“محمد حسن”
بنگلہ دیش میں بنگلہ کے اہم شاعر کوی اسد چودھری کے بارے میں لکھنے کا مطلب آفتاب کوچراغ دیکھانے کے مترادف ہیں۔ بنگلہ دیش میں اسد چودھری کسی تعرف کے محتاج نہیں۔ اسد چودھری کی حیثیت بنگلہ دیش میں اردوزبان کی سرپرست کی ہےلیکن اس شخصیت سے دنیائے اردو ادب ناواقف ہے۔آج بنگلہ دیش میں اردو زبان و ادب کے چرچہ کا جو گلشن سجا ہوا ہے وہ ان ہی کے دم سے ہے ورنہ اردو ادیب و شاعر میں وہ سکت کہاں تھی کہ وہ اس زبان و ادب کا گلشن سجاتے ۔ ۱۹۷۱کےجنگِ آزادی نے یہاں رہنے والے اردودانوں کی زندگی کو غیر محفوظ بنا دیاتھا جس کی وجہ سے کثیر تعدادمیں لوگ یہاں سےہجرت کرکےپاکستان سمیت دنیا کے دیگرملکوں میں بکھر گئے۔ جو لوگ اس ملک میں رہ گئے اس وقت حال یہ تھا کہ اگر کوئی اردو میں بات بھی کرتا تو اسے اعتاب کا شکار ہونا پڑتا اس لئے ان میں وہ جرات کہاں کہ وہ بنگلہ دیش میں اس زبان و ادب کی آبیاری کے لئے قدم اٹھاتے۔ایسے وقت میں اسد چودھری اردو شاعرو ادیبوں کے پشت پر مسیحابن کر کھڑے ہوئے اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ بقول حافظ دہلوی :
جس کو بھی توفیق دیتا ہے خدا
آندھیوں میں وہ جلاتا ہے چراغ
اسد چودھری کا منشا یہ تھا کہ جس طرح سابق مشرقی پاکستان میں ان کی مادری زبان بنگلہ کے ساتھ غیر منصفانہ روئیہ اختیار کیاگیا تھا اس طرح کسی اور زبان کے ساتھ نہ ہو۔اس لئے وہ ملک کی نازک صورتحال میں اردو کی بقاء کی جہد میں شامل ہوگئے۔ان کی شخصیت جنگِ آزادی میں قلمی مجاہد کی ہے۔واضح رہے کہ جنگِ آزادی کے دوران سابق مشرقی پاکستان سے بنگالی شاعر و ادیب، صحافی اور گلو کاروں کا ایک گروپ بھارت پہنچا تاکہ بھارت میں قائم جلاوطنی حکومت کی ذرائع ابلاغ میں ترجمانی ہوسکے۔ اس سلسلہ میں بھارت میں شادھین بنگلہ بیتار کیندرو کے نام سے ریڈیو پروگرام اورجئے بنگلہ کے نام سےبنگلہ ہفتہ وار اخبارشائع کئے گئے تاکہ جنگ کے دوران بنگلہ دیش کے لوگوں نیز جنگ میں شامل جنگجوؤں کی حوصلہ افزائی کی جاسکے ۔اسد چودھری ریڈیو پروگرام میں نیوز کاسٹر جبکہ ہفتہ وار جئے بنگلہ کے معاون مدیر کی حیثیت سے ذمہ داری نبھائی ۔۱۹۷۲ میں جب وہ ملک و اپس پہنچے توانہیں اردو بولنے والوں کے ساتھ ہونےوالے سانحہ سےمکمل آگاہی ہوئی۔ ایک طرف انہیں ان تمام باتوں کا ملا ل تھا لیکن دوسری طرف انہیں اردو زبان سے والحانہ محبت تھی کیونکہ اردو زبان توغالب وجالب،اقبال،میرو مومن، فیض و فراز کی زبان ہےاوربنگلہ دیش میں اس زبان کی نمائندگی احسن احمدا شک، حافظ دہلوی، کلیم سہسرامی،احمد سعدی ،نوشاد نوری ،ڈاکٹر سید یوسف حسن، عطا ء الرحمن جمیل،زین العابدین، احمد الیاس، س م ساجداور شمیم زمانوی وغیرہ کررہے تھے۔انہوں نے اپنے اردوداں ادیب و شاعر دوستوں کی خیر و عافیت معلوم کرنےکے بعد مشورہ دیا کہ جو ہونا تھا اسےواپس لانا ممکن نہیں لیکن ہمیں اردو زبان و ادب کی بقاء ، ترقی و ترویج کے لئے کام کرنے چاہئے ۔