کالم

“خدا بادشاہ کی حفاظت کرے”

Share

بچپن میں راجہ رانی اور ان کے کارناموں کی کہانیاں سننے کا کافی شوق تھا۔ زیادہ تر کہانیاں راجہ اور رانیوں کے عظیم کہانیوں پر مشتمل ہوتی تھی۔جب اسکول جانے لگا تو مغلوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا اور ان کی سیاسی، سماجی اور فن تعمیر سے کافی متاثر ہوا۔

اس کے بعد دنیا بھر کی سیر کی اور جب ان کے محلوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو اس بات کا علم ہوا کہ بادشاہ یا ملکہ کیا ہوتے تھے، کیسے رہتے تھے اور ان کی شان وشوکت کیا تھی۔چاہے وہ یورپ کے بادشاہ ہوں یا ایشیائی ممالک کے بادشاہ۔ سبھی میں ایک بات تو یکساں تھی وہ یہ کہ ان کا رہن سہن اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ بادشاہ اور ملکہ تو ہم جیسے عام انسانوں سے کافی الگ تھلگ اور منفرد زندگی گزراتے تھے۔اس کی ایک عمدہ مثال تاج محل ہے۔ جسے دیکھتے ہی اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس عمارت کو ایک بادشاہ ہی بنا سکتا ہے۔بادشاہ شاہجہاں نے اپنی بیوی ممتاز محل کے لئے تاج محل بنوا کر دنیا کو محبت کی جو مثال پیش کی ہے اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ایک بادشاہ کیا سے کیا نہیں کر سکتا ہے۔بڑے بڑے محل، قلعہ، گھوڑوں کی سواری، اور نہ جانے کیا کیا جس کا ہم اور آپ اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔

مجھے اچھی طرح یہ بات آج بھی یاد ہے جب میں نے کلکتہ کے سوسائٹی سنیما میں مغلِ اعظم فلم دیکھی تھی۔جب اس فلم کو دیکھی تھی اس وقت میں دس سال کا تھا۔ ایک عرصے تک پوری فلم میرے ذہن میں پیوست رہی اوریوں لگا کہ یہ فلم اکبر،جودھا بائی، سلیم اور انارکلی کے ساتھ ان دنوں فلمائی گئی ہو۔دراصل فلم اتنی محنت سے بنائی گئی تھی کہ دیکھنے والا مغلیہ دورِ حکومت شان اور شاہی حکمرانوں کی سہی عکاسی سے کافی لطف و اندوز ہوتا۔اس فلم کو دیکھنے سے بادشاہ کی طرزِ زندگی اور اس کی بہادری کا بھی علم ہوا۔

پھر میں جب دنیا کی سیر کو نکلا اور مختلف ممالک کے بادشاہ اور ملکہ کے محلوں اور ان کے رکھ رکھاؤکی نمائش کو اپنی آنکھوں سے دیکھاتو تاریخ میں پڑھی ہوئی باتوں کا پکا یقین ہوگیا۔تاہم وقت کے ساتھ ساتھ شاہی حکمرانی کے دم توڑنے کی وجہ سے اب یہ باتیں دنیا بھر میں محض ایک تفریح کا سامنا بن کر رہ گئی ہے۔ لیکن اب بھی بہت سارے ممالک میں لوگ بادشاہ اور ملکہ کا ہونا باعثِ فخر سمجھتے ہیں اور اب بھی کئی ممالک میں بادشاہ اور ملکہ شان و شوکت سے عوام کے سامنے آتے ہیں اور وہاں کے باشندے بادشاہ اور ملکہ کے جشن اور تقریب کو اپناوقار سمجھتے ہیں۔

1993میں جب میں کلکتہ چھوڑ کر لندن روزگار کے سلسلے سے آبسا تو ہر دن ہی برطانیہ کی شاہی خاندان کی خبریں پڑھنے کو ملتی تھیں۔ان دنوں لیڈی ڈیانا کافی چرچہ میں رہی تھیں،جو کہ پرنس چارلس کی بیوی تھی۔لیڈی ڈیاناکی پرنس چارلس سے دوری اور ان کی انسانی خدمات ہمیشہ ہی خبروں کی سرخیاں بنی رہتی تھیں۔یوں تو برطانوی شاہی خاندان کے بارے میں علم تو اسکول کے زمانے سے ہی تھا اور کلکتہ میں ملکہ وکٹوریہ کے مجسمے اور وکٹوریہ میموریل ہال کی دیدار نے بھی برطانوی شاہی خاندان کے متعلق کافی معلومات فراہم کر دی تھی۔پھر بکنگھم پیلیس اور ونڈزر پیلیس کی سیر نے بھی مجھے برطانوی شاہی خاندان سے اچھا خاصا متعارف کرا دیا تھا۔

آج بھی ملکہ الیزبتھ دوئم سے ملنے اور اور میرا تعارف ان سے کرائے جانے کی یاد تازہ ہے۔ملکہ سے ملنے سے قبل ذہن میں طرح طرح کی باتیں آرہی رہیں تھیں کہ ملکہ کہ سر پر تاج ہوگا اور ان کے لباس کو پیچھے سے کوئی سنبھالا ہوگا جیسا کہ ہم ملکہ کو فلموں میں دیکھتے ہیں۔لیکن اس کے برعکس ایک معمولی سی دکھنے والے ملکہ برطانیہ اپنے چھوٹے چھوٹے قدموں سے چل کر میرے قریب آتی ہیں اور میرا حال چال پوچھ کر میرے کام کی سراہنا کرتی ہوئی مسکرا کر مجھ سے جدا ہوجاتی ہیں۔دراصل 2013میں برطانوی حکومت نے مجھے”سیوِک ایوارڈ “سے نوازا تھا جس کے لئے مجھے ملکہ برطانیہ سے متعارف بھی کرایا گیا تھا۔

