وفاقی حکومت کی جانب سے عدلیہ اور ججوں سے متعلق مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی انکوائری کمیشن نے عدالت عظمیٰ کی جانب سے گزشتہ روز جاری کیے گئے احکامات کی روشنی میں مزید کارروائی روک دی۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے کمیشن کا نوٹی فکیشن معطل کرتے ہوئے 31 مئی کو اگلی سماعت کے لیے اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کردیے تھے۔
آڈیو لیکس معاملے پر انکوائری کمیشن ایک سماعت کر چکا ہے، کمیشن نے آڈیوز میں شامل چار افراد کو طلب کر رکھا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن کا اجلاس جاری ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ اور بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹسز عامر فاروق اور نعیم افغان کمیشن کا حصہ ہیں۔
اجلاس کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب میرا خیال ہے کہ کوئی عدالتی حکم آیا ہے، کیا آپ کے پاس عدالتی حکم کی کاپی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کمیشن کو سپریم کورٹ کے حکم کی کاپی فراہم کی اور گزشتہ روز کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ انکوائری کمیشن کو سماعت سے قبل نوٹس ہی نہیں تھا تو کام سے کیسے روک دیا، سپریم کورٹ رولز کے مطابق فریقین کو سن کر اس کے بعد کوئی حکم جاری کیا جاتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کیوں کل کمرہ عدالت میں تھے، نوٹس تھا یا ویسے بیٹھے تھے، مجھے زبانی بتایا گیا کہ آپ عدالت میں پیش ہوں، سماعت کے بعد مجھے نوٹس جاری کیا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالتی حکمنامے کی کاپی مہیا کی جائے، تھوڑا بہت آئین میں بھی جانتا ہوں، آپ نے کل عدالت کو بتایا کیوں نہیں ان کے اعتراضات والے نکات کی ہم پہلے ہی وضاحت کر چکے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عابد زبیری اور شعیب شاہین نے آج آنے کی زحمت بھی نہیں کی، کیا انہیں آکر بتانا نہیں تھا کہ کل کیا آرڈر ہوا، کیا شعیب شاہین نے کل یہ کہا کسی کی بھی آڈیو آئے، اس جج کا معاملہ سیدھا سپریم جوڈیشل کونسل بھیج دو، درجنوں ایسی شکایات آتی ہیں کیا ٹھیک کر کے سپریم جوڈیشل کمیشن بھیج دیا کریں؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آڈیو کی صداقت جانے بغیر کیا کسی کی زندگی تباہ کر دیں، کس نے آڈیو ریکارڈ کی وہ بعد کی بات ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے ٹیلی فون پر عدالت پیش ہونے کا کہا گیا تھا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ قواعد کے مطابق فریقین کو پیشگی نوٹسز جاری کرنا ہوتے ہیں، کمیشن کو کسی بھی درخواسگزارا نے نوٹس نہیں بھیجا، سپریم کورٹ کے رولز پر عملدرآمد لازم ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نوٹس کے حوالے سے بیان حلفی بھی عدالت میں دیا جاتا ہے، درخواست گزاروں میں سے کوئی بھی آج کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوا، باہر پریس کانفرنس کی جاتی ہے لیکن ہمارے سامنے پیش کوئی نہیں ہوا، نہ عابد زبیری آئے نہ ان کے وکیل شعیب شاہین نے پیش ہونے کی زحمت کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا اپ نے عدالت کو اگاہ نہیں کہا 209 کی کاروائی کمیشن نہیں کر رہا؟ عدالت کو کل ہمارے حکم کے بارے میں اگاہ کیا جانا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ کل کی سماعت میں میرے حوالے سے بھی ذکر ہوا تھا، میرے کیس کا معاملہ الگ تھا، سرپرائز ہوں کہ آپ نے کل باتوں کو رد نہیں کیا، کمیشن نے اٹارنی جنرل کو قاضی فائز عیسیٰ کیس کا فیصلہ پڑھنے کی ہدایت کی، اٹارنی جنرل نے بتائے گئے پیراگراف پڑھ دیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ابھی وہ اسٹیج ہی نہیں آئی تھی نہ ہم وہ کر رہے تھے، ایک گواہ اس وقت موجود ہیں، اس دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عبدالقیوم صدیقی کو روسٹم پر بلا لیا، آپ کا کیا نام ہے؟