ہیڈلائن

سپریم کورٹ: آرٹیکل 184/3 کے تحت دیئے گئے فیصلوں پر نظرِ ثانی کا نیا قانون، نواز شریف اپیل کرسکیں گے

Share

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے دستخط کے بعد سپریم کورٹ رویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر بل 2023 قانون بن گیا ہے، جس کے بعد آرٹیکل 184/3کے تحت دیے گئے فیصلوں پر نظر ثانی درخواست دائر کرنے کا حق ہوگا جس سے نواز شریف اور جہانگیر ترین بھی فائدہ اٹھا سکیں گے۔

واضح رہے کہ 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف پاناما لیکس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا تھا جبکہ دسمبر 2017 کو جہانگیر ترین کو آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت نا اہل قرار دے دیا تھا۔

حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق ڈاکٹر عارف علوی نے جمعہ (26 مئی) کو مذکورہ بل پر دستخط کردیے جس کے بعد یہ قانون کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔

مذکورہ بل گزشتہ ماہ 14 اپریل کو قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد رواں ماہ 5 مئی کو سینیٹ سے بھی منظور کرلیا گیا تھا۔

مذکورہ بل ضمنی ایجنڈے کے ذریعے سینیٹر عرفان صدیقی نے ایوان میں پیش کیا تھا جس پر اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا تھا، بل پیش کرنے کی تحریک کے حق میں 32 اور مخالفت میں 21 ووٹ آئے جس کے بعد بل اکثریتِ رائے سے منظور کرلیا گیا۔

سپریم کورٹ فیصلوں اور احکامات پر نظر ثانی ترمیمی بل قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد سینیٹ پہنچا تھا جس کے مطابق سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست فیصلہ سنانے والے بینچ سے بڑا بینچ سنے گا۔

بل میں کہا گیا کہ نظر ثانی دائر کرنے والے درخواست گزار کو اپنی مرضی کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔

بل کے مطابق ایسے متاثرہ شخص کو نظر ثانی درخواست دائر کرنے کا حق ہوگا جس کے خلاف اس قانون سے قبل آرٹیکل 184/3کے تحت فیصلہ دیا گیا ہو، نظر ثانی درخواست اس قانون کے آغاز کے 60 دن کے اندر دائر کی جائے گی۔

بل میں یہ بھی کہا گیا کہ نظر ثانی کی درخواست فیصلے کے 60 روز کے اندر دائر کی جائے گی۔

نواز شریف کو نااہل کیا گیا، آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ تاحیات نااہلی ہوگی، عرفان قادر

وزیراعظم کے معاون خصوصی عرفان قادر نے کہا ہے کہ معاون خصوصی نے کہا کہ نواز شریف کو نااہل کرکے بتایا گیا کہ یہ نااہلی تاحیات ہوگی جبکہ آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ تاحیات نااہلی ہوگی، جب وہ نااہل ہوگئے تو پھر انہیں پارٹی کی قیادت سے ہٹایا گیا۔

—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عرفان قادر کا کہنا تھا کہ جو لوگ آئین کے دائرے میں چل رہے ہیں وہی احترام کے قابل ہیں اور سب ادارے آئین کے تابع ہیں۔

معاون خصوصی عرفان قادر نے کہا کہ ہم سب انسان ہیں اور برابر ہیں، کسی بھی فرد واحد کو پاکستان کو کنٹرول نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی آئین کا یہ تقاضہ ہے کہ کوئی بھی فردِ واحد کنٹرول کرنا شروع کرے۔

عرفان قادر نے کہا کہ بدقسمتی سے ملک میں کچھ عرصے سے ’جوڈیشلائزیشن آف پالیٹکس‘ ہو رہی ہے جس میں کس طرح سے بنچز تشکیل دیے جاتے ہیں اور ججز ملکی سیاست کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یوسف رضا گیلانی پر توہین عدالت لگا کر پوری حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور آرٹیکل 58 (2) بی بھی ختم ہو چکا تھا لیکن اس وقت کے وزیر اعظم کو یہ کہہ کر نکالا گیا کہ انہوں نے عدالت کی توہین کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کا یہ منصب نہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے کہنے پر سپریم کورٹ کے پیغامات باہر کی دنیا کو بتائے اور جو منصب وزیراعظم کا نہیں اس پر سپریم کورٹ کی طرف سے احکامات دینا خلافِ آئین ہے اور اگر یہ وزیراعظم کا منصب تھا تو آئین میں لکھا ہوا ہے کہ وزیراعظم کسی عدالت کو جوابدہ نہیں ہیں۔

