وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ گزشتہ ایک سال سے دیکھ رہا ہوں کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان فلاں مہینے میں دیوالیہ ہوجائے گا، ان لوگوں کو شرم آنی چاہیے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے عالمی اداروں کو کیے گئے کئی وعدوں کی 2020 سے 2022 کے دوران پاسداری نہیں کی گئی، موجودہ حکومت نے تمام تر مشکل حالات میں کوشش کی کہ پچھلے تمام وعدے پورے کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے وعدے پورے کرنے کی کوششوں کا کافی بوجھ کاروباری طبقے اور عوام پر پڑا ہے، بجلی، گیس کی قیمتوں اور مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا کی 22ویں بڑی معیشت تھا لیکن سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے 2022 میں 47ویں نمبر پر آگیا، یہ ہم سب کے لیے تکلیف دہ تھا، اس دھچکے سے نمٹنے کے لیے موجودہ حکومت جدوجہد کررہی ہے۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ 2 آپشنز تھے کہ گزشتہ حکومت کو چلنے دیا جاتا اور ملک کا مزید نقصان ہوتا رہتا یا ہم ذمہ داری لیتے، پی ڈی ایم جماعتوں نے لبیک کہا اور ہم نے یہ ذمہ داری لینے کا فیصلہ کیا، بےشک ہمیں اس کا سیاسی طور پر نقصان ہوا۔
انہوں نے کہا کہ مشکل ترین ریفارمز ہوچکے ہیں اور اس کے اثرات کا بھی ہم سامنا کرچکے ہیں، کچھ کثیر الجہتی معاملات طے ہونا باقی ہیں لیکن آئی ایم معاہدے میںتاخیر کسی تکنیکی وجوہات کی بنا پر نہیں ہوئیں، ہم واحد جماعت ہے جس نے 16-2013 میں آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا معاہدہ تکمیل تک پہنچایا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری پہلی ترجیح یہی ہے کہ پاکستان کی جانب سے کیے جانے والے وعدوں میں ایک دن کی بھی تاخیر نہ ہو، الحمداللہ اس پورے عرصے میں کسی قسم کی کوئی تاخیر نہیں ہوئی۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ کچھ لوگوں کو دیوالیہ کی تاریخ دینے کا شوق ہے، گزشتہ ایک سال سے دیکھ رہا ہوں کہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان فلاں مہینے میں دیوالیہ ہوجائے گا، ان لوگوں کو شرم آنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کو حوصلہ دینے کے بجائے دیوالیہ سے ڈرایا جاتا ہے، اگر پاکستان پر کھربوں روپے قرض ہے تو پاکستان کی اربوں روپے کی معیشت بھی ہے، اس لیے ہمیں دیوالیہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا پاکستان کو کم از کم رواں برس ایک فیز سے گزرنا ہے، آپ سب کو یہ سوچنا ہے کہ آپ اس ملک کو کیا دے سکتے ہیں۔