منتخب تحریریں

“خرچے” کے بعد حاصل ہوئے نتائج۔

Share

کسی نہ کسی وجہ سے مشہور ہوئے چند افراد کی بابت منیر نیازی صاحب کے ادا کردہ طنزیہ فقرے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زبان زد عام ہونا شروع ہوچکے ہیں۔’’جگت‘‘ لاہور کی تہذیب کا نمایاں حصہ رہی ہے۔ادیبوں اور شاعروں نے اس صنف کومعاصرانہ چشمک کیلئے استعمال کرتے ہوئے اپنے تئیں ایک لطیف ہنر بنادیا۔ سعادت حسن منٹو نے اس ہنر کو بھرپور انداز میں ںبروئے کار لاتے ہوئے اپنے دور کے بڑے ناموں کے ’’خاکے‘‘ لکھے۔ انہیں کتابی شکل میں جمع کیا تو ’’گنجے فرشتے‘‘ کا حیران کن عنوان دیا۔ان خاکوں میں کئی ایسے فقرے ہیں جو آج بھی منٹو کی یاد میں پڑھتا ہوں تو ہاتھ سے کتاب چھوٹ جاتی ہے۔گھنٹوں یہ دریافت کرنے میں گزرجاتے ہیں کہ منٹو صاحب ایسا کاٹ دار فقرہ کیسے سوچ پائے۔

کاٹ دار فقرے کی بات چلی ہے تو بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ میری نوجوانی میں ’’عوامی اور دیوانے‘‘ مشہور ہوئے شاعر -حبیب جالب- بھی کمال کے فقرہ باز تھے۔ان کے ادا کردہ فقرے مگر منیرنیازی کے ادا کئے فقروں کی طرح کالم نگاروں کی جانب سے مناسب انداز میں ریکارڈپر نہیں آئے۔ جالب صاحب کی چاکری اور چمچہ گیری کی نعمت مجھے بھی میسر رہی ہے۔اکثر جی چاہتا ہے کہ ان کے ادا کردہ چند برجستہ کلمات کو سیاق وسباق میں رکھ کر لوگوں کے روبرو لائوں۔ سیاسی رپورٹر سے دیہاڑی لگانے والے کالم نگار ہوئے اس بے ہنر سے قاری مگر ’’حالاتِ حاضرہ‘‘ پر تبصرہ آرائی کا تقاضہ کرتے ہیں۔عمران خان اور ان کی جماعت اس وقت ’’حالاتِ حاضرہ‘‘ پر چھائی ہوئی ہے۔ان کی حمایت یا مخالفت میں ڈٹ کر لکھو تو سوشل میڈیا پر بھی رونق لگ جاتی ہے۔میرا سست اور کند ذہن اس ’’سہولت‘‘ سے فائدہ اٹھانے کو مائل رہتا ہے۔ایسے عالم میں کیا ضرورت ہے کہ ذہن پر زور ڈال کر وہ تمام واقعات یاد کروں جن کے دوران جالب صاحب کی زبان سے کاٹ دار فقرے ادا ہوئے تھے۔

اپنی کاہلی کے اعتراف کے بعد انکشاف یہ کرنا چاہ رہا ہوں کہ گزشتہ چند ہفتوں سے میں اپنے اندازِ صحافت کی بابت سنجیدگی سے سوالات اٹھانا شروع ہوگیا ہوں۔ میرے لئے مختص کمرے میں میری مہربان بیوی نے بہت چاہ سے کتابوں کو کرم خوردہ ہونے سے بچانے کے لئے ہماری بساط سے بڑھ کر رقم خرچ کرکے چند شیلف بنواکر وہاں رکھوائے ہیں۔ ان پر نگاہ ڈالتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے۔اس دْکھ میں مبتلا ہوجاتا ہوں کہ کتابوں سے لدے ان شیلفوں سے عرصہ ہوا رجوع کرنا چھوڑ رکھا ہے۔ یہ کالم لکھنے اور اسے دفتر بھجوادینے کے بعد گھر میں آئے اخبارات کا پلندہ ختم کرتا ہوں۔اس کے بعد دوپہر کا کھانا پھر قیلولہ اور بعدازاں رات گئے تک ٹویٹر اور فیس بک سے چھیڑخانی۔

