں۔

ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ ’مائنس عمران خان‘ فارمولا کے تحت تحریکِ انصاف کی قیادت کون سے رہنما کر سکتے ہیں اور کیا یہ صورتحال اس پارٹی کے کارکن کے لیے قابل قبول ہو بھی سکتی ہے یا نہیں؟

ان سوالات کا جواب تلاش کرنے سے قبل یہ ضروری ہے کہ عمران خان کی جانب سے قوم سے خطاب کا وہ حصہ سیاق و سباق کے ساتھ دیکھا جائے جس میں انھوں نے پیچھے ہٹنے کا عندیہ دیا۔

عمران خان نے کیا کہا تھا؟

عمران خان نے قوم سے خطاب میں کہا کہ ’جو لوگ یہ فیصلے کر رہے ہیں کہ عمران خان کو باہر رکھو، کیا ان کو نہیں نظر آ رہا کہ پاکستان ڈوب رہا ہے؟ کیا ان کو نہیں یہ نظر آ رہا کہ ان کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں؟‘

انھوں نے کہا کہ ’میں آج کمیٹی بنانے کے لیے تیار ہوں، ایک مذاکراتی کمیٹی، کسی سے بھی وہ، جو بھی آج طاقتور لوگ ہیں وہ بات کریں۔‘

’وہ دو چیزیں کر لیں، کیوںکہ اور تو مجھے سمجھ نہیں آ رہی ہم نے بڑی کوشش کر لی بات کرنے کی، جو یہ پہلے لوگ تھے وہ عجیب عجیب باتیں کرتے تھے کہ ہم تو اکتوبر میں الیکشن کروائیں گے۔‘

’وہ اس لیے کہ یہ انھوں نے ہمارے ساتھ کرنا تھا، جب کرش ہو جائے گی پی ٹی آئی، تب الیکشن کروائیں گے اور ان کے پاس کوئی جواب ہی نہیں تھا۔‘

عمران خان نے کہا کہ ’میں یہ کمیٹی بناتا ہوں۔ میں دو چیزیں کہتا ہوں۔ اگر اس کمیٹی کو یہ بیٹھ کر کہہ دیں کہ عمران خان کے بغیر، پاکستان بہتر ہو جائے گا اور آپ کے پاس کوئی حل ہے، میں پھر سے کہتا ہوں کہ اس ملک کی خاطر میں چھوڑ دیتا ہوں، میں پیچھے ہٹ جاتا ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یا اس کمیٹی کو یہ کہہ دیں کہ اکتوبر میں الیکشن کروانے سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا؟ یہ تو ہمیں سمجھ آ رہی ہے کہ ان کا خیال ہے کہ اکتوبر تک تحریک انصاف کو کرش کر دیں گے لیکن پاکستان کو کیا فائدہ ہے؟ ہم کیوں اکتوبر تک انتظار کر رہے ہیں۔‘

واضح رہے کہ اسی خطاب میں عمران خان نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ کسی کے پارٹی چھوڑ کر جانے سے فرق نہیں پڑتا اور الیکشن میں وہی جیتے گا جس کو وہ ٹکٹ دیں گے۔

جمعے کے دن عمران خان نے یہ اعلان بھی کیا کہ وہ ملک سے باہر جانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔

الیکٹیبلز اور جہانگیر ترین

عمران خان کے دعوے اپنی جگہ لیکن ایک ایسے وقت میں جب ایک جانب پارٹی کے عہدیدار دوری اختیار کرتے جا رہے ہیں اور دوسری جانب جہانگیر ترین لاہور میں متحرک ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، الیکٹیبلز یعنی بااثر سیاسی شخصیات کی ایک اکثریت اگر اپنا وزن کسی ایک پلڑے میں ڈال دے تو تحریک انصاف کے انتخابی امکانات کو دھچکہ ضرور پہنچے گا۔

