پاکستان کی معیشت گذشتہ کچھ عرصے سے بڑی مشکلات کا شکار ہے، اور خاص کر گذشتہ ایک سال پاکستان کے لیے معاشی محاذ پر کافی تباہ کن رہا ہے۔
اپریل 2022 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی ایک کامیاب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے بیدخلی کے بعد جنم لینے والی سیاسی صورتحال نے موجودہ معاشی بحران کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔
پاکستان اپنی گرتی ہوئی معیشت کو پٹری پر لانے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مسلسل بیل آؤٹ پیکج کا مطالبہ کر رہا ہے، لیکن پی ڈی ایم حکومت کی بظاہر کئی ماہ سے جاری یہ کوششیں ثمرآور ثابت نہیں ہو پا رہی ہیں۔
ایسے میں یہ سوالات اب شد و مد سے اٹھ رہے ہیں کہ کیا پاکستان واقعی ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے؟ کیا پاکستان میں جمہوریت خطرے میں ہے؟ اور موجودہ حالات کی بنیاد پر ملک کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟
بی بی سی نے ان سوالات کے جوابات جاننے کے لیے کچھ ماہرین سے بات کی۔
سیاسی کشیدگی
پاکستان میں حالیہ سیاسی کشیدگی کا آغاز عمران خان کی اقتدار سے بیدخلی سے کچھ عرصہ قبل ہی شروع ہو چکا تھا مگر اس میں تیزی اس وقت آئی جب جلد از جلد نئے عام انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ لیے چیئرمین تحریک انصاف نے ملک گیر تحریک چلانے کی ابتدا کی۔
عمران خان پر ہونے والے ایک مبینہ قاتلانہ حملے اور بلآخر 9 مئی کو سابق وزیر اعظم کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری اور اس کے بعد ہونے والے پرتشدد مظاہروں نے صورتحال کو ابتر کر دیا۔
گرفتاری کے خلاف مظاہرین نے اپنا غصہ فوجی تنصیبات کو نشانہ بنا کر نکالا اور عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
لیکن کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اس بڑی پیشرفت نے پاکستانی فوج کو، جس کے افسران پر سابق وزیر اعظم عمران خان اپنی تقریروں کے دوران کڑی تنقید کرتے رہے ہیں، عوام میں اپنا کھوئی ہوئی ساکھ واپس حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا۔
ماہرین کے مطابق نومئی کے تناظر میں شروع کیے گئے اقدامات کے بعد عمران خان اب بظاہر بیک فٹ پر نظر آ رہے ہیں جب کہ ان کی پارٹی ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہے۔ روئٹرز کو دیے گئے اپنے حالیہ انٹرویو میں عمران خان نے ایک مرتبہ پھر الزام عائد کیا ہے کہ ان کی پارٹی کے خلاف جاری کریک ڈاؤن میں ملٹری اسٹیبلیشمنٹ ملوث ہے۔ تاہم ماضی قریب میں فوج متعدد مواقع پر سیاست میں مداخلت جیسے الزامات کی تردید کرتی آئی ہے۔
نومئی کے واقعات کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں، ان کے حامیوں اور سوشل میڈیا کارکنوں کو ہراساں کیا گیا، گرفتار کیا گیا اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی جبکہ آرمی تنصیبات پر حملوں میں ملوث پارٹی کے چند کارکنوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات بھی چلائے جا رہے ہیں۔
ایسی صورتحال میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال اور جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں عالمی دنیا میں تشویش پائی جاتی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے پاکستان میں ہونے والی پیش رفت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بیانات دیے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے بیان میں لکھا کہ ’فوجی عدالتوں میں شہریوں کا ٹرائل کرنا بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔‘ دوسری جانب ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکومت اپوزیشن جماعتوں کے سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں بند کرے۔
حال ہی میں امریکی ارکان پارلیمنٹ کے ایک گروپ نے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلکن کو ایک خط لکھا ہے جس میں امریکی قانون سازوں نے بائیڈن حکومت پر زور دیا کہ وہ پاکستان میں جمہوری اصلاحات کے لیے دباؤ ڈالے۔