اُس وقت انہوں نے بہت ہی جرات مندانہ فیصلہ کیا کہ ڈھاکہ کے میرپور میں مشاعرہ کا اہتمام کیا اورخود اس مشاعرہ میں شریک ہوئے۔اس مشاعرہ میں شرکت کے لئے ان کے بنگالی دوستوں نے منع بھی کیا تھا ۔کیونکہ اس وقت ڈھاکہ کے میرپورمیں بنگلہ کے معروف ناول نگار اور فلم ساز ظہیر ریحان کو اغوا کرلیا گیا تھااوراس کا الزام اردو بولنے والوں پر لگایا جارہا تھا ۔ظہیر ریحان نے جنگِ آزادی کے دوران Stop Genocide کے نام سےایک دستاویزی فلم بنائی تھی جسے پوری دنیا میں مقبولیت حاصل ہوئی جبکہ وہ دوسری دستاویزی فلم A State is Born کے نام پر کام کررہے تھے کہ ان کےساتھ یہ سانحہ پیش آیا ۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اب یہ باتیں بھی واضح ہورہی ہیں کہ ظہیر ریحان کوبنگالیوں کا ایک گروہ نے اغوا کیا تھا کیونکہ جنگ کے دوران انہوں نے جس طرح کے footagesحاصل کئے تھے اور انٹرویو وغیرہ ان کے پاس موجود تھے جس سے ہوسکتا ہے کہ اس وقت کے اربابِ اختیار کے ساتھ جڑےلوگوں کے خلاف ان کے پاس کافی دستاویزی ثبوت موجودہوں۔اگر وہ تمام چیزیں لوگوں کے سامنے آجائیں تو جنگِ آزادی کے دوران ان کی خدمات رائیگاں جا سکتی ہیں۔ تقریباً ۵۰ سال بعداب سوشل میڈیا پر ان تمام باتوں کا انکشاف کیا جارہاہے اور اس سے متعلق بحث و مباحثےبھی ہورہے ہیں۔ امید ہے کہ سچ خود ایک دن سامنے آجائیگا۔اس سے ایک بات توواضح ہورہی ہے بقول خواجہ حیدر علی آتش :
زمین ِچمن گل کھلاتی ہے کیاکیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
خیر اسد چودھری نے اس مشاعرہ میں شرکت کی جس سے اردو شاعروں اور ادیبوں کو تقویت پہنچی کہ جنگِ آزادی کے حامی ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ اسی طرح آندھیوں میں بجھتے ہوئے چراغ کوانہوں نےسہارا دیا اور اردو کا کارواں چل پڑا۔ انہوںنے ایک اور حق ادا کردیا ۔ سابق مشرقی پاکستان کے ترقی پسند اردو شاعروں ادیبوں کے ساتھ ان کے گہرے مراسم تھے۔ اسی اثنا ۱۹۶۴ میں سید پور کے معروف مترجم و شاعر احمد سعدی نےوہاں منعقد ہونے والے مشاعرہ میں اسد چودھری کو مدعو کیا۔ بقول اسد چودھری”یہ سیدپورکا پہلا سفر تھا۔ حتیٰ کہ میں نے احمد سعدی کو بھی کبھی نہیں دیکھا۔ میں جب وہاں پہنچا تو رات کے دس بج رہے تھے۔ احمد سعدی نے ٹرین اسٹیشن پرمیرا اسقبال کیا اور اپنے دولت کدےپرلے گئے۔ عشائیہ کے بعد تقریباً رات کے ۱۲ بج رہے تھےکہ انہوں نے کہا چلیں شہر کی سیر کرتے ہیں ۔ میں یہ سوچ رہاتھا کہ اتنی رات گئے شہرکی سیر۔ لیکن میزبان کی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے میں نکل پڑا۔ وہ سردی کا موسم تھااورملک کے شمال میں کافی سردی پڑتی ہے۔ سردی کو برداشت کرتے ہوئےجب میں شہر کے مرکزی حصہ میں پہنچا تو وہاں شام جیسا سماںتھا۔ ہوٹل، ریسٹورینٹ، پان اور چائے کی دکانیں نیز لوگوں کی گہما گہمی دیکھنے اور گرامو فون پراونچی آواز میں گانےسننے جیسی تھی۔ میں بہت ہی حیران تھا ۔ ایسالگا کہ میں کلکتہ کے نیو مارکٹ کےآس پاس کھڑاہوں۔ میں نے اسی شہر میں پہلی مرتبہ عوامی ہجوم میں اپنا بنگلہ کلام پیش کیا تھا”۔