دریں اثناء ہمارے ’’آزاد‘‘ میڈیا کو عمران حکومت کے خاتمے کے بعد اچانک یاد آگیا ہے کہ نصرت جاوید نام کا ایک اینکر بھی ہوا کرتا تھا۔ میں یاد آگیا تو مختلف ٹی وی شوز میں شرکت کی دعوت بھی ملنا شروع ہوگئی۔ میرے چھوٹے بھائیوں جیسا دوست محمد مالک تاہم عمران حکومت کے دوران بھی نہیں بھولا تھا کہ میں 2007سے 2018تک ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوتا رہا ہوں۔اکثر مجھے اپنے پروگرام میں شمولیت کو اْکساتا رہا۔ میں اس کی بے روزگاری کا سبب بننے کو تاہم آمادہ نہ ہوا۔ عمران حکومت رخصت ہوگئی تو اس کے شوز میں جانا شروع ہوگیا۔مالک کے بعد طلعت حسین بھی مین سٹریم ٹی وی پر لوٹے تو مجھے اپنے پروگراموں میں مدعو کرنا شروع ہوگئے۔

میں پرنٹ جرنلزم سے ٹی وی صحافت کی جانب کبھی منتقل ہونا ہی نہیں چاہتا تھا۔سید طلعت حسین اور مشتاق منہاس نے بہت مہارت سے بالآخر مجھے اس جانب مائل کیا اور میں 2007میں ’’آج‘‘ ٹی وی کے لئے ’’بولتا پاکستان‘‘ کے عنوان سے ایک پروگرام کا میزبان ہوگیا۔ ’’ایمرجنسی پلس‘‘ لگاتے ہوئے جنرل مشرف نے اس پروگرام کو بھی سکرین سے غائب کرنا لازمی تصور کیا۔ بہرحال پرانے تعلق کی خاطر طلعت حسین کے شوز میں بھی اکثر چلاجاتا ہوں۔

طلعت حسین کی طرح میری ایک دیرینہ ساتھی نسیم زہرہ بھی ہیں۔وہ ہمارے گھر کے فرد کی مانند ہیں۔اس کے شو میں شرکت سے انکار میرے لئے انتہائی دشوار ہوجاتا ہے۔اس کے علاوہ بھی کم از کم دو افراد ہیں جو اپنے ٹی وی شو میں تبصرہ آرائی کے لئے بلائیں تو میں اسے اپنے لئے عزت افزائی محسوس کرتا ہوں۔ اگرچہ ان دونوں سے میرے ذاتی مراسم شناسائی تک محدود ہیں۔

جو تمہید باندھی ہے اس کا مقصد دیانتداری سے اعتراف کرنا ہے کہ گزشتہ چند دنوں سے ٹی وی کیمروں کے روبرو ’’سنجیدہ دانشور‘‘ دکھنے کے بجائے پھکڑپن پر اترآتا ہوں۔ میرے پھکڑپن کا کوئی مخصوص نشانہ نہیں ہوتا۔ سیاق وسباق اس کے رخ کا تعین کردیتے ہیں۔مثال کے طورپر موجودہ حکومت کو تواتر سے میں ’’بھان متی کا کنبہ‘‘ پکارتا ہوں۔ حکومت اور ان کے حامیوں کی ڈھیٹ ہڈی مگر میری فقرہ بازی کو برداشت کرلیتی ہے۔تحریک انصاف والے مگر معاف کرنے کو آمادہ نہیں ہوتے۔ان کے محبوب رہ نمائوں کے بارے میں کوئی طنزیہ فقرہ ادا کروں تو مجھے ’’بدکار‘‘ ثابت کرنے کو فیس بک کھنگالتے ہوئے ایسی تصاویر وائرل کردیتے ہیں جنہیں دیکھتا ہوں تو بڑی حسرت سے دل میں سوال اٹھتا ہے ’’کس زمانے کی بات کرتے ہو؟دل جلانے کی بات کرتے ہوئے؟‘‘۔چند عاشقان عمران نے اب میری ’’گنا ہ آلود‘‘ زندگی کی بابت حال ہی میں ایک مختصر دورانیہ کی ’’ڈاکومینٹری‘‘ بھی تیار کردی ہے۔اکثر جی چاہتا ہے کہ اسے اپنے ٹویٹر اور فیس بک اکا?نٹ پر روزانہ پوسٹ کرتے ہوئے وائرل بنانے کی کوشش کروں۔ عمر کے آخری حصے میں ’’بدنام‘‘ ہونے کا لطف اپنے تئیں مزے دار ہے۔

