ہسپتال کے کینٹین میں لنچ کھانے کے لئے پہنچا تو ایک ترک خاتون جو کینٹین میں کام کرتی ہیں انہوں نے ہم سے پوچھا کہ میں ترکیہ الیکشن میں کس کی حمایت کر رہا ہوں۔میں نے برجستہ کہا میری حمایت طیب اردوان کوہے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا لیکن میں نے اپنا ووٹ کمال کلیک دارو غلوکو دیا ہے، تاہم میں مایوس ہوں کیونکہ مجھے پتہ ہے جیت طیب اردوان کی ہی ہوگی۔
اور ایسا ہی ہوا بھی جب ملک کی سپریم الیکشن کونسل نے اتوار 28 مئی کواعلان کیا کہ صدر رجب طیب اردوان نے دوبارہ انتخاب جیت لیا ہے۔ رن آف الیکشن میں 99.85فیصد بیلٹ بکس کھلے اور طیب اردوان کو 52.16فیصد ووٹ ملے جبکہ ان کے حریف کمال کلیک داراوغلو کو 47.84فیصد ووٹ ملے۔چونکہ 14مئی کو ترکیہ کے صدراتی انتخابات میں کسی بھی امیدوار نے پہلے راؤنڈ میں 50فیصد سے زیادہ کامیابی حاصل نہیں کی تھی اس لیے 28مئی کو دوسرے مرحلے کا رن آف ہوا۔ موجودہ صدر رجب طیب اردوان جنہوں نے پہلے راؤنڈ میں 49.5 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے انہیں دوبارہ رن آف الیکشن کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ صدر بننے کے لیے 50فیصد ووٹ درکار تھے۔ اس کے بعد دنیا بھر میں طیب اردوان کے حامی خوشی سے جھوم اٹھے اور دنیا بھر میں بسے ترکی لوگوں نے جشن منانا شروع کر دیا۔
ترکیہ کی کل آبادی میں سے 95%فی صد آبادی مسلمانوں کی ہے۔ لیکن پچھلے کئی برسوں سے ترکیہ کو سیکولر ملک کہہ کر مغربی ممالک کو خوش کیا جارہا تھا۔ مثلاً ترکی کے یونیورسٹی میں لڑکیوں کو حجاب پہننا منع تھا اور لوگ اسلامی اقدار سے دورتھے۔ اس کے علاوہ ترکیہ کا دیگر مسلم ممالک کے ساتھ رشتے بھی کمزور تھے۔لیکن جب سے رجب طیب اردوان نے ترکی کی سیاست میں قدم رکھا ہے انہوں نے اپنے ملک کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی حمایت میں بھی باتیں کہی ہیں۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغربی ممالک میں اردوان کے خلاف ایک سازش ہونے لگی۔ ملک کی فضا کو خراب کیا جانے لگا،مسلسل فوجی بغاوت کا اندیشہ اور پھر 2016 میں فوجی بغاوت کا ہونا۔ لگاتار بم دھماکوں کا ہونا وغیرہ ایسی صورتِ حال تھی جس سے طیب اردوان کو اپنی لیڈر شپ کا امتحان دینا پڑا۔
اس کے علاوہ رجب طیب اردوان جب سے ترکیہ کے صدر بنے ہیں تب سے ان کے خلاف مغربی میڈیا طرح طرح کی گمراہ کن باتوں سے ترکی سمیت یورپ اور دیگر ممالک میں رجب طیب اردوان کو ایک غلط لیڈر کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن جوں جوں ان کے خلاف باتیں کہی جارہی ہیں توں توں رجب طیب اردوان کی مقبولیت ترکیہ کے علاوہ دیگر ممالک میں بڑھتی جارہی ہیں اور اب تو رجب اردوان پوری دنیا میں ایک اہم لیڈر مانے جاتے ہیں۔
2017میں ترکیہ کے آئین میں ایک تاریخ ساز تبدیلی ہوئی تھی جس کے بعد طیب اردوان ترکیہ کے ایک مظبوط لیڈر کے طور پر ابھرے تھے۔آئین کی اس تبدیلی کے تحت، صدر کا معیاد پانچ سال مقرر کی گئی اور کوئی شخص دو بار سے زیادہ صدر نہیں رہ سکتا۔صدر کو اس بات کا اختیار ہوگا کہ وہ اعلیٰ عہدیداروں کا خود تعین کر ے گا جس میں وزیر اور نائب صدر بھی ہوں گے۔وزیر اعظم کے عہدے کو ختم کردیا گا۔صد ر کو عدلیہ میں مداخلت کرنے کا اختیار ہوگا۔ صدر اس بات کا فیصلہ کریگا کہ ملک میں ایمرجنسی نافذ کی جائے یا نہ کی جائے۔اگر دیکھا جائے تو یہ تمام باتیں امریکی صدر کے اختیارات سے ملتی جلتی ہیں۔ جو کہ ملک کے نظام کے لئے ایک مفید بات ہو سکتی ہے۔ جب کہ اس سے پہلے یہ تمام باتیں فوجی اختیار میں ہوتی تھیں اور جس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ملک میں فوجی بغاوت کے بعد ایمرجنسی نافذ کردی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ فوج بیرون ممالک یا باغی لیڈر کے دباؤ میں آکر اکثر جمہوری حکومتوں کا تختہ پلٹ دیتی تھی اور ملک کا پارلیمانی نظام کمزور ہوجاتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ رجب طیب اردوان ایک شائستہ زندگی گزارنے کے بعد آج ترکی کے ایک قد آور لیڈر بن چکے ہیں۔مصطفے کمال اتا ترک کے بعد رجب طیب اردوان نے ترکی کو ترکیہ بنانے میں ایک اہم رول ادا کیاہے۔2016میں طیب اردوان نے فوجی بغاوت کو کچل دیا تھا اس سے دنیا بھر میں انہوں نے ایک قد آور لیڈر کے طور پراپنا لوہا منوا لیا تھا۔اس دوران رجب طیب اردوان نے اپنے حامیوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’جمہوریت کی تار یخ میں ہم لوگوں نے پہلی بار اس تبدیلی کو ضروری سمجھا۔ ہم پچھلے سال کے فوجی بغاوت کو نہیں بھول سکتے ہیں۔ جب ایک بار پھر ہمارے جمہوری نظام کو نیچا دکھانے کی کوشش کی گئی تھی‘۔
رجب طیب اردوان کی پیدائش فروری 1954کو ہوئی تھی۔ تیرہ سال کی عمر میں ان کے والد اچھی زندگی اور روزگار کے لئے استنبول شہر آکر بس گئے۔ رجب طیب اردوان بچپن میں مزید پیسے کے لئے چاکلیٹ اور تل بیچتے تھے۔ ابتدائی تعلیم ایک اسلامی اسکول میں حاصل کرنے کے بعد استنبول کے مرمارا یونیورسٹی سے منیجمنٹ میں ڈگری حاصل کی۔ اس دوران رجب اردوان ایک پیشہ وارانہ فٹبالر بھی تھے۔1994میں استنبول شہر کے مئیر بنے تھے۔ 1999میں انہیں چار ماہ کے لئے جیل جانا پڑا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ایک قومی نظم لوگوں میں پڑھی تھی۔ جس میں لکھا تھا، مساجد ہماری چھاؤنی ہیں، گنبد ہمارا ہیلمٹ ہے، مینارہمارے خنجرہیں اور فوجیں ہماری دیانتدار ہیں۔
رجب طیب اردوان نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ وہ ترکیہ میں اسلامی قدریں عائد کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ سیکولر نظام کے حامی ہیں۔لیکن وہ ترکوں کو آزادی سے مذہب کو ماننے کا اختیار بھی دینے کے حامی ہیں۔اسی لئے ترکیہ کے بہت سارے علاقوں میں رجب طیب اردوان کو’سلطان‘ بھی کہا جاتا ہے۔2013میں رجب طیب اردوان کی کوششوں سے عورتوں کو ریاستی اداروں میں حجاب پہننے کی اجازت دی گئی۔ اس کے علاوہ اردگان نے شراب پر پابندی اور زنا کے خلاف سخت سزا کا بھی مشورہ دیا تھا۔
ترکیہ کا الیکشن جہاں ترکیہ کے لوگوں کے لئے کافی اہم تھا وہیں یہ الیکشن ترکیہ کے صدر طیب اردوان کے لیے بھی اتنا ہی اہم تھا۔ ملک کی دشوار معاشی صورتِ حال، سیکولر کے حامیوں کا رونا، رونا اور دنیا کی بگڑتی امن و امان نے طیب اردوان کا الیکشن میں کامیاب ہونا کچھ پل کے لئے مشکوک بنا دیا تھا۔ اس کے علاوہ مغربی ممالک اور خاص کر یورپ کے لیڈروں اور میڈیا کی منفی رپورٹنگ نے ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کو مسلسل نشانہ بنا رکھا تھا، جس سے اس بار کے الیکشن میں طیب اردوان کو اتنے ووٹ نہیں ملے جس کی توقع کی جارہی تھی۔تاہم طیب اردوان نے اپنی جیت سے جہاں اپنے مخالفین کا منہ بند کر دی بلکہ ایک بار پھر ترکیہ جمہوریت کا جھنڈا شان و شوکت سے بلندبھی کیا ہے۔
میں ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان اور وہاں کی عوام کو الیکشن کی جیت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ ترکیہ سلطنتِ عثمانیہ کا نام ایک بار پھر بلند کرے۔ تاکہ دنیا کا واحد ترقی یافتہ مسلم آبادی والاملک اپنے وقار، اسلامی قدر، اور تاریخ کے لئے ہمیشہ قائم و دائم رہے۔