معاون خصوصی نے کہا کہ پانامہ کیس کا عنوان عمران احمد خان نیازی بنام میاں محمد نواز شریف تھا اور جب اس پر فیصلہ ہوا تو نواز شریف کے خلاف مقدمات بننا شروع ہوگئے، وہ پابند سلاسل بن گئے اور پھر عمران خان وزیراعظم بن گئے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی پانچ ججز نظر آئے جن میں سے ایک جج آج بھی سپریم کورٹ کا حصہ ہیں، مزید کہا کہ پاکستان میں دو حکومتیں عدالتوں نے گرائیں جن میں ایک نواز شریف کی حکومت اور دوسری یوسف رضا گیلانی کی حکومت شامل تھی۔

معاون خصوصی نے کہا کہ نواز شریف کو نااہل کرکے بتایا گیا کہ یہ نااہلی تاحیات ہوگی جبکہ آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ تاحیات نااہلی ہوگی، جب وہ نااہل ہوگئے تو پھر انہیں پارٹی کی قیادت سے ہٹایا گیا۔

عرفان قادر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ایک درخواست آئی کہ انتخابات کی تاریخ دی جائے لیکن آئین میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ انتخابات کی تاریخ سپریم کورڈ دے گی بلکہ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ صدر یا گورنر بھی تاریخ نہیں دے سکتے۔

انہوں نے کہا کہ اس کیس میں 9 رکنی بنچ تشکیل دی گئی جس میں سے دو ججز نے خود کو الگ کرلیا جبکہ 7 میں سے چار ججز نے کہا کہ وہ درخواست قابل سماعت نہیں تھی، اگر یہ بحران تھا تو چیف جسٹس کو چاہیے تھا کہ وہ اس کو حل کریں لیکن وہ حکومت کو نوٹسز دینے کے پیچھے پڑ گئے۔

معاون خصوصی نے کہا کہ چیف جسٹس نے پھر من پسند بنچ تشکیل دے دیا اور فیصلہ دیا کہ انتخابات 14 مئی کو ہوں گے، اب 14 مئی گزر گئی تو اس پر عملدرآمد کا مسئلہ ہوگیا جس کے بعد چیف جسٹس نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نظرثانی درخواست نہیں لائی گئے، ہم چیزوں کو دیکھ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت عدلیہ میں بھی تفریق ہے، حکومت یا پارلیمان عدلیہ کے خلاف نہیں ہیں بلکہ حکومت چاہتی ہے کہ عدلیہ اور پارلیمان مضبوط ہوں۔

عرفان قادر نے کہا کہ موجودہ حکومت عدلیہ کو مضبوب کرنا چاہتی ہے، اگر عدلیہ میں کوئی تفریق ہے تو چیف جسٹس کو چاہیے کہ وہ اس تفریق کو ختم کریں تاکہ عدالتوں کی طرف سے ملک میں پیدا کی گئی سیاسی بحران کی کیفیت ختم ہو اور عدالتیں اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کریں۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ کو انتظامی معاملات میں مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں، نہ ان کو ڈیم بنانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی ہسپتالیں بنانے کی بلکہ ان کا کام ہے کہ جو 50 ہزار مقدمات زیر التوا ہیں ان کو حل کرے۔

معاون خصوصی نے کہا کہ بحرانی کیفیت ختم کرنے کے لیے ججز کی تقرریوں پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے، کسی بھی جج کو ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تعینات کرنے سے قبل ان کی سینارٹی اور کارکردگی رپورٹ دیکھی جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ عدلیہ کی ساکھ بحال رہے اور تمام ججز مل کر اپنے معاملات حل کریں

واضح رہے کہ 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف پاناما لیکس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا تھا۔

25 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ کے پانچ جج صاحبان کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف نااہل قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ نواز شریف نے ’کیپیٹل ایف زیڈ ای‘ سے متعلق کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپائے، نواز شریف عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 12 کی ذیلی شق ’ٹو ایف‘ اور آرٹیکل 62 کی شق ’ون ایف‘ کے تحت صادق نہیں رہے، نواز شریف کو رکن مجلس شوریٰ کے رکن کے طور پر نااہل قرار دیتے ہیں، الیکشن کمیشن نواز شریف کی نااہلی کا نوٹیفکیشن فوری طور پر جاری کرے۔

جبکہ دسمبر 2017 کو ڈان کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کی جانب سے پی ٹی آئی رہنماؤں کی نااہلی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی غیر ملکی فنڈنگ کیس کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کے خلاف ان کی پٹیشن کو خارج کردیا تھا جبکہ جہانگیر ترین کو آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت نا اہل قرار دے دیا تھا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں پی ٹی آئی کے اُس وقت کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت نا اہل قرار دیا گیا تھا، ان پر زرعی آمدن، آف شور کمپنیوں، برطانیہ میں جائیداد اور اسٹاک ایکسچینج میں اِن سائڈر ٹریڈنگ سے متعلق الزامات تھے۔

سپریم کورٹ کے بینج نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ جہانگیر ترین صادق اور امین نہیں رہے اور عدالت عظمیٰ نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کو ان کے خلاف ان سائیڈ ٹریڈنگ سے متعلق کارروائی کرنے کی ہدایت کی۔