گھُڑ سوار:اُس کے ارد گرد پھولوں کی چادر بچھی ہے، سامنے سبزہ لہلہا رہا ہے ، کنیزیں خدمت پر مامور ہیں اورانواع و اقسام کے میوہ جات طشتریوں میں رکھے ہیں۔اسے غمِ روزگار نہیں ، شب و روز گزارنے میں کوئی دقت نہیں اورکھیل تماشوں سے فرصت نہیں ۔دل کے بہلانے کیلئے غلام ایک اشارے کے منتظر رہتےہیں اورشام ہوتے ہی بادہ و ساغر اُس کے سامنے سجا دیے جاتے ہیں۔ہر شے کی فراوانی ہے ،زندگی میں روانی ہے۔دوستوں کی محفلیں سجتی ہیں،رونقیں سمیٹی جاتی ہیں۔ملنے جلنے والوں میں با اثر اور امرا شامل ہیں،کسی کام میں رکاوٹ نہیں ، کوئی پریشانی نہیں ۔گھُڑ سوار کو دیکھ کر لوگ رشک کرتے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جو حسد کرتے ہیں۔مگرآج صبح جب وہ بیدار ہوا ہےتو طبیعت میں اُس کی بے چینی ہے ،رنگینیاں گرچہ چار سو بکھری ہوئی ہیں مگر وہ اُن سے بیزار ہے، خادموں نے بڑھ کر پوشاک پہنائی ہے مگراُس نے اُن کا ہاتھ جھٹک دیا ہے۔وہ آئینے میں اپنی صورت دیکھ رہا ہے مگراسےیوں لگ رہا ہے جیسے یہ کسی اور شخص کا عکس ہے ۔اُس کی صورت اِس قدر بھیانک نہیں ہو سکتی ،اُس پر تو نازنینیں فدا ہوتی ہیں،یہ کون ہے جسے میں آئینے میں دیکھ رہا ہوں۔وہ گھبرا کر پلٹتا ہے، اپنی کمر میں اُڑسا ہوا خنجر نکالتا ہے اور اپنی شہہ رگ پر پھیر دیتا ہے۔خون کے چھینٹے آئینے پر پڑتے ہیں، اُس کی گردن ڈھلک جاتی ہے ۔
***سیاہ کمرہ:میرے گھرمیں کئی کمرے ہیں، اُن کمروں میں بہت سے روشندان اور کھڑکیاں ہیں، کئی دروازے ہیں۔کچھ کھڑکیاں زنگ آلود ہو چکی ہیں ، اور چند روشندان ایسےہیں جن سے روشنی چھَن کر آتی ہے، باقیوں پر گرد جمی ہوئی ہے۔کمروں کی حالت بھی کچھ اچھی نہیں ، جگہ جگہ سے روغن غائب ہے ،کہیں دیواریں سیلن زدہ ہیں اور کہیں سے پلستر اکھڑا ہوا ہے ، مگر میں انہی کمروں میں رہنے پر مجبور ہوں۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسےکمروں کی حالت روز بروز خراب ہو رہی ہےلیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ میرا وہم ہو۔اِن کمروں کے علاوہ میرے گھر میں ایک سیاہ کمرہ بھی ہے ،یہ باقی کمروں سے مختلف ہے ،اِس کا دروازہ سیاہ ہے اور اندر ونی دیواروں کا روغن بھی سیاہ ہے ۔مجھے اِس کمرے میں جانے کی اجازت نہیں ،شاید بچپن میں ایک مرتبہ اتفاقاً اِس کمرے کا دروازہ کھلا رہ گیا تھا، اُس وقت میں نے اسے باہر سے جھانک کر دیکھ لیا تھا، اندر جانے کی ہمت نہیں ہوئی ،شاید اِسلئے کہ میں بہت چھوٹا تھا اور اس کمرے کی سیاہی سے خوفزدہ ہوگیا تھا۔اب میں اِس کمرے کو اندر سے دیکھنا چاہتا ہوں مگر میرے پاس اِس کی کُنجی نہیں ہے۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ باقی کمروں کے تالے اور اُن کی چابیاں موجود ہیں مگر اِس سیاہ کمرےکی چابی نہیں ہے ۔لیکن اِس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اب اُس کمرے کی سیاہی بڑھ رہی ہے ، کل جب میں نے غور سے دیکھا تو پتا چلا کہ اب صرف وہ کمرہ ہی سیاہ نہیںرہابلکہ اُس کے ساتھ بیرونی دیواریں بھی سیاہ ہونا شروع ہوگئی ہیں۔مجھے یوں لگ رہاہے کہ وہ دن دور نہیں جب یہ سیاہی باقی کمروں تک بھی پھیل جائیگی اور میں گھر سے بے گھر ہوجاؤنگا ۔***
اِبلیس:آج کادن عجیب تھا ۔