اسد چودھری کا پورا نام عاشقِ واحدِ محمد اسد الاسلام ہے۔ ان کے والد محمد عارف چودھر ی۱۹۴۶ میں متحدہ بنگال کےایم این اے (ممبر آف نیشنل اسمبلی) منتخب ہوئے تھے اور وہ آخری ایم این اے تھے۔ ان کی والدہ کا نام سیدہ محمودہ بیگم ہے۔دستاویزی اعتبار سے ان کی پیدائش ۱۱ فروری ۱۹۴۳ ہے لیکن دراصل ان کی پیدائش ۵ نومبرکو ہوئی۔وہ بنگلہ دیش کے جنوبی ضلع بیریسال کےمقام اولانیا،مہدی گنج میں پیدا ہوئے۔ان کا تعلق ایک زمیندار خاندان سے ہے۔ ان کے جدِ امجد پارس یعنی ایران سےہجرت کرکے ایودھا پہنچے بعد ازاں ایک عرصہ تک مرشدآباد میں قیام کیا۔ان کے جدِ امجدمغلیہ حکومت میں بنگال کے گورنر شائستہ خان کے فوجی کمانڈر بھی تھے۔ تاریخی اعتبار سے اس وقت خلیجِ بنگال کوا رکانی اور پرتگالی قزاقوں کے حملہ کا خدشہ رہتا تھا۔ ان کے جدِ امجد محمد حنیف نے دلیرانا کردارکامظاہرہ کرتے ہوئے ان قزاقوں کی خلیج بنگال میں سر کوبی کی تھی۔
اسد چودھری ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں میں مکمل کی اور ۱۹۵۷ میں کورونیشن ہائی اسکول سےثانوی کے امتحان،۱۹۶۰میں بیریسال کے بروجو موہن کالج سے اعلیٰ ثانوی کے امتحان مکمل کئے۔ واضح رہے کہ یہ کالج ملک کا قدیمی تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے۔ ۱۹۲۲ میں یہ ادارہ کلکتہ یونیورسٹی کے ساتھ منسلک ہو کر ملک میںHonours Course کا آغاز کیا تھا۔ وہ۱۹۶۳ میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبئہ بنگلہ سےبی اے اور۱۹۶۴ میں اسی شعبہ سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔انہوں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز ۱۹۶۴میں برہمن باڑیا کالج کے شعبئہ بنگلہ کے لکچرار کی حیثیت سےکیا ۔لیکن انہیں ادب سے اتنی انسیت تھی کہ وہ کالج کی ملازمت کو الوداع کہتے ہوئے۱۹۷۳ میں بنگلہ اکیڈیمی میں باحیثیت اسسٹنٹ ڈائیریکٹر ملازمت اختیار کر لی ۔ اس ادارہ میں انہوں نے بہت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ ذمہ داری نبھائی اور۲۰۰۰میں ڈائیریکٹر کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے۔اس کے علاوہ انہوں نے بنگلہ روزنامہ پُربو دیش اور ۱۹۸۵ تا۱۹۸۸، پروبیشنری تقرری کے تحت جرمنی کے Deutsche Welleریڈیو میں با حیثیت صحافی ذمہ داری نبھائی۔مختلف موضوعات پر بنگلہ دیش کے اصل دھارے کے بنگلہ روزناموں میں مستقل کالم شائع کرتے رہے۔ دریں اثنا اردو ادباء اور شعراء کو بنگالی قارئین سے متعرف کروانے کے لئے ۱۹۹۵-۹۶ میں بنگلہ روزناموں میں سیریز مضمون بھی شائع کئے۔