یہ سب لکھنے کے باوجود حقیقت مگر یہ ہے کہ اپنے کمرے میں تنہا بیٹھے ہوئے چاروں طرف لگی کتابیں دیکھتا ہوں تو شرم آتی ہے۔ خیال آتا ہے کہ ان تمام کتابوں سے میرے ذہن نے جو بھی کشید کیا وہ اس کالم یا میری ٹی وی شوز میں شرکت کی بدولت نئی نسل کے سپرد کیوں نہیں ہورہا۔خاندانی حکیموں کی طرح میرے پاس دانش کے حوالے سے کوئی ’’مجرب نسخہ‘‘ موجود نہیں ہے۔کتابوں نے مگر کچھ سکھایا ہے۔ جو سیکھا ہے اسے خلق خدا میں بانٹنا چاہیے۔اس ضمن میں ارادہ باندھ کر مگر روزانہ کی بنیاد پر توڑ دیتا ہوں۔میرے لئے ثابت قدمی کی دعا کیجئے۔

یہ کالم ختم کرتے ہوئے یاد آیا کہ اس کے آغاز میں حبیب جالب صاحب کی فقرہ بازی کا ذکر بھی ہوا تھا۔اس تناظر میں انہوں نے زاہد ڈار صاحب کے بارے میں بھی ایک کاٹ دار فقرہ ادا کررکھا ہے۔ڈار صاحب شاعر تھے مگربسیار نویس نہیں تھے۔لکھنے سے کہیں زیادہ انہیں پڑھنے کا شوق تھا۔ پاک ٹی ہائوس لاہور میں اپنے لئے مختص میز پر کئی کتابیں رکھ کر اکیلے بیٹھے انہیں پڑھنے میں گھنٹوں محو رہتے۔ وہ ایک روز اس عالم میں تھے کہ جالب صاحب میرے ہمراہ پاک ٹی ہائوس میں داخل ہوئے۔اندرگھستے ہی ڈار صاحب سے مختص میز کی جانب تیزی سے لپکے۔ ان کے قریب آتے ہی ان کے ہاتھ میں موجود کتاب چھین لی اور بلند آواز میں کہا کہ…

کاش ان کا ادا کردہ فقرہ میں من وعن دہراسکتا۔فقط یہ عرض کروں گا کہ اس فقرے میں بہت ’’خرچے‘‘کے بعد حاصل ہوئے نتائج کا ذکر تھا۔جالب صاحب کی دانست میں بے شمار کتابیں ’’خرچ‘‘ کردینے کے باوجود زاہد ڈار صاحب مطلوبہ ’’تخلیقی نتائج‘‘ فراہم نہیں کر پائے ہیں۔اپنی بات پر زور دینے کے لئے انہوں نے ایک ریاستی ادارے کا نام لیا۔میں وہ نام دہرائوں گا نہیں وگرنہ ایک دو دن بعد ٹی وی کیمروں کے روبرو یا اپنے ٹویٹر اکائونٹ کے ذریعے پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کرتا سنائی دوں گا۔