نظم
اے عشق دل لٹا کے میں دلدار ہو گیا
چرچا گلی گلی میں ہے بیمار ہو گیا
سچ بولنے کی ضد میں خطاکار ہو گیا
جینا مرا جہان میں دشوار ہو گیا
مل کر گلے مناتے تھے ہولی بھی عید بھی
اب خوف کی کہانی بھی تہوار ہوگیا
کھائی قسم تھی میں نے کروں گا نہ عشق اب
تجھ پر نظر پڑی تو میں لاچار ہو گیا
تھی سلطنت ہماری مگر آج دیکھیے
محتاج اپنے گھر میں ہی سردار ہو گیا
جب بھی وفا کی راہ میں ٹھوکر لگی فہیم
جوشِ جنوں میں اور وفادار ہو گیا