2 ہزار سال قدیم انسانی دماغ آج تک اصل حالت میں کیسے ہے؟
2008 میں آثار قدیمہ کے ماہرین نے برطانیہ کے قدیم ترین انسانی دماغ کا ڈھانچہ دریافت کیا تھا جو حیران کن طور پر 2 ہزار 600 سال گزر جانے کے باوجود بھی اب تک بہتر حالت میں موجود ہے۔
یاد رہے کہ یارک یونیورسٹی کی ریسرچ کرنے والی آثار قدیمہ کی ایک ٹیم نے یہ انسانی دماغ دریافت کیا تھا اور اس وقت وہ حیران رہ گئے تھے کہ یہ اتنے سال تک کیسے بہتر حالات میں موجود ہے۔
تاہم اب اس دماغ کے ٹھیک حالت میں ہونے کے پیچھے چھپا راز سامنے آگیا۔
امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز کی رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا تھا کہ دماغ کو محفوظ رکھنے میں مختلف عوامل اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں جن میں دماغ کے پروٹین شامل ہیں جبکہ یہ بات بھی اہم کردار ادا کرتی ہے کہ اس شخص کو کس طرح دفن کیا گیا تھا۔
ماہرین کے مطابق ہوسکتا ہے کہ مضبوطی سے جڑے دماغی پروٹین نے اس قدیم عضو کو اب تک محفوظ رکھا ہو جبکہ ممکن ہے کہ اس فرد کی موت کس طرح ہوئی اور اسے کس انداز میں دفنایا گیا وہ بھی اسے محفوظ رکھنے کی وجہ ہو۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ دماغ انسانی جسم کا ایک ایسا عضو ہے جو موت کے بعد فوری گَل جاتا ہے، اینزائم فوری طور پر دماغ کے ٹشوز کو توڑ دیتے ہیں البتہ ماہرین کے مطابق ہوسکتا ہے اس شخص کی موت کے تین ماہ میں ہی وہ اینزائم غیر فعال ہوچکے ہوں، جس کی وجہ سے یہ آج تک سلامت ہے، دماغ میں تیزابی سیال کے داخلے کے باعث بھی اینزائم غیر فعال ہوسکتے ہیں۔
خیال کیا جارہا ہے کہ اس شخص کو پھانسی دی گئی جس کے بعد اس کا سر کاٹ دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ یونیورسٹی آف بریڈفورڈ میں آرکیالوجیکل سائنسز کے شعبے میں ریسرچ فیلو ڈاکٹر سونیا او کونور کا کہنا تھا کہ ایک انسانی دماغ کے ڈھانچے کا بچ پانا وہ بھی جب اسکے کسی ٹشو کو محفوظ نہیں رکھا گیا ہے بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے ہے۔
انسانی دماغ کا یہ ڈھانچہ ایک ایسے علاقے میں ملا تھا جو ایک تاریخی جگہ تھی اور وہاں ایسی عمارتیں ہیں جو کم سے کم سن تین سو سال قبل مسیح میں بنی تھیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل اس مقام پر اُس ہی سال کی شروعات میں یونیورسٹی می ڈپارٹمنٹ آف آرکیالوجی کی ایک ٹیم نے ایک قبر میں ایک ایسا انسانی ڈھانچہ دریافت کیا تھا جو شاید برطانیہ میں ٹی بی سے متاثرہ پہلا شخص تھا۔