لالہ لجپت رائے غالباً واحد ہندو لیڈر ہیں جن کا ذکر ہماری مطالعہ پاکستان کی نصابی کتب میں مثبت انداز میں ملتا ہے، لالہ جی سیاست دان تھے، لکھاری تھے، کانگریس کے لیڈر تھے، انگریزی راج کے سخت مخالف تھے.
لاہور کے تاریخی بریڈلے ہال میں لالہ لجپت رائے نے نیشنل کالج قائم کیا جہاں سے بھگت سنگھ جیسے انقلابی نکلے۔ سانحہ جلیانوالہ باغ کی تحقیقات کے لیے انگریز سرکار نے ہنٹر کمیشن بنایا تھا جبکہ کانگریس نے علیحدہ ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں لالہ لجپت رائے شامل تھے، لالہ جی جب امرتسر جاتے تو ضلعی انتظامیہ اُن سے کسی قسم کا تعاون نہ کرتی بلکہ اُلٹا اُن کی راہ میں ہر قسم کی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی جاتی، ڈپٹی کمشنر سے لے کر سپاہی تک انگریز سرکار کے تمام اہلکار لالہ لجپت رائے کی راہ میں روڑے اٹکاتے۔
لالہ جی نے اپنی انکوائری کیسے مکمل کی، یہ ایک الگ کہانی ہے، فی الحال اِس کہانی کا سبق صرف اتنا ہے کہ جب آپ خود کو انقلابی اور نظریاتی کہتے ہیں تو پھر وہ پورا نظام جس کے خلاف آپ جدوجہد کرتے ہیں وہ آپ کے خلاف کام کرنا شروع کر دیتا ہے.
اِس جدوجہد کی ایک قیمت ہے جو چکانا پڑتی ہے، لالہ لجپت رائے ایسے ہی انقلابی تھے، انگریز کی ناجائز سرکار کو بزورِ قوت ہٹانے کو بھی جائز سمجھتے تھے، اپنے نظریات پر وہ آخری وقت تک ڈٹے رہے، لاہور میں سائمن کمیشن کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پولیس تشدد کا نشانہ بنے اور زخموں کی تاب نہ لا سکے اور پھر لاہور میں ہی اُن کی وفات ہو گئی۔
لالہ جی کی یاد اِس لیے آئی کہ آج کل کچھ لوگ جو دو ماہ پہلے تک نظریاتی جدوجہد کا جھنڈا لہرارہے تھے، یکایک اُس جھنڈے کو سرنگوں کرکے تاویلیں پیش کر رہے ہیں کہ اب بھی وہ نظریاتی ہیں مگرجھنڈا لہراتے لہراتے تھک گئے ہیں، سو تھوڑی دیر کے لیے بریک لی ہے۔
دلیل اُن کی یہ ہے کہ نظریے کا جھنڈا لہرانے کا کام اُن کے اکیلے کا نہیں، وہ یہ کام گزشتہ کئی برس سے کر رہے ہیں، اس جدوجہد میں انہوں نے بے شمار قربانیاں بھی دی ہیں، لہٰذا انہیں یہ طعنہ دینا کہ وہ اپنے نظریے سے ہٹ گئے ہیں، بہت زیادتی کی بات ہے، جو لوگ انہیں یہ طعنے دیتے ہیں وہ خود کسی قسم کی جدوجہد کرنے کے لیے تیار نہیں.
ایسے لوگوں کی جدوجہد ٹویٹر اور فیس بک تک محدود ہے جہاں وہ ایک ٹویٹ کرکے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے جمہوریت کا حق ادا کر دیا ہے اور اس کے بعد وہ کریلے گوشت کھا کر سو جاتے ہیں۔ یہ طعنہ بھی انہوں نے عوام کو دیا کہ ہمسایہ ملک میں ایک قانون منظور ہوا جس کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آئے جبکہ ہمارے عوام اپنے گوشہ عافیت سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ اِن دلائل میں کتنا وزن ہے، دیکھتے ہیں!
