نو مئی کو فوجی تنصیبات اور املاک پر حملوں میں مبینہ طور پر ’ملوث‘ افراد کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت کارروائی کی منظوری کے بعد ملک بھر میں تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 30 سے زیادہ کارکنوں کے مقدمات فوجی عدالتوں کے حوالے کر دیے گئے ہیں جس پر ان کے اہل خانہ گہری تشویش میں مبتلا ہیں۔
اگرچہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے عام شہریوں کے ملٹری ٹرائل کرائے جانے کی سختی سے مخالفت کی ہے تاہم وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے جمعے کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ان 33 ملزمان کو فوج کے حوالے کیا گیا ہے جنھوں نے حساس فوجی تنصیبات میں گھس کر توڑ پھوڑ کی۔ ان کے مطابق ان افراد کو فوجی قوانین کے تحت ملٹری کورٹس کے ذریعے سزائیں دی جائیں گی۔
نو مئی کو پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے پُرتشدد احتجاجی مظاہروں اور توڑ پھوڑ کے الزام میں گرفتار افراد کے اہل خانہ ان دنوں تکلیف دہ صورتحال سے دو چار ہیں۔
ایک طرف انھیں ان سنگین نوعیت کے الزامات پر تحقیقات کرنے والے پولیس کے تفتیشی افسران کا سامنا ہے جبکہ دوسری طرف وہ اپنے بچوں کی رہائی کے لیے عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔
عمران خان نے جمعے کی شب فرانس 24 کو دیے انٹرویو میں کہا کہ فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کا مقصد پی ٹی آئی کو ختم کرنا ہے کیونکہ ’عام عدالتوں میں جھوٹے الزامات پر سزائیں دلانا مشکل ہوتا ہے۔۔۔ فوجی عدالتوں کا مطلب ہماری جمہوریت کا خاتمہ ہے۔‘
حالیہ دنوں میں ایک واقعے کی بازگشت سوشل میڈیا پر اس وقت ہوئی جب حاشر درانی نامی نوجوان، جو نو مئی کو لاہور میں ہونے والی توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں مبینہ طور پر شریک تھے، کو فوجی عدالت کے حوالے کر دیا گیا۔
ان کے خلاف فوجی عدالت میں کارروائی کا نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ انھیں ’آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کے لیے فوج کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ وہ کمپیوٹر سائنس میں تعلیم یافتہ تھے اور پنجاب حکومت میں ایک اچھی تنخواہ پر نوکری کر رہے تھے۔‘
جبکہ حاشر درانی نے اپنی گرفتاری سے قبل سلسلہ وار ٹویٹس میں اپنی مشکلات کا ذکر بھی کیا تھا۔
انھوں نے 20 مئی کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’میری جگہ اپنے آپ کو رکھ کر سوچیں۔ میں تو تباہ ہو گیا ہوں۔ فون بند ہے، روز جگہ بدلنی پڑتی ہے، دوست دروازے پر دیکھ کر کہتے ہیں کہ گھر مہمان ہیں پھر آنا، وی پی این سے کام کرتا ہوں۔ ہر روز گھر پر دو تین مرتبہ پولیس ریڈ کر رہی ہے۔ دو دن بعد والدہ سے بات ہوتی ہے۔ اور پارٹی کہتی ہے کہ ہم ان کے ورکر نہیں۔‘
اس کے علاوہ بھی انھوں نے سلسلہ وار ٹویٹس کرتے ہوئے اپنے مشکلات کا ذکر کیا اور پارٹی کا ان کی مدد کو نہ آنے کا شکوہ کیا۔
’ہمارے گھر میں تو قیامت ہے، ریاست ماں جیسی ہے بچوں کو معاف کر دے‘
بی بی سی نے حاشر کی طرح فوج کے حوالے کیے گئے ایک اور نوجوان ارزم جنید کے والد ایڈوکیٹ جنید رزاق سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ میرا 23 سالہ بیٹا انتہائی فرمابردار ہے اور جس دن 15 تاریخ کو اسے گرفتار کیا گیا تھا اسی دن قذافی سٹیڈیم میں ٹرائلز میں وہ ڈسٹرکٹ ٹیم میں منتخب ہوا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے گھر کا ماحول پڑھنے لکھنے والا ہے، میں خود ایڈوکیٹ ہوں، میری بڑی بیٹی ڈاکٹر ہے، گرفتار بیٹا گریجویٹ ہے جبکہ والدہ بھی تعلیم یافتہ ہیں۔‘
وہ پی ٹی آئی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کا بیٹا تو نو مئی کو ایک سیاسی لیڈر کی محبت میں پر امن احتجاج کے لیے لبرٹی پہنچا تھا جہاں سے پارٹی قیادت نوجوانوں کو اشتعال دلا کر کنٹونمنٹ لے گئی۔
ان کے مطابق شفاف تحقیقات کے بغیر اور یہ جانے بغیر کے ان کے بیٹے سمیت دیگر نوجوانوں کی نیت مجرمانہ نہیں تھی۔ ’آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات کی کارروائی کرنا اور سول کورٹ مارشل کرنا ناانصافی ہے۔‘
