آپ کیسے اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ سر درد میں کون سی دوا کھائیں اور پیٹ یا کمر کے درد میں کون سی؟
بازار میں پیراسیٹامول، آئیوپروفین، ایسپرین مختلف برانڈنگ اور پیکیجنگ میں ملتی ہیں۔ لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ ان میں سے کس دوا کا کیا کام ہے۔
درد سے نجات دلانے والی دواؤں میں کوئی گولی کی شکل میں آتی ہے، کوئی کیپسول تو کوئی سیرپ۔ اور ہاں کچھ کی تو پیکیجنگ پر ہی لکھا ہوتا ہے کہ ان سے ’فاسٹ ریلیف‘ یعنی جلد آرام ملے گا۔ مگر کیا یہ دعوے سچ ہوتے ہیں؟
یونیورسٹی آف ایبرڈین میں کلینیکل فارماکولوجی کے سینیئر لیکچرر ڈاکٹر میری جون میک لائڈ کے مطابق ہمیں درد اعصاب کے سروں پر زور پڑنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ محرکات یا تو سوجن یا پروسٹاگلینڈن کے اخراج کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ پروسٹاگلینڈن چربی کے افعال جیسا ہوتا ہے جو ہارمونز کی طرح کام کرتا ہے۔
ان کے مطابق تمام پین کلرز یا درد ختم کرنے والی ادویات یا تو سوجن پر اثر کرتی ہیں یا پروسٹاگلینڈن کے اخراج کو کنٹرول کرتی ہیں۔ لیکن ان ادویات کے کام کرنے کا طریقہ تھوڑا مختلف ہوتا ہے۔ درد کا مقابلہ کرنے والی سب سے عام دوائی ہے پیراسیٹامول۔ یہ ہلکے پھلکے درد کے لیے بہترین سمجھی جاتی ہے۔
ڈاکٹر میک لائڈ کے بقول ’یہ دماغ کے اس حصے پر کام کرتی ہے جو بخار کم کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے اور ساتھ ہی پروسٹاگلینڈن کے بننے کو کم کر کے اعصاب کے سروں کو راحت پہنچاتی ہے۔‘
حالانکہ ایسپرین اور آئبوپروفین کی طرح پیراسیٹامول پٹھوں کی سوزش پر اتنے مؤثر انداز میں کام نہیں کرتی، مثال کے طور پر ٹخنے کے مڑ جانے یا ماہواری کے دوران ہونے والے درد میں۔ لیکن یہ تینوں ہی ادویات بغیر سٹیرائڈ والی اینٹی سوزش ادویات کے طور پر درجہ بند ہیں۔
آپ پیراسیٹامول کو آئبوپروفین یا ایسپرین کے ساتھ ملا کر استعمال کریں تو شدید درد سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس بارے میں مقدار کا خاص خیال ضروری ہے۔ دو ادویات ایسی نہیں ہونی چاہییں جن میں پیراسیٹامول ہو۔ ایک خوراک میں زیادہ پیراسیٹامول لینا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
درد سے لڑنے والی ادویات یا پین کلرز کو خریدتے وقت عام طور پر لوگ اس کی قیمت پر غور کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے گھروں میں والدین چھوٹے موٹے درد سے نمٹنے کے لیے کون سی دوا لیتے رہے ہیں، اس کا بھی ہماری ذہنیت پر اثر پڑتا ہے۔ ہم بھی عام طور پر سر درد یا گلے کے درد میں وہی دوائیں لیتے ہیں جو ہمارے بڑے لیتے تھے۔
