ٹیکنالوجی کے دور میں مصنوعی ذہانت کا سافٹ وئیر چیٹ جی پی ٹی متعارف کروائے جانے کے بعد کئی لوگوں کو ایسا لگا کہ اس سافٹ وئیر کو ہر کوئی استعمال کررہا ہے، لیکن حقیقت کچھ مختلف ہے۔
امریکی آن لائن میڈیا کمپنی انسائڈر کے مطابق امریکی ملٹی نیشنل کمپنی مورگن اسٹینلے کی جانب سے ایک سروے کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ حقیقت میں چیٹ جی پی ٹی استعمال کرنے والوں کی تعداد کم ہے۔
کمپنی کی جانب سے اپریل میں 2 ہزار لوگوں پر تحقیق کی گئی جس کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ صرف 19 فیصد لوگ چیٹ جی پی ٹی استعمال کرتے ہیں جبکہ صرف 9 فیصد لوگ گوگل بارڈ چیٹ بوٹ استعمال کرتے ہیں۔
۔(گوگل بارڈ ، اے آئی ٹیکنالوجی سے لیس بارڈ گوگل کی تیار کردہ ایل ایل ایم ایس لینگوئج ماڈل پر مبنی ہے)
جبکہ صرف ماہانہ بنیادوں پر 7 فیصد لوگ جبکہ ایک ہفتے میں صرف 8 فیصد لوگ ایک سے زائد بار چیٹ جی پی ٹی استعمال کرتے ہیں۔
چیٹ بوٹ استعمال نہ کرنے والوں کی بڑی تعداد کے مطابق اگلے 6 ماہ تک اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے امکانات کم ہیں۔
زیادہ تر لوگ چیٹ بوٹ ٹیکنالوجی صرف اس لیے استعمال کررہے ہیں تاکہ وہ کسی نئے موضوع کے بارے میں معلومات حاصل کرسکیں، تاہم اس ٹیکنالوجی سے کمانے والوں کی تعداد کم ہے۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ لوگ چیٹ بوٹ کو نئی مصنوعات کی تحقیق کے لیے، قیمتوں کا موازنہ کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
ای کامرس پر مصنوعی ذہانت کا اثر آمدنی کو بڑھا سکتا ہے کیونکہ کمپنیاں آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے چلنے والی سفارشات اور سرچ انجن کو منیٹائز کررہے ہیں،
تاہم آن لائن خریداری کے حوالے سے 56 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ ابتدائی طور پر گوگل سرچ، یوٹیوب کا استعمال کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ مصنوعی ذہانت پر تحقیق کرنے والی امریکی کمپنی ’اوپن اے آئی‘ نے ’چیٹ جی پی ٹی‘ کے نام سے گزشتہ برس نومبر میں ایک سافٹ ویئر متعارف کرایا تھا جو ’گوگل‘ کی طرز پر صارفین کے سوالات کے جوابات دیتا ہے۔
سائبر سیکیورٹی کے ماہر ڈاکٹر آصف مسعود بلوچ کہتے ہیں کہ چیٹ جی پی ٹی بنیادی طور پر ایک سہولت ہے جس میں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان سے سوال پوچھ رہا ہے۔