آمدن میں کمی: ’یہ بہت ذہنی اذیت ہے کہ ملازمت بھی کر رہے ہوں لیکن خاندان کی ضروریات پوری نہ کر سکیں‘
’اگر حالات یہی رہے تو لگتا ہے میرے جیسے متوسط طبقے کے افراد سڑک پر آ جائیں گے۔ ایک سال میں میری ماہانہ آمدن تین لاکھ روپے سے کم ہو کر ایک لاکھ سے نیچے آ گئی ہے۔ پہلے میں اپنے بھائیوں کی بھی مالی مدد کرتا تھا لیکن اب تو اپنے خاندان کے اخراجات پورا کرنا بھی ایک مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔‘
کراچی کے رہائشی منیر احمد کہارو نے ملک میں عام افراد کی کم ہوتی فی کس آمدنی کے مسائل پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’چھوٹے بھائیوں کی بھی وقتاً فوقتاً مالی مدد کرتا رہتا تھا مگر اب کسی کی مالی مدد کی بجائے خود اپنے مالی اخراجات کے لیے تگ و دو کر رہا ہوں۔‘
منیر احمد کراچی کے علاقے شیر شاہ میں محدود پیمانے پر کاروبار کرتے ہیں۔ ان کا کام پلاسٹک دانے کی خرید و فروخت ہے۔
ڈیڑھ سال قبل انھوں نے کاروبار میں تھوڑی وسعت کی تھی اور ایک چھوٹا سا پلانٹ لگایا تھا جس کی وجہ انھیں کاروبار میں حاصل ہونے والا اچھا منافع تھا۔
منیر احمد کہتے ہیں ڈیڑھ سال قبل ان کا کاروبار اچھا چل رہا تھا اور ان کے شعبے کے دوسرے افراد بھی اچھا کام کر رہے تھے۔ اگرچہ تھوڑے بہت مسائل تھے لیکن پھر بھی کاروبار ترقی کر رہا تھا۔ آمدن بھی تین ساڑھے تین لاکھ روپے ہو جاتی تھی جس سے گھویلو اخراجات پورے ہونے کے ساتھ بچت بھی ہو جاتی تھی۔
کراچی میں ایک نجی ادارے میں ایسوسی ایٹ مینیجر رمشا منہاس بھی ان دنوں آمدنی میں کمی کی وجہ سے فکرمند ہیں۔ ان کی تنخواہ ایک سال پہلے 70 ہزار روپے تھی۔ انھوں نے ملازمت میں کچھ وقفہ لیا اور جب دوبارہ ملازمت شروع کی تو ان کی تنخواہ 50 ہزار روپے مقرر ہوئی۔
رمشا کے مطابق ملک میں اس وقت مہنگائی کی بلند شرح ہے جس کی وجہ سے ایک سال پہلے والی تنخواہ بھی بہت کم لگتی ہے اور جب تنخواہ ہی کم ہو جائے تو پھر مالی اخراجات کو پورا کرنا کسی پہاڑ کو سر کرنے سے کم نہیں۔
’آمدن تین لاکھ سے کم ہوتے ہوتے ایک لاکھ سے بھی نیچے آ گئی‘
ایک سال کے دوران ملک میں ایسا کیا ہوا کہ منیر احمد اور رمشا منہاس جیسے کئی افراد کی آمدنی میں کمی ہوئی۔
منیر احمد پلاسٹک دانے کو ری سائیکل کر کے مارکیٹ میں بیچتے ہیں یا اس سے پولیتھن بیگز یا شاپر تیار کرتے ہیں۔
ان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ان کے مسائل جون 2022 کے بعد اس وقت بڑھنا شروع ہوئے جب حکومت نے درآمدات پر پابندی عائد کی اور انھیں خام مال کے حصول میں مشکلات درپیش آنا شروع ہوئیں۔
وہ کہتے ہیں کہ گذشتہ برس جون میں پلاسٹک دانے کے حصول کا جو مسئلہ شروع ہوا تھا آج تک جاری ہے اور اب مارکیٹ میں سپلائی کرنے والی فیکٹریوں سے بھی پلاسٹک دانے کا خام مال ملنا کم ہو گیا اور خام مال کی فراہمی میں کمی نے اس کی قیمت بھی بڑھا دی ہے۔
سپلائرز سے جب اس بارے میں بات کی گئی تو انھوں نے کہا کہ درآمدات پر پابندی ہے اور اب خام مال آ نہیں رہا یا پھر بہت کم مقدار میں سپلائی ہو رہا ہے اور رسد و طلب نے قیمت پر فرق ڈالا ہے۔
