جیسے جیسے ریپبلیکنز اور ڈیموکریٹس کے پاس امریکہ کی قرض لینے کی حد کو بڑھانے کا وقت گزرتا جا رہا ہے ویسے ویسے امریکی حکومت پر دیوالیہ ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
اگر جون سے قبل دونوں سیاسی جماعتیں کسی حتمی نتیجہ پر نہ پہنچ سکیں تو واشنگٹن اپنے قرض سے متعلق وعدے اور ادائیگیاں کرنے کے قابل نہیں رہے گا اور اس کے عالمی معیشت پر سنگین نتائج مرتب ہوں گے کیونکہ امریکہ دنیا کا مرکزی اقتصادی انجن تصور کیا جاتا ہے۔
حالیہ دنوں میں وائٹ ہاؤس اور ریپبلیکنز نے امریکی کانگریس میں یہ اشارے دیے ہے کہ مذاکرت مثبت طور پر آگے بڑھ رہے ہیں تاہم اس سے متعلق ہیجان کو روکا نہیں جا سکا ہے۔
اس صورتحال نے چند معاشی پنڈتوں اور تجزیہ کاروں کو امریکہ کے پاس موجود آخری حل کو زیر بحث لانے پر مجبور کر دیا ہے۔ اگرچہ یہ حل بہت سوں کے لیے دور کی کوڑی ہے مگر وہ حل ہے کیا؟
امریکہ کو دیوالیہ پن سے بچانے کا وہ آخری حربہ ایک کھرب ڈالر مالیت کا پلاٹینیم سکہ جاری کرنا ہے اور یہ سنہ 1997 کے اس قانون کے تحت کیا جا سکے گا جو امریکہ وزیر خزانہ کو کسی بھی وجہ اور کسی بھی مالیت کے پلاٹینیم سکے جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
اس مالیت کے سکے جاری کرنے کا دفاع کرنے والے کہتے ہیں ریپبلیکنز اور ڈیموکریٹس کے درمیان قرض کی حد بڑھانے سے متعلق مذاکرات میں ناکامی کی صورت میں یہ امریکی حکومت کو ملکی اخراجات پورے کرنے اور دیوالیہ ہونے سے بچائے گا۔
امریکی وزیر خزانہ نے بھی جو بائیڈن انتظامیہ کے دیگر حکام کی طرح اس خیال کو رد کر دیا ہے حالانکہ اس سب کے باوجود ’ٹریلین ڈالر‘ کے سکے کے حامیوں کی آوازیں بند نہیں ہوئی ہیں۔
سکوں کے شوقین افراد کے لیے سکے جاری کرنا
کسی بھی مالیت کے پلاٹینم سکوں کے اجرا کرنے کے لیے وزیر خزانہ کے اختیار کا مقصد کبھی بھی امریکی قرض کی حد کو بڑھانے کے حل کے طور پر نہیں تھا۔
اس کا مقصد خصوصی نوعیت کے سکے جاری کرنا تھا جو سکوں کے شوقین افراد خرید کر اپنے پاس جمع کر سکیں۔
لیکن اگر وہ ایک ٹریلین ڈالر مالیت کے پلاٹینیم سکے کو جاری کرنے کا فیصلہ کر لیں تو کیا ہو گا؟
امریکی سکے جاری کرنے والے ادارے کے سابق سربراہ فلپ ڈیہل نے این پی آر پبلک ریڈیو کے مارکیٹ پلیس شو کو بتایا کہ ’انھیں سکے میں صرف ایک ٹریلین ڈالر لکھ کر فیڈرل ریزرو کو بھیجنا ہوں گے۔‘
اگرچہ بہت سے لوگ یہ سوچ کر ہنستے ہیں کہ اتنی بڑی مالیت کا سکہ بہت بڑا اور وزنی ہو گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی 25 سینٹس جتنا چھوٹا سکہ ہو گا اور آپ اسے اپنی جیب میں رکھ سکیں گے۔
اس سکے پر انھیں ایک ٹریلین کے لیے اتنے صفر بھی لکھنے کی ضرورت نہیں۔ الفاظ ہی اس کی مالیت ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں۔
ایک تبصرے سے اس سب کا آغاز ہوا