اِس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے لیڈران نے اپنے نظریات کی خاطر اِس ملک میں قربانیوں کی تاریخ رقم کی ہے، بہیمانہ تشدد سہا ہے، جلا وطنی کی سزا پائی ہے، پھانسی پر جھول گئے ہیں، کوڑے کھائے ہیں اور ایسا ذہنی اور جسمانی ٹارچر برداشت کیا ہے جس کو یہاں الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔
یہ سب کچھ اِس لیے ہوا کہ جو نظریاتی راستہ اِن لوگوں نے چُنا وہ عقوبت خانوں اور جیلوں سے ہو کر گزرتا ہے، اِس راستے میں کوئی آرام گاہ نہیں، کوئی ریسٹ ایریا نہیں جہاں آپ تھوڑی دیر کے لیے سستا لیں اور کہیں کہ میں تازہ دم ہو کر نکلتا ہوں، اُتنی دیر کے لیے نظریے کے جھنڈے کو نیچے رکھ دوں، نہیں، یہ ممکن نہیں، یہ سہولت اِس راستے میں میسر ہی نہیں۔
لالہ لجپت رائے فل ٹائم انقلابی تھے، پارٹ ٹائم نہیں، انہیں علم تھا کہ انگریز سامراج کے خلاف مزاحمت کی کیا قیمت ہے، انہوں نے وہ قیمت چکائی مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اُن تمام قربانیوں کو فراموش کر دیں جو ہمارے ہاں لوگوں نے دیں، بہرحال اُن قربانیوں کی قدر ہمیشہ کی جانی چاہئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی بھی نظریے کے لیے جدوجہد کرنا فقط فردِ واحد یا لیڈر کا کام ہے یا عوام کی بھی کوئی ذمہ داری ہے؟
یہاں مجھے اپنے ایک مرحوم افسر یاد آئے، جو کہا کرتے تھے ہر بندے کو اپنے اپنے حصے کا بوجھ اٹھانا چاہئے، سو ایک جج کا کام قانون اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلے کرنا ہے، وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ پورا معاشرہ ہی مردہ ہو چکا ہے تو مجھے کیا ضرورت ہے آئین کا تحفظ کروں، اسی طر ح صحافی کا کام سچ لکھنا ہے.
وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ جہاں لیڈر ہی تھک ہار کر بیٹھ جائے وہاں میں کیوں سچ کا بھاری پتھر اٹھائوں اور لیڈر کا کام نظریاتی بنیادوں پر عوام کی رہنمائی کرنا ہے، وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ عوام ہی باہر نہیں آتے سو میں کیا کروں! اور یہ عوام کے باہر نہ نکلنے کی بات ویسے بھی درست نہیں، دو سال پہلے سے لے کر اب تک کی خبروں کا تجزیہ کروا لیں، حقائق سامنے آ جائیں گے۔
اور پھر جس ملک میں طلبہ تنظیموں پر پابندی ہو، کوئی ڈھنگ کی مزدور یونین، لیبر یونین، کسان یونین نہ ہو، عملاً مقامی حکومت کا وجود نہ ہو، پارٹی کا منشور کنسلٹنٹ لکھتے ہوں اور وہ کبھی کسی نے پڑھا ہی نہ ہو، اُس ملک میں عوام کا اتنا نکلنا بھی غنیمت ہے۔
اور پھر یہ عوام والی دلیل ویسے بھی بودی ہے، عوام نے تو اپنے نظریات کے مطابق مختلف جماعتوں کو ووٹ دے کر ممبرانِ اسمبلی منتخب کر لیے، اب اِن ممبران کا کام تھا کہ اُس نظریے کے مطابق قانون سازی کرتے جس پر ووٹ لے کر آئے تھے نا کہ یوٹرن لے کر کہتے کہ لوگ تو کریلے گوشت کھا کر سو جاتے ہیں، سو ہم کیوں کام کریں!
رہی بات ٹویٹر کی، تو ٹویٹر اب صرف ایک ایپ نہیں بلکہ جلسہ گاہ ہے جہاں کوئی بھی لیڈر اپنے لاکھوں کارکنوں سے جب چاہے خطاب کر سکتا ہے اور کارکن اُسے فوری جواب بھی دے سکتے ہیں، اس قسم کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم انقلابی تبدیلیاں لا رہے ہیں.
دنیا میں فسطائی حکومتیں سوشل میڈیا پر نہ صرف نظر رکھتی ہیں بلکہ اپنے خلاف مہم چلانے والوں پر مقدمے بھی قائم کرتی ہیں، سو یہ طعنہ دینا ٹھیک نہیں کہ اپنے لوگ ایک ٹویٹ کرکے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے جمہوریت کی جنگ میں حصہ ڈال دیا اور پھر کریلے گوشت کھا کر سو جاتے ہیں، یہ کام اتنا بھی آسان نہیں۔
ویسے یہ تمام باتیں اپنی جگہ، میں صدق دل سے یہ سمجھتا ہوں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ لوگ اٹھیں اور ’کریلے گوشت کو عزت دو‘ کا نعرہ لگائیں کیونکہ فی زمانہ اسی قسم کے نعرے میں عافیت ہے۔