آج سورج مشرق سے طلوع نہیں ہوا ،آج کوچوان نے گھوڑے کو چابک نہیں مارا،آج شیر نے ہرن کا شکار نہیں کیا،آج بادشاہ کو کھانا نصیب نہیں ہوا،آج منصف نے ترازو کے دونوں پلڑے برابر کردیے، آج میں نے شِکم سیر ہو کر کھایا۔لیکن آج کے دن کیا تاریخ ہے مجھے نہیں معلوم، کسی جنتری میں اِس کا ذکر نہیں ،کسی کیلنڈر میں یہ دن نہیں ۔میں باہر نکل کر دیکھتا ہوں،مجھےلوگوں کے معمولات میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ، کوئی اِس دن کا جشن نہیں منا رہا ،کسی کو خبر نہیں کہ آج کے دن کیا ہوا، ہر شخص اپنی فکر میں ڈوبا ہوا ہے ۔میں لوگوں کی شکلوں کو غور سے دیکھتا ہوں، اُن کی آنکھوں میں جھانکتا ہوں، مجھے سب لوگ ایک جیسے نظر آتے ہیں،سپاٹ چہرے، بے نورآنکھیں۔کوئی میری طرف نہیں دیکھتا۔یونہی ایک خیال دل میں آتا ہے کہ کہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہا مگر پھر فوراً ہی میں اِس بات کو دماغ سے جھٹک دیتا ہوں۔میرے سامنے جیتے جاگتے انسان چل پھر رہے ہیں ، یہ خواب کیسے ہوسکتا ہے ۔ اِس کشمکش کو میں کیا نام دوں، سمجھ نہیں آتی ۔دوبارہ نظر گھما کر دیکھتا ہوں تو ایک عجیب الخلقت شخص دکھائی دیتا ہے ، اُس کا حلیہ ایسا ہے کہ بیان نہیں کیا جا سکتا ،میں یہ بھی نہیں بتا سکتا کہ اسے انسان کہابھی جا سکتا ہے یا نہیں ،لیکن بظاہر وہ انسانوں کے حلیے میں ہی ہے ۔وہ میری طرف آتا ہے ،میں اسے پہچاننے کی کوشش کرتا ہوں مگر پہچان نہیں پاتا، وہ میری مشکل سمجھ جاتا ہے ۔وہ اپنا نام ابلیس بتاتا ہے ۔میں اُس سے پوچھتا ہوں کہ لوگ حالات سے اِس قدر لا تعلق کیوں ہیں،کیا انہیں معلوم نہیں کہ آج کا دن کس قدر عجیب تھا؟ اِبلیس مسکرا کر میری طرف دیکھتا ہے، مجھے لگتا ہے کہ شاید میرے سوال کا جواب دے گا مگر وہ پلک جھپکتے ہی غائب ہوجاتا ہے۔میں اسے لوگوں کے ہجوم میں تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر وہ نظر نہیں آتا۔ لوگ اب بھی اسی طرح اپنی بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں ۔ایک کوچوان پر میری نظر پڑتی ہے جو تانگے میں جُتے گھوڑے پر چابک برسا رہا ہے ۔ میں گھر واپس آجاتا ہوں۔
***
سرکس:کیا تم سرکس میں کام کرتے ہو؟ ہاں۔ تمہیں سرکس میں کام کرنا کیسا لگتا ہے؟ مجھے بہت پسندہے، جب لوگ میرے کرتب سے خوش ہوکر تالیاں بجاتے ہیں تو مجھے بے حد مسرت محسوس ہوتی ہے۔ لیکن کیا تم اپنے رِنگ ماسٹر کے اشاروں پر نہیں ناچتے؟ ہاں کچھ ایسا ہے ،مگر اب میں اپنے کام میں ماہر ہو چکا ہوں، اب مجھے اُ س کے اشاروں کے بغیر ہی معلوم ہوتا ہے کہ میں نے کیا کرنا ہے۔ کیا تم نے سرکس سے باہر کی دنیا دیکھی ہے؟ نہیں، سرکس ہی میری دنیا ہے۔ اوہ، تو اِس کا مطلب ہوا کہ تم باہر کی دنیاسے واقف ہی نہیں اور رِنگ ماسٹر کے غلام ہو؟ نہیں، مجھے باہر کی دنیا میں کوئی دلچسپی نہیں اور میں رِنگ ماسٹر والی بات کا جواب دے چکا ہوں۔ باہر کی دنیا اِس سرکس سے بہت بڑی اور مختلف ہے۔ اچھا، اگر ایساہے تو کیا اُس دنیا میں کوئی رِنگ ماسٹر نہیںجس کے اشاروں پر لوگ ناچتے ہوں؟ آں، ہاں کچھ لوگ رِنگ ماسٹر ہیں اور کچھ لوگ اُن کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ تو ممکن ہے کہ تمہاری دنیا کے باہر بھی ایک دنیا ہو،اور اُس کے باہر بھی ایک دنیا ہو، اور پھر اُس کے باہر ایک اور دنیا ہو، میں کہاں تک سفر کروں گا، کہاں جا کر دم لوں گا؟ دونوں کردار یہ مکالمہ جاری رکھتے ہیں۔ سرکس میں لوگ محظوظ ہو رہے ہیں۔