اسد چودھری کوٹی وی چینلوں میں کام کرنےکا بڑا تجربہ اور مہارت بھی ہے۔انہیں سرکاری ٹیلی ویژن چینل سمیت نجی ٹیلی ویژن چینلوں میں یکساں طور پرمقبولیت حاصل ہے۔ایک مرتبہ بنگلہ دیش میں اردو ادب کے روح رواں نوشاد نوری کو بنگلہ دیش کی قومی ٹیلی ویژن چینل بی ٹی وی پرانٹرویو کے غرض سے لے گئے چونکہ اس وقت یہ ملک کا واحد ٹیلی ویژن چینل تھا اس لئے اس انٹرویو کو ملک کے طول و ارض میں دیکھا گیا تھا ۔ ایک اردو شاعر کو قو می ٹیلی ویژن چینل پر لانے کے جرم میں انہیں کافی اذیتیں اٹھانی پڑیں ۔ وہ ان باتوں کو قہقہ میں بول جاتے ۔مادری زبان کے دن کے حوالے سے ہر سال ڈھاکہ یونیورسٹی کے احا طہ میں دو روزہ وقومی کویتا اُتسب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسد چودھری قومی کویتا پریشد کے صدارتی بورڈ کے رکن ہیں۔ ان کی پُراصراردعوت کے پیشِ نظرسب سے پہلے ملک کے اہم اردو شاعر شمیم زمانوی نے ہمت سے کام لیا اور اس منچ پراپنی اردو نظم” زبان” پیش کی ۔اس نظم کا بنگلہ ترجمہ اسد چودھری پیش کرنے کے ساتھ ساتھ سامعین کے درمیان خوشیوں کی لہر دوڑ گئی تھی ان لوگوں نے اس نظم کی پُر جوش تعریفیں کیں۔بعد ازاں راقم الحروف سمیت ڈھاکہ کے متعدد اردوشعراءکو اس منچ پرکئی سالوں تک اپنا کلام پیش کرنے کا موقع ملا۔ ہر بار اسد چودھری چٹان کی طرح منچ پر کھڑے رہتے تاکہ اگر کوئی غیر معمولی صورتحال پیدا ہوتو وہ اس حالات کا خاطر خواہ سامنا کر سکیں۔ ہر بار کامیابی کے ساتھ کلام پیش کرنے کے بعد قہقہوں اور بلند آوازسے اردو شعراء کی حوصلہ افزائی کرتے تاکہ ان کےاندرکا ڈر ختم ہو۔اس ضمن میں اسد چودھری کو ایک طرف میزبان ادارہ کی جانب سے اردو شعراء کو مدعو کرنے کے لئے راہ ہموار کرنے پڑتےتو دوسری طرف اردو شعراء کی ہمت افزائی کرنی پڑتی۔ یہ تمام کام وہ اپنےچہرے پر مسکراہٹ لئے کیاکرتے۔
اسد چودھری سے راقم الحروف کی ملاقات ۱۱ فروری۱۹۹۹ کو ڈھاکہ میں ہوئی۔۱۹۹۹ میں اقوام متحدہ کی تنظیمUNESCO نے بنگلہ دیش کے شہیدانِ زبان کےدن کو بین الاقوامی مادری زبان کا دن قرار دیا تھا۔ اس دن کو منانے کےغرض سے سپریم کورٹ کے سنئیر ایدویکٹ ایم آئی فاروقی اور احمد الیاس نے اردوداں نئی نسل کو مشورہ دیا کہ انہیں بھی اس دن کوباقاعدگی سے منانا چاہئے ۔ ان کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے احمد الیاس کی مدد سے ملک کے معروف دانشوروں سے ملاقات اور انلوگوں کو اس پرگرام میں مدعو کرنے کا کام شروع کیا۔ ۱۱ فروری کو ایک وفد کی شکل میں ہملوگوں نے اسد چودھری کی رہاش گاہ پران سے ملاقات کی۔ چونکہ یہ دن ان کے یومِ پیدائش کا ہے اس لئےہملوگوں نےانہیں پھول کا تحفہ پیش کیا۔