6/مئی کو کنگ چارلس سوئم اور ملکہ کمیلا کی تاج پوشی ایک تاریخی تقریب میں ہوئی۔بادشاہ چارلس سوئم چالسویں حکمراں بن گئے ہیں جن کی تاج پوشی ویسٹ منسٹر ایبی میں ہوئی جو برطانیہ کے تاج پوشی کا چرچ ہے۔ ویسٹ منسٹر ایبی میں تاج پوشی کی روایت1066 میں بادشاہ ولیم کو کرسمس کے دن بادشاہ بنانے سے شروع ہوی تھی۔بادشاہ چارلس سوئم کی سرکاری طور پر تاج پوشی سے پہلے،ویسٹ منسٹر کے ڈین نے تاج کو کینٹربری کے آرچ بشپ کے پاس پیش کیا جنہوں نے برکت کی دعا کی اور پھر اعلان کیا” خدا بادشاہ کی حفاظت کرے”۔

پچھلے سال جب ملکہ الیزبتھ دوئم کی موت ہوئی،تو تخت فوراً اور بغیر کسی تقریب کے وارث چارلس، سابق پرنس آف ویلز کے پاس چلا گیا۔چارلس سوئم 73سال کی عمر میں بادشاہ بنے ہیں جس کے لئے انہیں کئی عملی اور روایتی مراحل سے گزرنا پڑا۔چارلس 14/نومبر1948کو بکنگھم پیلس میں پیدا ہوئے۔ وہ چار سال کے تھے جب ان کی والدہ الزبتھ دوئم کو ملکہ کے طور پر تاج پہنایا گیاتھا۔ چارلس کی تعلیم محل میں پڑھانے کے بجائے اسکول میں ہوئی تھی۔1969میں چارلس کو بیس سال کی عمر میں ملکہ الزبتھ دوئم نے پرنس آف ویلز مقرر کیا تھا۔پرنس چارلس نے لیڈی ڈیانا اسپینسر سے 29/ جولائی 1981کو لندن کے سینٹ پال کیتھیڈرل میں شادی کی۔ اس شادی سے ان کے دو بیٹے ہیں، پرنس ولیم اور پرنس ہیری، جن کی شاہی خاندان سے ان دنوں رشتے کافی خراب ہیں اور وہ اپنے باپ کی تاج پوشی میں شرکت کر کے فوراً امریکہ لوٹ گئے، جہاں وہ اپنی بیوی بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔چارلس کی شادی ڈیانا سے 1996کو ختم ہوگئی اور لیڈی ڈیانا 1997کو پیرس میں ایک کار حادثے میں ہلاک ہوگئیں۔ 2005میں چارلس نے کمیلا سے گلڈ ہال میں ایک سوِل تقریب میں دوبارہ شادی کر لی۔

برطانیہ سمیت دنیا بھر کے لوگوں میں بادشاہ چارلس کی تاج پوشی کو دیکھنے کا کافی جوش و خروش رہا۔ اور ہو بھی کیوں نہ، کہتے ہیں برٹش راج میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ برطانیہ نے دنیا بھر کے درجنوں ممالک پر حکمرانی کی ہے اور اب بھی آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینیڈا، جمائیکا جیسے ممالک کے ہیڈ برطانیہ کا شاہی خاندان کا فرد ملکہ یا بادشاہ ہی ہوتا ہے۔تاہم جمہوری نظام کے حامی پچھلے کئی سال سے شاہی خاندان کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں اور وہ شاہی خاندان کی بجائے جمہوری نظام کی حمایت کر رہے ہیں۔ بادشاہ چارلس کی تاج پوشی سے قبل اور دوران بھی جمہوری نظام کے حامیوں نے” نوٹ مائی کنگ” کا ٹی شرٹ پہن کر احتجاج کر رہے تھے جنہیں پولیس نے گرفتار بھی کیا ہے۔جمہوری نظام کے حامیوں کے ساتھ جس طرح پولیس نے جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے اس سے پولیس کو تنقید کا بھی سامنا ہے۔

برطانیہ سمیت دنیا بھر کے لاکھوں لوگوں نے 1953میں ملکہ الزبیتھ دوئم کی تاج پوشی کے بعد ایک بار پھر 2023میں بادشاہ چارلس تھرڈ کی تاج پوشی دیکھی جس سے لوگوں میں کافی جوش و خروش ہے۔تاہم وہیں بادشاہ چارلس سوئم کے چھوٹے بیٹے ہینری کا لگاتار ٹیلی ویژن پر آکر اپنے خاندان پر تنقید کرنا بھی ایک افسوس ناک بات ہے جس سے برطانوی لوگوں کو مایوسی بھی ہوئی ہے۔خیر برطانیہ ایک بار پھر بادشاہ چارلس سوئم کی تاج پوشی سے پوری دنیا میں اپنی شاہی شان کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔ جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے لوگوں میں برطانیہ کی شاہی خاندان کی مقبولیت اب بھی برقرار ہے۔ میں بادشاہ چارلس سوئم کو دلی مبار باد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ” خدا بادشاہ کی حفاظت کرے”۔