دوسری جانب ایک سال میں بجلی کی قیمت میں بے پناہ اضافے نے بھی منیر کی مالی آمدنی کو متاثر کیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ گذشتہ سال ایک بجلی کے یونٹ کی قیمت 18 سے 22 روپے تھی وہ اب پچاس روپے سے اوپر چلا گیا ہے۔ پہلے جو بجلی کا بل ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے تھا وہ اس وقت ماہانہ بنیاد پر چھ لاکھ تک پہنچ گیا جبکہ دوسری طرف کاروبار کم ہو گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں ’آمدن تین لاکھ سے کم ہوتے ہوتے اب ایک لاکھ سے بھی نیچے آ گئی ہے۔‘
رمشا جنھوں نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے اپنی پہلی ملازمت سے چند ماہ کا وقفہ لیا تھا، انھیں دوبارہ نوکری ملنے پر کم تنخواہ پر کام کرنا پڑا۔
وہ کہتی ہیں کہ اس عرصے کے دوران مہنگائی کی وجہ سے چیزوں کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میرے گھر سے دفتر آنے جانے کا خرچہ ہی تین گنا بڑھ گیا جبکہ تنخواہ پہلے سے بھی کم ہے۔‘
’والد کا ہاتھ بٹانے کیلیے انھیں پیسے دیتی تھی لیکن اب یہ مشکل ہو گیا‘
منیر احمد اور رمشا منہاس اپنی کم ہوتی آمدن سے ایک جانب فکر مند ہیں تو دوسری جانب وہ اس کی وجہ سے کچھ چیزوں پر سمجھوتہ کرنے پر بھی پریشان ہیں۔
منیر احمد نے بتایا کہ اب ان کے لیے روزمرہ کے مالی اخراجات پورا کرنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے تو زندگی میں جو تھوڑی بہت تفریح تھی، وہ بھی ختم ہو گئی۔
انھوں نے کہا کہ پہلے بچوں اور دوستوں کے ساتھ کسی ریستوران میں کھانا کھا لیتے تھے لیکن اب اسے ختم کر دیا ہے۔ بھائیوں کی مالی مدد بھی بالکل بند کر دی ہے۔
انھوں نے کہا کہ کم ہوتی آمدن کی وجہ سے اب وہ دائیں بائیں ہاتھ مار رہے ہیں کہ کسی دوسرے شعبے میں کچھ کام کر کے تھوڑی بہت آمدنی بڑھائیں لیکن فی الحال اس میں بھی کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل رہی کیونکہ خراب ملکی معیشت کے باعث ہر شعبہ مندی کا شکار ہے۔
رمشا کی زندگی میں بھی کم مالی آمدن کی وجہ سے کچھ تبدیلیاں آئی ہیں۔
رمشا کے مطابق پہلے وہ اپنے گھر والوں اور دوستوں کو تحائف دیتی تھیں جس کے لیے وہ ہر مہینے اپنی تنخواہ سے کچھ رقم بچا لیتی تھیں لیکن اب مہنگائی کی وجہ سے اخراجات میں اضافہ ہو گیا ہے اور بچت ممکن نہیں رہی۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کے والد ریٹائر ہو چکے ہیں اور ان کا ہاتھ بٹانے کے لیے ’میں انھیں زیادہ پیسے دیتی تھی لیکن اب ایسا مشکل ہو گیا ہے۔‘
’ان حالات میں یہ بہت ذہنی اذیت ہے کہ ملازمت بھی کر رہے ہوں لیکن خاندان کی ضروریات پوری نہ کر سکیں۔‘
ایک سال میں آمدن کتنی کم ہوئی؟
منیر احمد اور رمشا منہاس کاروباری اور ملازمت پیشہ طبقات سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد ہیں جو ایک سال کے دوران اپنی آمدن میں کمی اور اس کی وجہ سے بڑھتی ہوئی مالی مشکلات کے بارے میں شکایت کرتے ہیں۔