انہوں نے خندہ پیشانی سے اسےقبول کیا مگر اپنی روایتی قہقہوں سےاس بات کا انکشاف کیا کہ درحقیقت ان کی تاریخِ پیدائش ۱۱ فروری نہیں بلکہ۵ نومبر ہے۔ بہر حال اسد چودھری مادری زبان کا عالمی دن کے حوالے سے پروگرام کی تفصیل سن کر بیحد خوش ہوئے اور اس پروگرام میں باحیثیت مہمانِ خصوصی شرکت کے لئے عندیہ دیا۔وہ ہملوگوں سے ملنے کے بعد بہت خوش نظر آرہے تھے کہ اردو بولنے والوں کی نئی نسل بہت صاف اور ترتیب سے بنگلہ زبان میں باتیں کررہی ہے۔ اس وقت ہملوگوں کا ایک طریقہ کار یہ بھی تھا کہ جب بھی ملک کے کسی دانشور سے ملنے جاتےبنگلہ زبان میں ایک میمورینڈم تیار کر تے جہاں ہم اپنی اغراض و مقاصد کی تفصیل بتانے کی کوشش کرتے۔ میمورینڈم باقاعدہ سننے کے بعد ان کی خوشی کی انتہا نہیں رہی ۔جب پوچھا کہ اس میمورینڈم کو کس نے تیار کیا تو سب کا اشارہ راقم الحروف کی طرف تھا۔ انہوں نے مجھے اپنے قریب بلایا اور پشت پر ہاتھ رکھ کر میری بنگلہ کی تعریف کی ۔پھر وہ ملاقات اور آج۔ اگر بہت دنوں کے بعد بھی بات ہوتی ہے تو اتنی ہی شفقت، محبت اور ہمدری بھرے لہجوں میں بات کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے ان کی باتیں سنتا رہوں۔ان سے صرف میری ادب کے حوالے سے نہیں بلکہ تنظیمی اور نجی تعلقات بھی استوار ہوئے ۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بنگلہ دیش میں مقیم اردو بولنے والوں میں ڈھاکہ کے اردو داں نئی نسل نے بین الااقوامی مادری زبان کے عالمی دن کو اہتمام کر کے ایک مثال قائم کی تھی جسے آج اردو داں کی مختلف تنظیمیں ترتیب کے ساتھ مناتی ہیں۔
جب اردو داں نئی نسل کے اقدام کے تحت ۲۰۰۳ میں بنگلہ دیش کی عدالتِ عالیہ سے حق رائے دہی کو تسلیم کیا گیا تو اسد چودھری بہت خوش ہوئے ۔کسی بھی پروگرام میں موقع ملتا وہ اس بات کا ذکر ضرور کرتے اور کہتے کہ” ان نوجوانوں کی ہمت کو سلام کے انہوں نے وہ کام کردیکھایا ہے جو شائد ہی کوئی کر پائے “کیونکہ انہیں اس بات کا علم تھا کہ کیمپ میں رہنے کے باوجود نئی نسل کے نمائندوں نے کیمپ کے روایتی لیڈرشپ کو چلینج کیا ہے جوگذشتہ ۵۰سال کی تاریخ میں ایک نایاب اقدام ہے۔ اردو بولنے والوں کی حقوق ِ انسانی کی بالادستی کے لئے انہوں نے ہمیشہ اپنا دستِ تعاون دراز کیا۔ بنگلہ دیش میں دانشوروں کے جھرمٹ میں اس کمیونٹی کی نئی نسل کے بدلتے ہوئے رجحان کو ان کے سامنےاجاگر کرتے۔اردوداں کے بینر تلے کسی بھی پروگرام کا انعقاد کیا جاتا بنگلہ دیش کے ایسے دانشووروں کو مدعو کرتے جس کی بات ملک کے اصل دھارے کے ذرائع ابلاغ اہمیت دیتے ہیں۔ان میں کمال لوہانی، پروفیسر شمس الزمان خان، پروفیسر ہارون الرشید، المجاہدی،سمدر گپت، حبیب اللہ شیرازی، مفید الحق،قاضی روزی،زاہد الحق، نو رالہدا، بشیر الحلال، جعفر عالم، ہری پد دتاوغیرہ شامل ہیں۔اس کمیونٹی کے حوالے سےاسد چودھری کی انگنت خدمات ہیں اگر لکھنے بیٹھے تو دفتر کے دفتر سیاہ ہو جائیں ۔