ایڈووکیٹ جنید رزاق کا کہنا تھا کہ انھیں ملنے والی اطلاعات کے مطابق ان کے بیٹے نے پاکستان کی فوج کے خلاف نعرے بازی کی تھی اور یہ نعرے ریلی میں لگائے جا رہے تھے جس میں وہ جذبات میں آ کر یہ غلطی کر بیٹھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا بیٹا کور کمانڈر کے گھر میں حملے کے وقت پی ٹی آئی کے جھنڈے کے ساتھ وہاں موجود تھا لیکن ان کا اصرار ہے کہ اس نے توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کی کسی کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔
ایڈووکیٹ جنید کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بیٹے ارزم جنید کی جانب سے ریلی کے دوران پاکستان کی فوج اور قیادت سے متعلق سخت زبان استعمال کرنے پر بہت شرمندہ ہیں اور معافی مانگتے ہیں۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ ایسا شخص یا خاندان جس کا کوئی کریمنل ریکارڈ نہیں اگر اتنی سی غلطی پر اس کا کورٹ مارشل کر دیا جائے تو یہ بہت زیادتی ہو گی۔
انھوں نے آبدیدہ ہوتے ہوئے کہا کہ ’ریاست کا درجہ تو ماں کا ہوتا ہے، وہ شفقت کرتی ہے، اصلاح کرتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ریاست کو نوجوانوں کی اصلاح کرنی چاہیے انھیں دہشت گرد نہ بنائیں۔‘
جنید رزاق کا کہنا تھا کہ انھوں نے بطور قانون دان خود آرمی ایکٹ کو پڑھا ہے اور یہاں اس کا ’اطلاق نہیں ہوتا، یہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔‘
’ہم بے بس ہیں۔ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ میں درخواست کر سکتا ہو، ہم معافی مانگ سکتے ہیں۔‘
’والدہ کا رو رو کر بُرا حال ہے، والد روزانہ تھانے اور عدالتوں کے چکر لگاتے ہیں‘
مردان میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے چھ افراد کے خلاف مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کی منظوری دی ہے۔
ان چھ افراد کے اہل خانہ اس سوچ میں ہیں کہ اب ان کے ساتھ کیا ہو گا۔ وکلا کے مطابق ایک گرفتار نوجوان کے والد اس وقت سخت صدمے سے دو چار ہیں، وہ بات نہیں کر سکتے حالانکہ وہ جسمانی طور پر اس جگہ موجود ہوتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کا ذہن سُن ہو چکا ہے۔
وکلا کے مطابق جس گاؤں سے کوئی گرفتار ہوا اس میں خوف پایا جاتا ہے۔ ’لوگ اس بارے میں بات کرتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔‘
ایک گرفتار نوجوان کے بھائی سے بی بی سی کے نامہ نگار عزیز اللہ سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ’والدہ کا رو رو کر برا حال ہے، والد اور چچا روزانہ کبھی پولیس اور کبھی عدالتوں کے چکر لگاتے ہیں لیکن اب تک کچھ معلوم نہیں ہو رہا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کا بھائی وہاں (فوجی تنصیبات کے قریب) پہنچا ضرور تھا لیکن اس کا قصور نہیں تھا کیونکہ جب بھائی پہنچا اس وقت سب توڑ پھوڑ ہو چکی تھی۔ ’بھائی تو بہت دیر سے وہاں پہنچا بس کسی نے وہاں ویڈیو بنائی جس میں بھائی آگیا اور اسے پھر بعد میں گرفتار کر لیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’گھر میں سب پریشان ہیں۔ بھائی کی منگنی دو ماہ پہلے کی تھی، ابھی شادی نہیں ہوئی تھی اور وہ ہم سب میں بڑے ہیں۔ بہنیں اور بھائی چھوٹے ہیں۔‘
یہ صورتحال ایسی ہے کہ اس میں انھیں سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کریں، اس طرح کی صورتحال کا سامنا انھیں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے اہل خانہ سب 9 مئی اور 10 مئی کو جو کچھ بھی ہوا توڑ پھوڑ اور جتنی کارروائی ہوئی ہے اس کی مذمت کرتے ہیں۔
ان سے جب کہا گیا کہ آپ کے بھائی کا کیس فوجی عدالتوں میں دے دیا گیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی درخواست ہے کہ یہ کیس سول عدالت میں ہو اور انھیں امید ہے کہ ان کے ساتھ انصاف ہوگا اور ان کا بھائی رہا ہو کر گھر آئے گا۔
وکلا کے مطابق اس وقت صرف مردان میں 120 کے لگ بھگ افراد گرفتار ہیں۔ اسی طرح پشاور اور صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی گرفتاریاں کی گئی ہیں۔
کیا پی ٹی آئی نے اس دوران کوئی تعاون یا مدد کی؟
