عقل کی ویکسین کہاں سے خریدیں؟
ترقی پسند شاعر اسرار الحق مجاز نے بہت برس پہلے جب کہا کہ انڈیا میں انقلاب کب کا آ جاتا مگر کمیونسٹ پارٹی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے تب سے ہم اسے ایک شگفتہ فقرہ سمجھ کر لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ مگر اس فقرے میں چھپی رمزیت ہر دور میں شکل بدل بدل کے سامنے آتی رہتی ہے۔
مثلاً اگر عمران خان اور آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل اپنے ٹویٹس کو صرف کشمیریوں کی حمایت تک محدود رکھیں اور مودی مخالف ہندوؤں اور انڈین مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی سے باز رہیں تو ان کی یہ قربانی انڈیا میں چلنے والی تحریک کو زیادہ فائدہ پہنچا سکتی ہے۔
اب کیا ضرورت تھی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں طلبا سے اظہارِ یکجہتی کے لیے جانے والی دیپیکا پڈوکون کو شاباش دینے کی۔
یا پھر کسی بنگلہ دیشی مظاہرے کا کلپ انڈین مسلمانوں کے مظاہرے کے طور پر ٹویٹانے کی۔ اور پھر دونوں ٹویٹس تھوڑی دیر بعد ڈیلیٹ کرنے کی۔ اسے کہتے ہیں نانی نے خصم کیا برا کیا، کر کے چھوڑ دیا اور برا کیا۔
بعض اوقات کسی کے حق میں بولنے سے زیادہ خاموش رہنا ہی اس کے حق میں سب سے بڑی مدد ہوتی ہے۔ جنگی حکمتِ عملی کے عظیم چینی ماہر سن زو کے اس قول پر ہر دور کے سیاسی و فوجی رہنماؤں کو دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ ’جب دشمن غلطی کر رہا ہو تو اس کا دھیان مت بٹاؤ۔‘
اب ایران کو ہی دیکھ لیں۔ وہاں تبدیلی کب کی آ جاتی مگر سب سے بڑی رکاوٹ امریکہ بنا ہوا ہے۔
جب بھی ایران میں کوئی حکومت مخالف مظاہرہ ہوتا ہے تو امریکی صدر کا ٹوئٹر چمک اٹھتا ہے۔ ’قدم بڑھاؤ ایرانیو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔‘ اور پھر یہ ٹویٹ حکومت کے ہاتھ میں ہتھیار اور مظاہرین کے ماتھے پر کلنک کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔
جب حکومتیں یہ بات نہیں سمجھ سکتیں تو عام آدمی بالعموم اور سوشل میڈیائی مخلوق بالخصوص کس کھیت کی مولی ہیں۔
میرے جو دوست جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر فیس بک اور ٹوئٹر پر اوور ٹائم لگا کے امتِ مسلمہ کو امریکہ کے خلاف متحد کرنے کے لیے پسینوں پسینی ہو رہے تھے، اب ایرانی حکومت کی جانب سے یوکرین کے مسافر بردار طیارے کو غلطی سے مار گرانے کے اعتراف کے بعد گویا تعطیل پر چلے گئے ہیں۔ اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی؟ کیا طیارے میں کوئی ایرانی سوار نہیں تھا؟
اسی طرح میرے وہ مہربان جو شام اور عراق میں شیعہ ملیشاؤں کی جانب سے سنیوں پر توڑے جانے والے مظالم پر کروٹ کروٹ ڈجیٹلی بے چین رہتے ہیں ان کے ٹوئٹر اور فیس بک اکاؤنٹ پر یمن، لیبیا، مصر اور سنکیانگ کے سنیوں کا احوال اشارتاً بھی نہیں ملتا۔
اسے کہتے ہیں لوگ اپنے اپنے سوگ اپنا اپنا مال آدھا آدھا۔
ویسے تو سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔ مگر جب پاکستان کے اندر ظالم اور مظلوم کی بات آتی ہے تو استحصالی و استحصال زدہ طبقات کو الگ الگ کر کے دکھانے والی عینک سے قومی بحران کی بنیاد پر نگاہیں گاڑنے کے بجائے ایسی عینکیں بانٹ دی جاتی ہیں جن میں ایک عام آدمی کو صرف مظلوم پختون دکھائی دیں یا پھر مظلوم بلوچ، سندھی، سرائیکی، پنجابی، مہاجر، کشمیری، بلتی، گلگتی، سنی اور شیعہ ہی نظر آئیں۔
کوئی ظالم پختون، بلوچ، سندھی، سرائیکی، پنجابی، سنی اور شیعہ ٹپائی نہ دے۔ یوں عینکیں خریدنے والے ہمیشہ خسارے میں اور بیچنے والے ہمیشہ منافع میں رہیں۔ آج کل ایسی عینکوں کی سب سے بڑی منڈی انڈیا بنا ہوا ہے۔
حکمران طبقات اور اشرافیہ میں کلچر، عقیدے، جغرافیہ اور تاریخ کے فرق کے باوجود سرحدوں سے ماورا جیسی مثالی مفاداتی یکجہتی پائی جاتی ہے اگر اس سے آدھی یکجہتی رعایا کی رگوں میں داخل ہو جائے تو کایا نہ پلٹ جائے۔
مگر کون بتائے کہ اس مرحلے تک پہنچنے کے لیے اندھی جذباتیت کے جلاب سے بچنا اور عقل کی ویکسینیشن کروانا لازمی ہے۔ پر یہاں تو لوگ پولیو کی ویکسین سے ڈرتے ہیں اور میں عقل کی ویکسین کی بات کر رہا ہوں۔ تف ہے میری عقل پر۔
چلیے اس بے عقلے کالم کو یہیں روکتے ہوئے ایک نظم سنائے دیتے ہیں۔
وے ڈرتے ہیں
کس چیز سے ڈرتے ہیں وے
تمام دھن، دولت، گولہ بارود، پولیس، فوج کے باوجود
وے ڈرتے ہیں کہ ایک دن
نہتے غریب لوگ ان سے ڈرنا بند کر دیں گے ( گورکھ پانڈے )