۲۰۱۰ میں راقم الحروف کو امریکی سفیر کی جانب سے امریکہ میں State Guestکی حیثیت سےایک پروگرام کے لئے منتخب کیا گیا۔ اس بات کا پتہ جب اسد چودھری کو چلا تووہ سفر کے پہلے روز شام یکا یک میرے ایک دوست کے ساتھ میرے گھر پہنچ گئے۔ میں گھر میں موجود بھی نہیں تھا۔ خبر پاتے ہی میں بھاگ کرگھر پہنچا۔ انہوں نے مبارکباد دی ، میری بڑی ہمت افزائی کی۔ میں آج بھی سوچتا ہوں کہ ایک انسان جن کا تعلق زمیند ار خاندان سے ہے،بنگلہ دیش میں بہت سارے لوگ ان سے ملاقات کی حسرت رکھتے ہیں۔ اپنے پروگرام میں انہیں مہمان کی حیثیت سےلانےکے لئے تگ و دو کرتے ہیں۔اصل دھارے کے ذرائع ابلاغ میں جن کا طوطی بولتا ہے۔ ان کی فراخ دلی دیکھئے کہ وہ میری جھونپڑی نما گھر چلے آئے مبارکباد دینے۔ اسد چودھری کی شخصیت بنگلہ دیش کے دانشوروں میں بے مثل و بے نظیر ہے۔ لوگوں سےشفقت، ہمدردی اور میٹھی لہجوں میں بات کرنے والوں میں ان کا کوئی ثانی نہیں ۔
دارالحکومت ڈھاکہ میں اسد چودھری کا مستقل قیام رہا۔کبھی کبھار وہ اپنے آبائی گاؤں جاتے۔ آب و ہوا کی تبدیلیوں کی وجہ سے عالمی حدت میں اضافہ ہورہاہےجس سے ترقی پزیر ممالک بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ ایسے ہی چند نا گوار حالات ان کے گاؤں اولانیہ باالخصوص مہدی گنج میں رونما ہوا۔وہاں تیزی کے ساتھ دریاکےکٹائی کی وجہ سے ان کے گاؤں کو زیر آب ہونے کا خدشہ لاحق تھا۔چونکہ ان کے دل میں ایک ہمدرد انہ گوشہ پنہا ہے اس لئے انہیں جب اس بات کا پتہ چلا تو انہوں نے اپنی تمام ترمصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئےمجوزہ وصائل کو بروئے کار لاکر گاؤں کے لوگوں کے ساتھ مل کرمتعلقہ وزارت سمیت بہت سارے وزراء اور ماہرین کو اپنے گاؤں کے دورے پرلے گئے اور ان لوگوں کی توجہ مبذول کی تاکہ دریاکے کٹائی کی وجہ سے ایک تاریخی گاؤں زیرِ آب ہونے سے بچ جائے۔ انہوں نے اس مہم کو باحُسن و خوبی انجام دئیے۔ جیسا پتہ چلاہے کہ حکومت کی خاص لائحہ عمل کی وجہ سے دریا کے کٹائی میں رخنہ پڑا ہے۔ اس مہم کی کامیابی بلا شبہ اسد چودھری کے سر ہےجسے لوگ کافی سراہتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں اردو شاعروں اور ادیبوں کے درمیان نظرئیے کے حوالے سے آپس میں ہمیشہ تناؤ رہا ہے۔اسد چودھری اپنے معمول کے مطابق قہقہوں میں یہ کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں جدید پسند، ترقی پسند،ا سلام پسند تو ہے لیکن کوئی اردو پسند نہیں۔آئیے ہم سب سے پہلے اردو پسندبنیں۔ ان کا مشاہدہ یہ تھاکہ ڈھاکہ میں اردو کے حوالے سے درجنوں تنظیمیں قائم ہوئیں لیکن کسی بھی تنظیم کی تیسری میٹنگ منعقد نہیں ہوپائی اورلوگ بکھر گئے۔ اسی غرض سے انہوں نے خود اقدام کیا اور ۲۰۰۷ میں بنگلہ۔اردو ساہتیہ فورم کے نام سےایک تنظیم قائم کی ۔