جنید رزاق اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ ’میں تقریباً گذشتہ دس بارہ دنوں سے اپنی مدد آپ کے تحت بیٹے کی رہائی کے لیے بھاگ دوڑ کر رہا ہوں۔ لاہور ہائیکورٹ میں کچھ ساتھی اظہار ہمدردی کرتے ہیں لیکن اس کے علاوہ کسی کی جانب سے کوئی مدد یا تعاون نہیں کیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی نے کسی قسم کا کوئی تعاون یا مدد نہیں دی۔ نہ قانونی طور پر نہ ہی اخلاقی طور پر ہم سے رابطہ کیا گیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت عدالتوں میں بیٹے کی رہائی کی کوشش کر رہے ہیں اور اسے جیل میں کھانا پہنچاتے ہیں۔ ’مگر اب وہ جہاں چلا گیا ہے وہاں کا تو پتا ہی نہیں، کھانے کو ملے گا یا نہیں۔ (ڈر رہتا ہے کہ) اس پر تشدد تو نہیں کیا جا رہا۔‘
انھوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیٹے کی گرفتاری کی پہلی رات ان پر پولیس نے بہت زیادہ تشدد کیا تھا۔
جنید رزاق آبدیدہ ہوتے کہتے ہیں کہ ان کے بیٹے نے گرفتاری کی اگلی صبح چیخ چیخ کر کہا کہ ’ڈیڈی میں نے پارٹی جھنڈا پکڑ کر جذبات میں آ کر صرف گالی دی تھی، میں مجرم نہیں ہوں۔‘
انھوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’ہمارے گھر میں قیامت کا سماں ہے، مجھے لگتا ہے میرا نروس بریک ڈاؤن ہو جائے گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ جس وقت یہ واقعہ ہوا ’میں فوری طور پر اپنے بیٹے کو تلاش کرتا کور کمانڈر ہاؤس پہنچا اور بطور وکیل سب کو بتایا کہ یہ کیا حماقت کر دی ہے، آپ کو پتا ہے کہ اس کے نتائج کتنے سنگین ہوں گے۔‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا کہ اس سب میں پی ٹی آئی کی سیاسی قیادت ذمہ دار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سیاسی قائدین نے نوجوانوں کو مشتعل کر کے عمران خان کی 27 سالہ سیاسی جدوجہد کو خراب کر دیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی پوری قیادت اس واقعے کی مکمل طور پر ذمہ دار ہے۔ ’ان کو نوجوانوں کو وہاں لے کر نہیں جانا چاہیے تھا۔ وہ کس حیثیت سے انھیں وہاں لے کر گئے، ان کا مقصد اور منصوبہ کیا تھا؟‘
کیا ملک میں قانون سب کے لیے برابر نہیں؟
جہاں ایک جانب عام کارکنوں کو آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں سے سول کورٹ مارشل کی سزائیں سنانے کی منظوری دی گئی ہے وہیں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے بعض سیاستدان نو مئی کے واقعات اور عدالتوں سے رہائی ملنے کے بعد پارٹی چھوڑنے سے متعلق پریس کانفرنس کر کے گھر چلے جاتے ہیں مگر پارٹی کے عام کارکنان کے لیے یہ رعایت کیوں نہیں ہے۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنید رزاق کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت غلط ہے، یہ عام اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان کارکنوں سے زیادتی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس واقعے پر ریاست کی اپروچ غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر انسانی ہے۔ ’یہ نوجوان کم عقل ہیں اور نادانستگی میں جذبات میں آ کر وہاں چلے گئے۔ یہ قوم کا مستقبل ہیں۔ اگر انھیں معاف نہیں کریں گے مگر اُن لوگوں کو پریس کانفرنس (کی بنیاد) پر معاف کر دیں گے جو ان نوجوانوں کو وہاں لے گئے تھے تو یہ زیادتی والی بات ہے۔‘
اس بارے میں بات کرتے ہوئے صحافی اور تجزیہ کار ماجد نظامی نے بھی ایک ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’اگر نو مئی کے پرتشدد واقعات کی سنگینی اور حساسیت اتنی زیادہ ہے تو سب کو آئین و قانون کے تحت کٹہرے میں لانا چاہیے۔
’ایسا کس قانون کے تحت ہو رہا ہے کہ جو پریس کانفرنس میں پارٹی سے علیحدہ ہو جائے، ان کے سب داغ دھل جاتے ہیں، رہائی ہو جاتی ہے۔ انصاف کا معیار پریس کانفرنس کب سے ہو گیا۔‘
اس بارے میں ماجد نظامی نے بی بی سی کی نامہ نگار ترہب اصغر کو بتایا کہ ’ان سیاسی رہنماؤں سے کہا گیا ہے کہ ان حالات میں آپ فیصلہ کے لیں کہ پی ٹی آئی کے ساتھ وابستہ رہنا ہے یا نہیں جس کے بعد انھیں پارٹی سے لاتعلقی ظاہر کرنے کے بعد معافی نامے دیے جا رہے ہیں۔‘
انھوں نے اسے ریاستی جبر اور ناانصافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اس میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جا رہے کیونکہ عام کارکن کو یہ موقع فراہم نہیں کیا جا رہا۔ ‘
’ریاستی جبر تحریک انصاف کے خلاف نہیں بلکہ لگتا ہے انصاف کے خلاف کیا جا رہا ہے۔‘