تاہم جہانگیر ترین اپنی عدالتی نااہلی کے باعث اس وقت فعال سیاسی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں جس کا اعتراف انھوں نے حال ہی میں ’دی نیوز‘ اخبار کو انٹرویو میں بھی کیا۔

دوسری جانب عمران خان کے بعد پارٹی کی اہم ترین شخصیات میں شاہ محمود قریشی اب تک حراست میں ہیں اور حال ہی میں انھوں نے بیان دیا کہ وہ پارٹی نہیں چھوڑ رہے۔

ایسا ہی ایک بیان چوہدری پرویز الہی کی جانب سے بھی سامنے آ چکا ہے تاہم چوہدری پرویز الہی اب تک گرفتار نہیں ہیں اور اسی بیان میں انھوں نے فوج سے بہتر تعلقات قائم رکھنے کی امید کا اظہار بھی کیا۔

تحریک انصاف کے ایک اور رہنما اور سابق وزیر اعلی خیبر پختونخوا پرویز خٹک بھی موجودہ صورتحال میں منظر عام سے غائب ہیں۔

’مائنس ون کامیاب نہیں ہو گا‘

صحافی سہیل وڑائچ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پی ٹی آئی میں ایسی ایک ہی شخصیت ہے جو عمران خان کا متبادل ہو سکتی ہے اور وہ شاہ محمود قریشی ہیں۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف میں مائنس ون فارومولا کامیاب نہیں ہو گا کیوںکہ ’یہ فارمولا پہلے بھی کبھی کامیاب نہیں ہوا۔‘

سہیل وڑائچ نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ چوہدری پرویز الہی پرو اسٹیبلشمنٹ سیاست دان ہیں لیکن ان کی پارٹی میں آمد زیادہ پرانی نہیں اور ان کا پارٹی کے ورکر کے ساتھ تعلق بھی نہیں۔

سہیل وڑائچ نے کہا کہ عمران خان کا یہ کہنا درست ہے کہ پارٹی سے کسی کے جانے کا ان کی مقبولیت اور ووٹ بینک پر فرق نہیں پڑتا لیکن ’الیکٹیبلز کے جانے سے فرق پڑے گا۔‘

’الیکٹیبلز کا اپنا ووٹ بینک ہوتا ہے، جماعت کا اپنا ووٹ ہوتا ہے۔‘

سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کے مقابلے میں پنجاب میں الیکٹیبلز کے جانے سے تحریک انصاف کو زیادہ فرق پڑے گا۔

’عمران خان کی آشیرباد ضروری ہو گی‘

صحافی اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی بھی سہیل وڑائچ سے متفق ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ تحریک انصاف کا ووٹر جو نوجوان ہے اور خصوصاً خواتین ووٹر کا تعلق صرف عمران خان سے ہی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر اس حساب سے دیکھا جائے تو اگر عمران خان مائنس ہوتے ہیں، تو پھر کوئی ایسا ہی شخص پارٹی کو سنبھال سکے گا جس کو عمران خان کی آشیرباد حاصل ہو گی کیوںکہ عمران خان کے علاوہ کوئی اور اکیلے پارٹی کو سنبھال نہیں سکتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورتحال میں شاہ محمود قریشی ہی ہیں جو اب تک حراست میں ہیں تاہم عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ ’شاہ محمود قریشی کی پارٹی کے اندر کنتی حیثیت ہے، اس پر ایک سوالیہ نشان موجود ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میری معلومات کے مطابق تحریک انصاف کے اندر سے بہت سے لوگ جہانگیر ترین سے بھی رابطے میں ہیں جنھوں نے پارٹی کو بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔‘

عاصمہ کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین شاہ محمود قریشی کی نسبت زیادہ سیاسی اہلیت اور روابط رکھتے ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں عاصہ شیرازی نے کہا کہ عمران خان کی مقبولیت کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں لیکن مقبولیت اور الیکشن دو مختلف چیزیں ہیں۔