ولیمیٹ یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر روہن گرنے نے اوریگن میں این پی آر کو بتایا کہ ’اگر آپ کو دیوالیہ ہونے یا نئی کرنسی جاری کرنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرنا ہو تو ایگزیکٹو برانچ آپ کو دیوالیہ ہونے کی بالکل اجازت نہیں دیتی۔‘
واشنگٹن حکومت کے ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے 1 ٹریلین ڈالر کے سکے کے امکان کے بارے میں پہلی بار 2010 میں غیر روایتی مالیاتی پالیسی کے لیے وقف بلاگ کے تبصرے کے حصے میں لکھا گیا تھا۔
اس پر تبصرہ کرنے والے اٹلانٹا کے ایک غیر معروف وکیل کارلوس موچا کو کچھ پلاٹینیم سکے کا ’انٹلیکچوئل کرییٹر‘ سمجھتے ہیں۔ جو سنہ 1997 کے قانون کو سامنے لائے تھے جو امریکی وزیر خزانہ کو سکے جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
موچا نے اس فورم پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’دلچسپ بات یہ ہے کہ کانگریس نے پہلے ہی وزارت خزانہ کو ایک ٹریلین ڈالر کا سکہ بنانے اور جاری کرنے کا اختیار تفویض کر رکھا ہے۔‘
انھیں یہ تبصرہ لکھتے وقت یہ یہ احساس نہیں تھا کہ وائٹ ہاؤس یا کیپیٹل ہاؤس میں بحث ہو گی۔
انھوں نے ووکس پورٹل کو ایک انٹرویو میں کہا کہ ’اس بارے میں سب سے خوش آئند بات امریکی ٹکسال کے سابق ڈائریکٹر فل ڈہیل کی جانب سے ای میل کا موصول ہونا تھا۔‘
اس انٹرویو میں موچا نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ماہر اقتصادی امور نے انھیں بتایا کہ اس کی تجویز ’واقعی کام آ سکتی ہے۔‘
یہ تجویز وائرل ہو گئی
ایک سنوبال ایفیکٹ کی طرح اس بلاگ پر یہ تبصرہ سوشل میڈیا پر مقبول ہوا اور سنہ 2011 میں یہ عوامی سطح پر زیر بحث آیا اور یہ صدر باراک اوبامہ کے پہلے دور حکمرانی کہ دوران قرض کی حد کے بحران کے دوران کا وقت تھا۔
ان دنوں میں سات ہزار لوگوں کا دستخط شدہ خط شائع ہوا جس میں چند نامور ماہر اقتصادی امور پال کروگمین، فلپ ڈیہل خود بھی شامل تھے۔
انھوں نے تو ٹوئٹر پر ’منٹ دی کوئین‘ کا ہیش ٹیگ بھی شروع کیا تھا تاہم یہ خیال کامیاب نہیں ہوا، اگرچہ ہر مرتبہ سیاسی و معاشی طور پر قرض کی حد کا معاملہ اٹھتا رہا ہے۔
’میرے خیال میں یہ ایک فریب ہے‘
اس بحران کے دوران جو بائیڈن حکومت اس کو ایک متبادل کے طور پر نہیں سوچ رہی ہے۔
امریکی محکمہ خزانہ کے سربراہ جینٹ یلن نے کچھ دن پہلے کہا تھا کہ ’میرے نزدیک یہ ایک فریب ہے۔‘
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ریپبلکنز کے ساتھ لڑائی میں ڈیموکریٹس کے سیاسی مذاکراتی ہتھیاروں میں سے ایک کے طور پر ایک ٹریلین امریکی ڈالر کے سکے کا خیال میز پر رکھا گیا ہے۔
کانگریس عوامی اخراجات میں کمی لائے بغیر جو بائیڈن حکومت کی طرف سے درخواست کردہ قرض کی حد میں اضافے کو منظور کرنے کے لیے تیار نہیں۔
اس تمام صورتحال کی وضاحت ہونے والی ہے کہ اگر فریقین کسی معاہدے پر نہیں پہنچتے تو یکم جون کو امریکہ کو ادائیگیوں میں سخت مشکل پیش آئے گی۔