Site icon DUNYA PAKISTAN

بڑھاپے میں باپ بننے کے خطرات کیا ہیں؟

Share

ایسا لگتا ہے کہ لوگوں میں بڑی عمر میں باپ بننے کا رواج عام ہو رہا ہے کچھ معاملات میں کافی زیادہ عمر میں یہ باتیں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔

رواں ہفتے 83 سالہ اداکار الپچینو کے نمائندوں نے تصدیق کی تھی کہ وہ اپنی 29 سالہ گرل فرینڈ نور الفلاح کے ساتھ بچے پیدا کر رہے ہیں۔ صرف وہی نہیں بلکہ ان کے ساتھی اداکار رابرٹ ڈی نیرو نے گذشتہ ماہ تصدیق کی تھی کہ وہ 79 سال کی عمر میں اپنے ساتویں بچے کے والد بننے جا رہے ہیں۔

یہ جوڑیاں یقینی طورپر پہلے بوڑھے والدین نہیں ہیں، کئی دیگر مرد اداکاروں، موسیقاروں اور یہاں تک کہ امریکی صدور نے بھی زندگی میں دیر سے بچے پیدا کیے ہیں اور عام طور پر پہلی بار باپ بننے والے مردوں کی اوسط عمر برسوں سے بڑھ رہی ہے۔

سنہ 1972 اور 2015 کے درمیان اس میں 3.5 سال کا اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ میں باپ بننے والے مردوں کی اوسط عمر 30.9 سال ہے اور نو فیصد مرد کم از کم 40 سال کے تھے جب ان کے ہاں پہلا بچہ پیدا ہوا۔

،تصویر کا کیپشن83 سالہ اداکار الپچینو (بائیں) اور ان کے ساتھی اداکار 79 سال رابرٹ ڈی نیرو(دائیں) دونوں کے ہاں بچے کی پیدائش ہونے والی ہے

کم از کم گنیز ورلڈ ریکارڈ کے مطابق سب سے عمر رسیدہ باپ کی عمر 92 سال تھی، حالانکہ کبھی کبھار عمر رسیدہ مردوں کے بارے میں بھی غیر سرکاری دعوے سامنے آتے رہتے ہیں۔ تاہم، بڑی عمر میں باپ بننے کے اپنے خطرات ہیں۔

دسمبر سنہ 2022 میں یوٹاہ یونیورسٹی اور دیگر اداروں کے محققین نے ’بڑھتی ہوئی پدرانہ عمر‘ اور تولیدی صلاحیت، حمل میں مسائل اور بچے کی صحت پر اس کے اثرات کا ایک جامع جائزہ شائع کیا تھا۔

اگرچہ بہت سے مطالعات میں ممکنہ طور پر الپچینو کی عمر کے بہت سے مردوں کو شامل نہیں کیا گیا ہوگا، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اتنے عام نہیں، شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ 40 اور 50 سال کی عمر کے مردوں کے سپرم پہلے ہی حجم، گنتی، حرکت پذیری اور تغیرات کے لحاظ سے کم معیار کے ہوجاتے ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ ان تبدیلیوں کا مطلب یہ ہے کہ مرد کی بڑھتی ہوئی عمر ’نہ صرف بانجھ پن بلکہ قدرتی طور پر ٹھہرنے والے حمل کے گِر جانے کے خطرے کا باعث بنتی ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ کئی مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ ایک بڑی عمر کا مرد اسقاط حمل کے خطرے کو نمایاں طور پر بڑھا دیتا ہے۔

پھر پیدائش کے بعد بیماری کا خطرہ ہوتا ہے۔ یہ 1950 کی دہائی سے معلوم امر ہے کہ عمر رسیدہ مردوں کے بچوں میں جینیاتی عارضے اکونڈروپلاسیا کے ساتھ پیدا ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔

یوٹاہ کے محققین لکھتے ہیں کہ ’یہ تیزی سے واضح ہو گیا ہے کہ بڑھتی ہوئی پدرانہ عمر، جیسے ماں کی بڑھتی ہوئی عمر سے اولاد میں صحت کی خرابی کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘

مثال کے طور پر سٹینفورڈ یونیورسٹی کے محققین نے دریافت کیا کہ بڑی عمر کے والد کا تعلق پیدائش کے وقت کم وزن اور نوزائیدہ بچوں میں دورے پڑنے کے بڑھتے ہوئے خطرات سے ہے۔ بڑھتی ہوئی پدرانہ عمر بچپن کے کینسر کی بڑھتی ہوئی شرح کے ساتھ ساتھ پیدائشی دل کے نقائص سے بھی وابستہ ہے۔

یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ بہت سے مطالعات کی طرح جو صحت اور ممکنہ وجوہات کے مابین تعلق کی جانچ پڑتال کرتے ہیں ان کا میکانزم واضح نہیں ہیں۔ ان معاملات میں دیگر پیچیدہ عوامل بھی ہوسکتے ہیں جو کردار ادا کرتے ہیں، جیسے والدین کا طرز زندگی اور ماحولیاتی آلودگی وغیرہ۔

پھر بھی محققین نے پایا ہے کہ جیسے جیسے مردوں کی عمر بڑھتی ہے، سپرم بنانے والے خلیات میں تغیرات اور ڈی این اے کو نقصان پہنچ سکتا ہے جو بعد میں اگلی نسل میں منتقل ہو سکتے ہیں۔

اس طرح کے مطالعات عام طور پر زرخیزی کے بارے میں ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کے سوچنے کے انداز میں تبدیلیوں کا باعث بن رہے ہیں۔ تاریخی طور پر، جب کسی جوڑے کو حاملہ ہونے میں دشواری ہوتی ہے تو عورت اور اس کی عمر پر توجہ مرکوز کرنے کا رجحان رہا ہے۔

درحقیقت، زیادہ تر تحقیق خواتین کی تولیدی صلاحیت اور زرخیزی پر مرکوز ہے، لیکن اب یہ واضح ہو رہا ہے کہ اگرچہ مردوں کی تولیدی صلاحیت نسبتاً آہستہ آہستہ کم ہوتی ہے لیکن والد کی عمر اب بھی اہمیت رکھتی ہے۔

فی الحال، الپچینو اور ڈی نیرو اور ستر، اسی اور نوے کی دہائی کے دیگر مردوں کے معاملے نایاب ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر باپ بننا اب ایک نوجوان مرد کا معاملہ نہیں ہے۔

سنہ 1970 کی دہائی کے بعد سے 30 سال سے کم عمر کے امریکی والدوں کی تعداد میں 27 فیصد کمی آئی ہے، جبکہ 45-49 سال کی عمر کے والدوں کی تعداد میں 52 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

Exit mobile version