تنظیم کی پہلی میٹنگ ان کے رہائش گاہ پرمنعقدہوئی تھی۔انہوں نے ایک مستحکم تنظیم کے خواب کی تکمیل کے لئےخود ہی صدر کی ذمہ داری قبول کر لی تاکہ ملک میں اردو کے حوالےسے چند مثالی سرگرمیاں انجام دی جاسکیں۔ بعد ازاں حکومت کی رجسٹریشن کے سلسلہ میں اس تنظیم کے نام میں تبدیلی کی گئی جو اب بنگلہ۔ اردو ساہتیہ فاؤنڈیشن کے نام سےملک کا ایک مشہورادبی تنظیم ہے۔واضح رہے کہ یہ ملک کا واحداردو ادبی تنظیم ہے جسے حکومتِ بنگلہ دیش کی جانب سے رجسٹریشن حاصل ہے۔ اس کام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے اس تنظیم کے آنجہانی ناظم اعلیٰ سید فیاض حسین، ان کے بھائی ملک کے معروف گلوکار حیدر حسین اورموجودہ ناظم اعلیٰ مسعودالرحمن کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ اس تنظیم کے زیر اہتمام ڈھاکہ میں سنجیدگی کے ساتھ ادبی پروگرام منعقد کئے گئے نیز بنگلہ دیش کی ۵۰ سالہ مدت کے گزشتہ ۱۵ برسوں میں کثیر تعداد میں اردو کتابیں شائع کی گئیں جو اپنی نوعیت میں ایک تاریخ ہے اوربنگلہ دیش میں اردو ادب کے لئے مثال بھی۔اس ادارہ کو فعال بنانے کے لئےذاتی طور پر نیز اپنی بیٹی و داماد سے خطیر رقم اکٹھا کرکے پروگرام کو یقینی بنایاکرتے تھے۔
اسد چودھری کے ساتھ راقم الحروف کو ملک کے طو ل و ارض جن میں کشورگنج،سیدپور، راجشاہی، چاٹگام، کاکس بازاراور ملک کا ایک جزیرہ سینٹ مارٹین میں ادبی و ثقافتی سفر کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ ان کے ہمراہ بھارت کے کلکتہ اور بہارکا بھی ادبی اور ثقافتی دورہ کیا۔ ۲۰۱۷ میں کولکاتا میں بھیرب گنگولی کالج میں پروفیسرطیب نعمانی کی دعوت پر بنگلہ دیش کے چار رکنی وفد جن میں بنگلہ شاعر اسد چودھری، اردو شاعر احمد الیاس، کینیڈا میں مقیم بنگلہ دیشی دستاویزی فلم سازندیم اقبال اور راقم ا لحروف شامل ہیں کو شانداراستقبالیہ دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ کولکاتا کے معروف ڈرامہ نگار ظہیر انور کی ایما پر شرجیل آرٹس کے تحت بنگلہ دیشی وفد کے اعزاز میں ایک تقریب کاا ہتمام کیاگیا تھا۔چونکہ اسد چودھری کی اکلوتی بیٹی کی شادی اردو داں خاندان میں ہوئی ۔اس لئے انہیں اپنے سمدھیانہ کے دورے کا بہت شوق تھا۔ اسی غرض سے وہ بہار کے اکبر پور، مظفر پور اور پیپل بار سمیت سہسرام کا دورہ کیا۔ سہسرام میں اقراء اکیڈمی کی جانب سے کوی اسد چودھری کے اعزاز میں ایک مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا جہاں راقم الحروف نے بھی شرکت کی تھی۔ویسے تو اسد چودھری نے دنیا کے بہت سارے ممالک کا ادبی و ثقافتی دورہ کیا ہے لیکن کولکاتا اور سہسرام کے پروگراموں میں شرکت سے اسد چودھری بہت خوش نظر آرہے تھے کیونکہ یہ غالباً پہلا موقع ہے کہ وہ بیرونِ ملک اردو کے حوالے سے منعقدہ پروگرام میں اپنا بنگلہ کلام پیش کررہےتھے۔