دونوں نے اپنی آمدنی میں کمی کی نشاندہی کی ہے جس کی تصدیق حکومت کی جانب سے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار سے ہوتی ہے۔
حکومت کی نیشنل اکاونٹس کمیٹی کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق موجودہ مالی سال میں پاکستانی شہریوں کی فی کس آمدنی 1766 ڈالر سے 1568 ڈالر تک گر گئی ہے۔ ایک سال میں ملک میں فی کس آمدنی میں تقریباً دو سو ڈالر کا فرق آیا۔
پاکستانی شہریوں کی فی کس آمدنی میں کم ہونے کے اعداد و شمار کے بارے میں معاشی امور کے صحافی شہبار رانا نے بی بی سی کو بتایا کہ دنیا میں کسی ملک کی فی کس آمدنی کو جانچنے کا یہی طریقہ ہے اگرچہ ملک میں دولت کی مساوانہ تقسیم نہیں اور ایک طبقہ بہت امیر اور دوسرا بہت غریب ہے لیکن کسی ملک کی آمدنی جانچنے کے لیے دیکھا جاتا ہے کہ ڈالر کے اعتبار سے یہ کتنی رہی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ مالی سال میں فی کس آمدن کے لیے ڈالر کا ریٹ 170روپے سے زائد تھا جو اس سال تقریباً ڈھائی سو روپے پر رکھا گیا ہے۔
معاشی امور کی ماہر ثنا توفیق کہتی ہیں کہ دنیا میں لوگوں کی آمدن معلوم کرنے کا یہی بینچ مارک ہے۔ اگرچہ اسے مکمل طور پر صحیح اعداد و شمار تو نہیں کہا جا سکتا تاہم یہ بڑی حد تک کسی ملک میں لوگوں کی فی کس آمدنی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
شہریوں کی فی کس آمدنی میں کمی کی وجوہات کیا ہیں؟
پاکستانی شہریوں کی فی کس آمدنی میں ایک سال میں تقریباً دو سو ڈالر کی کمی کی وجوہات میں سب سے بڑا عنصر ملک کی معاشی ترقی کی شرح نمو کا رک جانا یا بہت کم بڑھنا ہے۔
واضح رہے حکومت کی جانب سے جاری کردہ موجودہ مالی سال میں جی ڈی پی کے اعداد و شمار کے مطابق شرح نمو آدھے فیصد سے بھی کم ہے جبکہ گذشتہ مالی سال میں جی ڈی پی میں شرح نمو چھ فیصد سے زائد تھی۔
پاکستان انسٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس میں کام کرنے والے ماہر معیشت شاہد محمود بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر موجودہ مالی سال کا جائزہ لیا جائے تو جی ڈی پی میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا اور شرح نمو بھی نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ دوسری جانب آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے اب جب اس آبادی کو دیکھا جائے تو لازمی طور پر نمبر نیچے ہو گا۔
وہ کہتے ہیں معیشت میں شرح نمو نہ ہونے کی وجہ انڈسٹری، زراعت اور خدمات کے شعبے میں اس وقت سست روی یا منفی شرح کا رحجان ہے۔
واضح رہے کہ نینشل اکاونٹس کمیٹی کے مطابق ملک میں موجودہ مالی سال میں صنعتی شعبے میں ترقی منفی رہے گی جبکہ زراعت اور خدمات کے شعبے میں معمولی شرح نمو رہے گی۔
پاکستان میں اس وقت صنعتی شعبہ درآمدات پر پابندی کی وجہ سے خام مال کی عدم دستیابی کے باعث مشکلات کا شکار ہے۔ پاکستان کی برآمدات بھی موجودہ مالی سال میں گراوٹ کا شکار رہی ہیں جبکہ دوسری جانب بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے نے بھی صنعتی شعبے کو شدید متاثر کیا ہے۔