بازار میں کئی قسم کی پین کلرز ملتی ہیں۔ ان کی پیکیجنگ اور انھیں بنانے والی کمپنی کی ساکھ بھی یہ طے کرتی ہے کہ ان کی قیمت کیا ہو گی۔ کئی کی پیکنگ پر لکھا ہوتا ہے کہ وہ درد کے خلاف جلد اثر کرتی ہیں، ایسی ادویات میں عام طور پر کیفین بھی شامل ہوتی ہے اور اُن کی قیمت بعض مرتبہ چھ سے سات گنا زیادہ ہوتی ہے۔
پین کلر گولی کی شکل میں ہے، کیپسول یا پھر سیرپ، یہ طے کرتا ہے کہ وہ کتنی جلد اثر کرے گی۔
ٹیبلیٹ یا گولی کے جسم میں داخل ہونے پر جذب ہونے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ جبکہ سیرپ یعنی مائع ادویات جلد جذب ہو جاتی ہیں، اس لیے جلد مؤثر بھی ثابت ہوتی ہیں۔ جبکہ جذب ہونے میں لگنے والے وقت کے معاملے میں کیپسول ان دونوں کے درمیان میں آتی ہے۔
یہ ادویات درد کا مقابلہ کرنے میں خود اتنی مؤثر نہیں ہوتی ہیں جتنی سمجھی جاتی ہیں۔ پیراسیٹامول درحقیقت خود صرف تیس سے چالیس فیصد ہی درد سے نجات دلاتی ہے۔ لیکن جب اس میں کیفین بھی شامل ہوتی ہے تو وہ درد میں مزید دس فیصد کمی لانے میں مدد کرتی ہے۔
پین کلرز پر برسوں سے ریسرچ کرنے والے بائیو کیمسٹ ڈاکٹر اینڈریو مور مشورہ دیتے ہیں کہ ’دوا میں کم از کم سو ملی گرام کیفین کا شامل ہونا درد میں مزید دس فیصد کمی کو یقینی بناتا ہے۔‘
عام طور پر کیفین کے ساتھ آ نے والی پین کلرز تھوڑی مہنگی بھی ہوتی ہیں۔ آپ چاہیں تو انھیں خریدنے کے بجائے عام پیراسیٹامول ایک کپ کافی کے ساتھ کھا سکتے ہیں۔ وہ بھی اسی طرح مؤثر ثابت ہوتا ہے جیسے کیفین ملی ہوئی پیراسیٹامول کھانا۔
ایسپرین درد کے خلاف پچیس سے تیس فیصد حد تک مؤثر ثابت ہوتی ہے جبکہ آئبوپروفین پچاس سے ساٹھ فیصد تک درد کو کم کرنے میں کارگر ثابت ہوتی ہے۔
سر درد، گھٹنے کے درد یا ماہواری کے درد میں کیا الگ الگ قسم کی پین کلرز لینی چاہییں؟ کئی کمپنیاں پین کلرز کی پیکیجنگ پر لکھ کر بیچتی ہیں کہ وہ کس درد کے لیے خاص معقولیت رکھتی ہے۔ لیکن اس بات کے کوئی شواہد اب تک موجود نہیں کہ کسی خاص قسم کی پین کلر کسی خاص قسم کے درد کو کم کرنے کے لیے زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر مور کہتے ہیں’مجھے علم نہیں اگر ان دعوؤں کے پیچھے کوئی سائنسی حقائق ہیں۔‘
لیکن ساتھ ہی وہ مشورہ دیتے ہیں ’اگر آپ کو لگتا ہے کہ کوئی خاص قسم کی پین کلر آپ کے لیے بہتر ثابت ہوتی ہے، تو یہ زبردست بات ہے۔ کیوںکہ آخر کر بندہ یہی تو چاہتا ہے کہ اس کو درد سے نجات حاصل ہو جائے۔ اور بس اسی میں ہماری دلچسپی ہونی چاہیے۔‘
مگر آخر میں وہی بات کہ اپنے کسی مرض کے لیے خود سے دوا لینے سے گریز کریں اور کسی بھی طبی مسئلے کی صورت میں اپنے معالج سے رجوع کریں، اپنی حالت کے بارے میں ان کو آگاہ کریں تا کہ وہ آپ کی بیماری یا صحت کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کے لیے کوئی دوا تجویز کر سکیں۔