’آپ دیکھیں کہ کراچی سے 2018 میں تحریک انصاف کو 14 سیٹیں ملیں لیکن بلدیاتی انتخابات میں معاملہ کیا ہوا؟‘

عاصہ شیزاری نے کہا کہ پنجاب کے شہری علاقوں اور شمالی پنجاب میں عمران خان کی مقبولیت ضرور ہے لیکن پنجاب کی انتخابی سیاست میں الیکٹیبلز اور برادریوں کے ووٹ کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پرفارمنس یا نظریے اور بیانیے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ’تحریک انصاف کا مستقبل روشن نظر نہیں آتا‘ چاہے قیادت عمران خان کے ہاتھ میں ہی کیوں نہ ہو۔

’ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی اہلیہ کو آگے لے آئیں‘

صحافی عامر ضیا کہتے ہیں پاکستان کی سیاست میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور ہم ایسا پہلے ہوتے دیکھ چکے ہیں۔

عامر ضیا نے کہا کہ ’اگر عمران خان کو گرفتار کر لیا جاتا ہے یا نا اہل کر دیا جاتا ہے، جس کے امکانات موجود ہیں، تو پھر عمران کو کسی کو چننا پڑے گا۔‘

ان کے مطابق ’ایک نام اسد عمر کا نام تھا لیکن وہ ناقابل بھروسہ ثابت ہوئے۔‘ عامر ضیا نے کہا کہ ’شاہ محمود قریشی کے بارے میں تو کافی عرصے سے بات ہوتی رہی ہے کہ وہ عمران کا متبادل بنیں گے۔‘

تاہم عامر ضیا کی رائے میں عمران خان کسی ایسے شخص کو ہی چنیں گے جس پر ان کو بھروسہ ہو گا۔ ’ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی اہلیہ کو آگے لے آئیں۔‘

عامر ضیا نے کہا کہ ’تحریک انصاف میں موروثیت نہیں جبکہ عمران خان کی عمر بھی ایک مسئلہ ہے اور ان کے پاس وقت کم ہوتا جا رہا ہے۔‘

’ان کی پارٹی کی لیڈر شپ کی کارکردگی بھی متاثر کن نہیں رہی اور اب کئی لوگ چھوڑ کر بھی جا رہے ہیں۔‘ عامر ضیا کی رائے میں ’ایسے میں ہو سکتا ہے پارٹی کمزور ہو جائے، اگرچہ عمران خان کی ذاتی مقبولیت تو قائم رہے گی لیکن الیکشن حلقے کی سیاست کی بنیاد پر ہوتی ہے۔‘

’اگر حالات آپ کے خلاف ہو جائیں تو آپ کچھ نہیں کر سکتے اور اس وقت سب عمران خان کے خلاف ایک صفحے پر نظر آ رہے ہیں۔‘

ایک سوال کے جواب میں عامر ضیا کا کہنا تھا کہ ’اگر عمران خان کی جگہ قیادت کسی کو سونپی جاتی ہے تو اس کے دو ردعمل ہو سکتے ہیں۔‘

’ایک تو یہ کہ عمران خان کے ووٹر جوق در جوق ووٹ دیں اور دوسرا یہ ہو سکتا ہے کہ وہ بد دل ہو جائیں اور باہر نہ نکلیں۔‘

عامر ضیا کا کہنا تھا کہ ’یہ بات سمجھنی ہو گی کہ عمران خان ہوں یا نہ ہوں، وہ سیاست میں ایک فیکٹر رہیں گے کیوں کہ ایک بڑی تعداد میں لوگ سمجھتے ہیں کہ بڑی جماعتیں کرپٹ ہیں اور وہ تبدیلی نہیں لے کر آ سکتیں۔‘

’یہ لوگ اپنے خیالات نہیں بدلیں گے۔ اب ان کے خیالات اور مایوسی عمران خان کی شکل میں باہر آئے یا کسی اور شکل میں آئیں، وہ اپنی جگہ موجود رہے گا۔‘

Exit mobile version