پاکستان کی فوج اور جمہوریت
پاکستان میں جمہوریت کا سوال ہمیشہ سے مشکل رہا ہے۔ مصنف اور سیاسی مبصر وسعت اللہ خان کا کہنا ہے کہ یہاں یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ ہر ملک میں برطانیہ جیسا جمہوری نظام نہیں ہو سکتا۔
’مختلف ممالک کی اپنی سماجی، سیاسی اور تاریخی سچائی ہے۔ اسی لیے چین، شمالی کوریا اور ایران میں جو بھی نظام ہے، وہ بھی کچھ لوگوں کے لیے جمہوریت کی ایک شکل ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اصولی طور پر یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے، لیکن سب جانتے ہیں کہ حقیقت میں 100 فیصد ایسا نہیں ہے۔
’ہمارے پاس پارلیمنٹ، ادارے، انتخابی نظام اور وسائل ہیں لیکن جمہوریت اپنی اصل روح کے مطابق نہیں ہے۔‘
ملک کی سیاست میں فوج کی مداخلت اور اثرورسوخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وسعت نے وضاحت کی کہ وہ لوگ جو گذشتہ ستر سالوں سے ملک کو چلا رہے ہیں وہ ہی موجودہ بحران کے ذمہ دار ہیں۔
فوج کے معاملے پر سیاسی تجزیہ کار احسن بٹ کی رائے وسعت اللہ خان سے ملتی جلتی ہے۔ ’جرنل آف ڈیموکریسی‘ کے لیے لکھے گئے ایک تحقیقی مقالے میں احسن نے پاکستان کی سیاست میں فوج کی مداخلت پر اپنے دلائل دیے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج کی سیاست میں مداخلت اس یقین سے ہوتی ہے کہ سویلین بدعنوان اور کم نظر ہوتے ہیں اور یہ کہ اگر ملک کو سیاست دانوں کے حوالے کر دیا گیا تو تباہی ہو گی۔
احسن کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں جمہوریت کے دور میں بھی سیاست پر فوج کا خاصا اثر رہا ہے۔‘
تاہم پاکستانی فوج نے تاریخی طور پر سیاست میں کسی بھی کردار سے انکار کیا ہے۔
23 نومبر 2022 کو اپنے الوداعی خطاب میں سابق آرمی چیف نے کہا تھا کہ فوج پر تنقید اس لیے ہوتی ہے کیونکہ فوج گذشتہ 70 سال کے دوران سیاست میں مداخلت کرتی آئی ہے جو ’غیرآئینی‘ تھا تاہم فروری 2021 میں یہ متفقہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ فوج آئندہ سیاست میں کسی صورت مداخلت نہیں کرے گی۔
سیاسی مبصر زاہد حسین کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں جمہوریت کی جو بھی شکل رہی ہے اسے دیکھ کر عوام کا جمہورت پر اعتماد متزلزل ہوا ہے۔
زاہد کا کہنا ہے کہ حکومت کو اداروں کے درمیان کشمکش اور ملک میں بڑھتی ہوئے پولرائزیشن کی ذمہ داری بھی قبول کرنی چاہیے جس نے جمہوری عمل کو نقصان پہنچایا ہے اور اسے دوبارہ پٹری پر لانا پہلے سے کہیں زیادہ چیلنجنگ ہے۔
زاہد کہتے ہیں ’تصویر کے دونوں رُخ پاور گیم کو خطرناک موڑ دیتے ہیں۔ اپوزیشن (تحریک انصاف) فوجی اداروں کے خلاف کھڑی ہے جبکہ حکومت عدالت عظمیٰ کے مدمقابل ہے۔ اس سب کے انجام کو کوئی نہیں جانتا۔‘
معاشی بحران
چند ماہرین کے مطابق پاکستان کے سیاسی اور معاشی بحران ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سیاسی اتھل پتھل شاید براہ راست معاشی بحران کا سبب نہ بنی ہو لیکن یہ اس میں اضافے کا باعث ضرور بنی ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال اپریل میں عمران خان کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے وقت جی ڈی پی 6 فیصد تھی، جبکہ رواں مالی سال میں ملک کی جی ڈی پی کی شرح نمو 0.6 فیصد تک آنے کی توقع ہے۔
گذشتہ سال کے تباہ کن سیلاب، ادائیگیوں کے بحران اور سیاسی ہلچل نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
سال 2019 میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے 6.5 ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکج حاصل کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے اور پاکستان اس معاہدے کے تحت 1.1 ارب ڈالر کی آخری قسط حاصل کرنے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے لیکن اسے ابھی تک کامیابی نہیں ملی۔
حال ہی میں سٹیٹ بینک آف پاکستان نے آگاہ کیا تھا کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 4.19 ارب ڈالر پر آ گئے ہیں جبکہ ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ رقم ایک ماہ کی درآمدات کے لیے مشکل سے کافی ہے۔
پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ماضی میں اشارہ دیا تھا کہ 30 جون کو آئی ایم ایف پروگرام مزید پیش رفت کے بغیر ختم ہو سکتا ہے، تاہم وزیر خزانہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان ڈیفالٹ کے راستے پر نہیں ہے۔
اس غیر یقینی صورتحال نے ملک میں معاشی فرنٹ پر خوف جیسی صورتحال پیدا کر دی ہے اور اسی بے یقینی صورتحال کے باعث امریکی ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپیہ مسلسل گر رہا ہے۔
ماضی میں اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر کی قیمت 310 پاکستانی روپے کے برابر ہو گئی تھی۔ جبکہ اپریل 2022 میں عمران خان کو ہٹانے تک ایک ڈالر کی قیمت 182 پاکستانی روپے کے برابر تھی۔
ڈیفالٹ کا خطرہ؟
تاہم ماہر اقتصادیات اشفاق حسن کا خیال ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کے راستے پر نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک نے 1998 میں جوہری تجربات کے بعد ابتر حالات دیکھے ہیں، ملک پہلے ڈیفالٹ نہیں ہوا تو اب بھی ڈیفالٹ نہیں ہو گا۔
اشفاق کہتے ہیں کہ ’سٹیٹ بینک نے پہلے ہی اپنا درآمدی بل سخت کر دیا ہے۔ اگر اس کی مسلسل نگرانی کی جائے تو پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 5 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہ جائیں گے۔ اس لیے ہم قرض کی قسطیں ادا کر سکیں گے اور ڈیفالٹر نہیں بنیں گے۔‘
دوسری جانب ماہر اقتصادیات شبر زیدی کا کہنا ہے کہ ڈیفالٹ ہو یا نہ ہو، پاکستان کی معیشت پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے اور یہ حکومت اس سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
رواں سال اپریل کے مہینے میں ملک میں مہنگائی کی شرح 36.4 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ اس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ خوراک کی قیمتوں میں اضافہ تھا۔ یاد رہے کہ یہ جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ مہنگائی کی شرح ہے۔
شبر زیدی کا ماننا ہے کہ کوئی بھی سمجھدار شخص آئی ایم ایف پروگرام سے نکلنے کا سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ اس سے بڑے پیمانے پر نقصان ہو گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’معیشت میں اصلاحات کو سیاسی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ سیاست کو اس سے دور رکھنا چاہیے۔ ہماری برآمدات کم ہو رہی ہیں اور ہمارے قرضے بڑھ رہے ہیں۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے جسے کوئی بھی حکومت اپنے طور پر سنبھال سکتی ہے۔ ملک کو بچانے کے لیے معاشی انقلاب کی ضرورت ہے۔‘
دوسری جانب آئی ایم ایف مشن کے سربراہ ناتھن پورٹر نے کہا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ آئندہ بجٹ آئی ایم ایف پروگرام کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا جائے جس کا مطلب بہت کم سبسڈیز ہوں گی۔
پاکستان میں یہ سال عام انتخابات کا سال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران اتحاد ’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘ آئندہ بجٹ میں پٹرول کی قیمتوں میں چھوٹ کے ساتھ ساتھ دیگر رعایتیں دینا چاہتی ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر حکومت آئی ایم ایف پروگرام سے نکلنے کا فیصلہ کرتی ہے تو پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ کافی بڑھ سکتا ہے مگر اگر وہ آئی ایم ایف کے ساتھ چلتے رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس کے لیے کچھ سخت فیصلے لینے پڑیں گے جن کا اثر انتخابات میں بھی نظر آ سکتا ہے۔
لیکن ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ موجود معاشی صورتحال صرف گذشتہ ایک سال کی سیاسی کشیدگی کا شاخسانہ نہیں بلکہ یہ گزشتہ چند دہائیوں میں کیے گئے فیصلوں کا نتیجہ ہے، وہی فیصلے جنھوں ان فیصلوں نے پاکستان کو موجودہ صورتحال تک پہنچا دیا ہے۔