اس دورے کے دوران راقم الحروف کو بھی ایک غیر معمولی تجربہ کا سامنا ہوا۔کوکاتاکے مشہور بنگلہ ادبی تنظیم چارو کنٹھا نے اسد چودھری کے اعزاز میں ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا جہاں مجھے بھی مدعو کیا گیا اور میں نے اس پروگرام میں اپنا اردو کلام پیش کیا۔ غالباً اردو کے حوالے سے کولکاتا میں یہ ایک منفرد تجربہ ہے کہ بنگالی حلقہ میں اردوشاعر کی شمولیت اور یہ اس لئے ممکن ہو سکا کیونکہ میں اسد چودھری کےہمراہ سفر کررہا تھا۔
کوی اسد چودھری۳۰ سے زائد بنگلہ کتابوں کے خالق ہیں۔ جن میں ۱۵ سےزیادہ شعری مجموعے، ۷ سے زائد لوک کہانی کے مجموعے سمیت دوسرے دیگرتصنیفات شامل ہیں جن میں اردو کے حوالے سےسب سےاہم خدمات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے تقریباًساٹھ سے زائداردو شعراء کی تخلیق کو بنگلہ زبان میں ترجمہ کیا نیز ان شاعروں کے مختصر تعارف بھی اس کتاب میں شامل کئے تاکہ بنگالی قارئین کوصر ف شاعر کا کلام نہیںبلکہ ان کے بارے میں بھی معلوم ہوسکے ۔باریر کاچھے آرشی نگر( گھر کے قریب شہرِ آئینہ) میں انہوں نے کامیابی کے ساتھ بنگلہ دیش کے اردو شاعروں کوبنگلہ قارئین کے سامنے پیش کیاجو ملک میں زبانوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے میں پُل کا کام کررہی ہے۔یہ کتاب ۲۰۰۳ میں منظرِ عام پر آئی۔ ان کی بیحد کوشش تھی کہ اس کتاب کی دوسری اشاعت کے ذریعہ ا ردو شاعروں کی از سرِ نو تجدید ہو اوراس میں نئے طرز کے لکھاریوں کو شامل کیا جائے۔ لیکن افسوس صدافسوس کے ہملو گوں کی کوتاہیوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو سکا کیونکہ ان دنوں وہ کینیڈا میں مقیم ہیں اوربیحد بیمار ہیں۔ آنکھوں کی بینائی بھی ساتھ نہیں دے رہی ہے۔ حال ہی فون پر بات ہورہی تھی تو میں نے ان سے چند ترجمہ کے لئے گذارش کی تو بہت ہی افسردہ لہجوں میں بتانے لگے کہ اب تو میری بینائی بھی ساتھ نہیں دیتی۔جس کی وجہ سے وہ لکھنے پڑھنے سے قاصر ہیں ۔
اسد چودھری کو ادبی خدمات کے اعتراف بہت سارے انعامات سے نوازا گیا ان میں ۱۹۸۷ میں بنگلہ اکیڈیمی ایوارڈ، ۲۰۰۶ میں جاتیا کویتا پریشد ایوارڈ اور۲۰۱۳ میں ملک کااعلیٰ شہری ایوارڈ اکوشے پدک قابلِ ذکر ہیں۔ ذاتی زندگی میں ان کی دو بہنیں ڈھاکہ میں قیام پزیرہیں اورخوش و خرم زندگی گذاررہی ہیں۔ازدواج زندگی میں وہ دو صاحبزادے آصف چودھری، ظارف چودھری اور اکلوتی صاحبزادی نصرت جہان چودھری کےقابلِ رشک والد ہیں۔
اسلام میں شہیدوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ کبھی نہیں مرتے ٹھیک اسی طرح اسد چودھری کا کہناہےکہ شاعر و ادیب کبھی نہیں مرتے۔ جب تک ان کی تحریر یں زندہ ہیں وہ اپنی تحریروں میں زندہ رہتے ہیں۔اسد چودھری آپ ہمارے دلوں میں صدیوں زندہ رہینگے۔ ہم آپ کی اچھی صحت اور پُر سکون زندگی کے لئے دعا گو ہیں۔