عبدالقیوم صدیقی نے جواب دیا میرا نام عبدالقیوم ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہو سکتا ہو انہیں کمیشن کی کارروائی پر کوئی اعتراض نہ ہو، ان کے دوسرے فریق نے ہمیں درخواست بھیجی اور کہا کہ وہ میڈیکل چیک اپ کے لیے لاہور میں ہیں، انہوں نے کہا جب لاہور آئیں تو ان کا بیان بھی لے لیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو جج کا حلف پڑھنے کی ہدایت کی، انہوں نے کہا کہ حلف میں لکھا ہے فرائض آئین و قانون کے تحت ادا کروں گا، یہ انکوائری کمیشن ایک قانون کے تحت بنا ہے، کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت یہ کمیشن بنایا گیا، ہم صرف اللہ کے غلام ہیں اور کسی کے نہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کل کے تحریری حکمنامے میں میرے کیس کا ذکر کیا، میرے کیس کے حقائق یکسر مختلف تھے، میری اہلیہ نے جائیدادوں کی ملکیت سے انکار نہیں کیا تھا، میری اہلیہ کا کیس یہ تھا جو شخص ہمارے خلاف سپریم کورٹ میں کھڑا ہے، اسے کسی نے کھڑا کیا ہے، یہ مناسب بات ہے کم از کم جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ کم از کم پورا تو پڑھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ دوسروں کی عزت ہے تو ہماری بھی عزت ہونی چاہیے، زیادہ نہیں کم از کم تھوڑی بہت تو ہماری عزت ہونی چاہیے، ایک گواہ خواجہ طارق رحیم نے ہمیں ای میل کی، آنھوں نے ای میل میں لکھا جب آپ خواتین کے بیانات ریکارڈ کرنے لاہور جائیں گے، میں وہیں آجاؤں گا، خواجہ طارق رحیم نے کہا طبعی مسائل کے سبب اسلام آباد میں پیش نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے مجھے ایک ٹاسک دیا، اس لیے ہم بیٹھے، ججز کا حلف پڑھیں، ہم آئین و قانون کے تابع ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا مجھے کوئی مرضی کے فیصلے کے لیے رقم آفر کرے تو کیا یہ گفتگو بھی پرائیویسی میں آئے گی ؟ پرائیویسی ہمشہ گھر کی ہوتی ہے،کسی کے گھر میں جھانکا نہیں جاسکتا، باہر سڑکوں پر جو سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں کیا یہ بھی پرائیویسی کے خلاف ہیں؟
انہوں نے کہا کہ کیا بینک کےسی سی ٹی وی کیمرے میں قتل کی واردات آجائے تو کیا فوٹیج استعمال نہیں ہوسکتی؟ شعیب شاہین روزانہ ٹی وی پر بیٹھ کر وکلا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ہمیں قانون سکھانے آگئے ہیں، کوئی بات نہیں سکھائیں ہم تو روزانہ قانون سیکھتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک طرف پرائیویسی کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف خود اپنی آڈیوز پر ٹالک شو میں بیٹھے ہیں، ہم ٹالک شو میں جواب تو نہیں دے سکتے، بطور وکیل ہم بھی اس لئیے آرڈر لیتے تھے اگلے روز جاکر متعلقہ عدالت کو آگاہ کرتے، کل کے حکمنامہ میں ہیکرز اور ٹوئٹر سے متعلق قاضی فائز عیسیٰ نے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ ٹوئٹر کیا ہے اور ٹوئٹر ہینڈل کیا ہے؟،
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹوئٹر ایک سافٹ ویئر ہے، نام سے اکاؤنٹ ہوتا ہے، ہیکر کا مجھے علم نہیں شاید میڈیا والوں میں سے کوئی جانتا ہو۔
اس موقع پر کاروائی روکتے ہوئے سربراہ آڈیو لیکس کمیشن نے کہا کہ ہم مزید آگے نہیں بڑھ سکتے، ہم کمیشن کی مزید کاروائی نہیں کررہے، گواہان سے معزرت خواہ ہوں ہم کاروائی آگے نہیں چلا سکتے، اٹارنی جنرل صاحب ہم معذرت خواہ ہیں، سپریم کورٹ کورٹ کا جوڈیشل آرڈر ہے اس لئے مزید کام جاری نہیں رکھ سکتے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آج کی کارروائی کا تحریری حکمنامہ جاری کریں گے جس کے بعد آڈیو لیکس انکوائری کمیشن نے حکم نامہ لکھوانا شروع کردیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حلف میں لکھا ہے فرائض آئین و قانون کے تحت ادا کروں گا، کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت یہ کمیشن بنایا گیا، ہم صرف اللہ کے غلام ہیں اور کسی کے نہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ کمیشن انکوائری ایکٹ کے تحت بنا، قانون کے تحت ہمیں ایک زمہ داری سونپی گئی، ہو سکتا ہے کمیشن کو مشکل ذمہ داری دی گئی ہو، کیا قانون اور اپنے حلف کے تحت مشکل ٹاسک سے انکار کر سکتے ہیں ؟ یہ ذمہ داری ہمارے لیے ذہنی تکلیف کا باعث ہو سکتی ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ حیران ہو سپریم کورٹ کے فیصلے ہر ایک پر لازم ہے، الجھن کا شکار ہوں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سپریم کورٹ پہ لاگو نہیں ہوتے، وکیل اپنا کوڈ آف کنڈیکٹ بھی پڑھیں، ایک وکیل موکل سے جج کے نام پر دا لاکھ مانگ لے، کیا ایسی گفتگو پر بھی پرائویسی کے استحقاق کا اطلاق ہوگا۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے ہم بھی بطور وکیل پریکٹس کرتے تھے، ہم حکم امتناع لیکر متعلقہ عدالت کو جاکر آگاہ کرتے تھے، وکیل خود اپنے کوڈ پر عمل نہیں کرتے، ہمیں قانون سیکھانے بیٹھ جاتے ہیں، سچ کو کیوں سامنے آنے سے روکا جا رہا ہے، اعتراض کمیشن میں آ کر بھی کیا جا سکتا تھا، واضح کیا تھا کسی کے حقوق متاثر کرینگے نہ کسی کو ملزم بنائیں گے، قرآن شریف کے مطابق سچ ہمیشہ جھوٹ کو مٹا دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کمیشن کے ایک رکن کوئٹہ سے صبح نو بجے پہنچے ہیں، کمیشن کو سٹے آرڈر سے آگاہ کیا گیا نہ پہلے نوٹس دیا گیا، کمیشن کو بتایا جاتا تو جج صاحب کو کوئٹہ سے بلاتے ہی نہ، آپ یہاں پر ہماری اور عدالت میں ان کی بات کرتے ہیں، اٹارنی جنرل صاحب آپ نے عدالت کو قانونی نکات کیوں نہیں بتائے؟
جسٹس فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ چیف جسٹس پر اعتراض کیوں کیا تھا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحقیق طلب ایک آڈیو چیف جسٹس کی خوشددامن کی بھی ہے۔
جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ انکوائری کمیشن ایکٹ میں کہاں لکھا ہے کہ چیف جسٹس کی مشاورت ضروری ہے؟ عدالت نے لکھا کہ حکومت نے یکطرفہ کارروائی کی ہے، حکومت ہمیشہ یکطرفہ ہی چلتی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون میں چیف جسٹس سے مشاورت کا ذکر نہیں، حکومت قانون کے مطابق کام کرتی ہے۔
جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ حکم نامہ کے مطابق تو ہائیکورٹ کے ججز کی کمیشن میں شمولیت پر بھی اعتراض کیا گیا، وفاقیت کا تقاضا ہی یہ ہے کہ صوبے آزاد اور خودمختار ہوں، عدالت کے ایسے ریمارکس وفاقیت کو تباہ کرے گی، ہم نے قانون پر چلنا ہے، آئینی روایت پر نہیں، کوئی اپنی گفتگو خود پبلک کردے تو بعد میں اعتراض نہیں کر سکتا۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ٹاک شو میں وکیل صاحب سے طے شدہ سوالات کیے گئے، ٹاک شو میں آڈیو مان لی تو استحقاق ختم ہوگیا، ہائیکورٹس کبھی بھی سپریم کورٹ کے ماتحت نہیں رہیں، سپریم کورٹ ہائیکورٹ تو کیا ضلعی عدلیہ کی بھی مانیٹرنگ نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ صرف ہائی کورٹ کے فیصلے کی قانونی حیثیت کا تعین کر سکتی ہے، ہو سکتا ہے آڈیو قیوم صدیقی اور وکیل صاحب نے خود لیک کی ہو۔
جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ تمام لوگوں سے پوچھیں گے کہ انہوں نے آڈیو خود تو لیک نہیں کی، سمجھ نہیں آتا کہ شعبہ قانون کو ہو کیا گیا ہے، سب سے آسان کام ہے کہ جج پر الزام لگا دو، ججز کے پاس فوج ہوتی نہ پولیس صرف اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ حکومت کی جانب سے بینچ پر اٹھنے والا اعتراض مسترد کیا جاتا ہے، یہ طے شدہ اصول ہے کہ کسی بھی انکوائری کمیشن میں کسی جج کی شمولیت کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان سے اجازت ضروری ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ بادی النظر میں وفاقی حکومت نے یکطرفہ اقدام سے آئینی اصولی کی خلاف ورزی کی ہے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے تحریری حکم نامے میں کہا کہ اگلی سماعت 31 مئی کو ہوگی اور ساتھ ہی اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔
سپریم کورٹ میں مذکورہ درخواستیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد شاہد زبیری، ایس سی بی اے کے سیکریٹری مقتدیر اختر شبیر، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور ایڈووکیٹ ریاض حنیف راہی نے دائر کی ہیں، ان چاروں درخواستوں میں آڈیو کمیشن کی تشکیل کو غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