میرے بچپن کا دوست شمشاد ایک ہینڈسم ،گھبرو جوان ہے اس کی عمر اگرچہ ساٹھ کے قریب ہے لیکن اس کا دراز قد، گورا چٹا رنگ ،خوبصورت خدوخال اور عمدہ صحت اس کی عمر چوری کی ضامن ہے۔ میرا یہ دوست مجھ سے اکثر ناراض رہتا ہے، اس کی ناراضی کا پس منظر یہ ہے کہ وہ جب بھی میرے پاس آتا ہے کوئی نہایت ڈرائونی خبر اپنے ساتھ لاتا ہے مثلاً یہ کہ اسے دل کا عارضہ لاحق ہو گیا ہے اور یہ منحوس خبر سناتے ہوئے بظاہر وہ بہت افسردہ دکھائی دیتا ہے لیکن اس کےساتھ اپنی طویل رفاقت کی وجہ سے مجھے اس کے اندر دھمالیں ڈالتی خوشی کا اندازہ ہو جاتا ہے۔میں پوچھتا ہوں دل کا عارضہ! تمہیں وہ کیسے ؟وہ نہایت بجھے ہوئے لہجے میں بتاتا ہے آج صبح جاگنگ کے دوران میں نے محسوس کیا کہ میرا سانس پھول رہا ہے اور تمہیں علم ہے سانس پھولنا عارضہ قلب کی نشانی ہے؟جاگنگ کے دوران اگرچہ سانس سبھی کا پھولتا ہے مگر پھر بھی میں پوچھتا ہوں تم نے ٹیسٹ وغیرہ کرائے ؟وہ کہتا ہے اس کی کیا ضرورت ہے مجھے یقین ہے مجھے ہارٹ ٹربل ہو گئی ہے اس کے بعد وہ مجھ سے ہمدردی کے بول سننے کا منتظر ہوتا ہے مگر میں اس کی ’’پت‘‘ اتارنے لگتا ہوں، جس پر وہ ناراض ہو جاتا ہے اور کہتا ہے تم بہت سفاک انسان ہو تمہیں اپنے دوست کی بیماری کا سن کر کوئی افسوس ہی نہیں ہوا یاد رکھو اس دنیا میں ،میں اکیلا تمہارا دوست ہوں مجھے اگر کچھ ہو گیا تو تمہیں اس بھری دنیا میں کوئی منہ نہیں لگائے گا۔ایک روز شمشاد میرے پاس آیا، اس دن وہ کچھ اسی طرح کے صدمے سے کچھ زیادہ ہی نڈھال نظر آ رہا تھا میں پریشان ہوگیا میں نے پوچھا ’’یار خیر تو ہے ؟مری ہوئی آواز میں بولا مجھے ہیپاٹائٹس سی ہو گیا ہے ،مجھے بھوک نہیں لگ رہی میری آنکھیں دیکھو پیلی ہو رہی ہیں یہ سن کر میرے پائوں تلے سے زمین نکل گئی میں نے گھبرا کر پوچھا ’’ٹیسٹ وغیرہ کروائے ‘‘بولا ہاں مگر وہ تو سب صحیح ہیں یہ کہتے ہوئے اس کی آواز میں خاصی مایوسی تھی، میں نے کہا اگر ٹیسٹ صحیح ہیں تو پھر ہیپاٹائٹس کی اطلاع تمہیں کس نے دی ۔شمشاد نے جواب دیا ایسے معاملات میں میرا دل گواہی دیتا ہے تم چاہتے ہو کہ میں لیبارٹری کی غلط سلط رپورٹوں پر یقین کرکے اس موذی مرض سے غافل ہو جائوں، اس کے دل کی لیبارٹری کو چیلنج کرنا میرے بس میں نہیں تھا چنانچہ اس روز میں خاموش ہو گیا۔
میرا یہ بہت پیارا دوست روزانہ ایک نئی بیماری کے ساتھ میرے پاس آتا ہے اور مجھے یقین دلانے کی کوشش کرتا ہےکہ میرا اور اس کا عمر بھر کا ساتھ بس اب چھوٹنے ہی والا ہے اس کے بعد وہ مجھ سے توقع کرتا ہے کہ ہم دونوں گلے مل کر زارو قطار روئیں گے اور ایک دوسرے کیلئے ’’عام معافی ‘‘ کا اعلان کریں گے مگر افسوس کہ مجھ ایسے سفاک انسان کے دل پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ جب کبھی وہ ایسی بات کرتا ہے میں کہتا ہوں بندے کی شکل بری ہو تو وہ کم از کم اچھی بات تو کرلے حالانکہ اس کی شکل کے حوالے سے میں نے یہ پنجابی محاورہ محض محاورے کے طور پر استعمال کیا ہوتا ہے ورنہ میرا دوست تو لاکھوں میں ایک ہے۔ میرے اس حسین وجمیل دوست کا یہ رویہ صرف اپنے ساتھ ہی نہیں ہے بلکہ وہ مجھے بھی مختلف امراض میں مبتلا ہونے کا یقین دلاتا رہتا ہے، اسے علم ہے کہ میرا صرف ایک گردہ ہے ’’مرحوم‘‘ گردہ پانچ سال قبل ڈاکٹروں نے محض اسکے بری صحبت میں رہنے کی وجہ سے نکال دیا تھا کیونکہ اسکے گردونواح میں کینسر دریافت ہوا تھا چنانچہ ڈاکٹروں نے ٹیومر کے ساتھ یہ گردہ بھی نکال باہر کیا ،وہ اکثر مجھ سے پوچھتا ہے تم نے الٹرا سائونڈ کرایا ہے میں اسے بتاتا ہوں کہ میں ہر چھ مہینے بعد الٹرا سائونڈ کراتا ہوں اور اللہ کے فضل وکرم سے ہر دفعہ معاملہ ٹھیک نکلتا ہے ۔مگر اس کی تسلی نہیں ہوتی وہ کہتا ہے کسی ماہر ڈاکٹر سے الٹرا سائونڈ کرائو یہ کام بہت مہارت طلب ہے چنانچہ اس کی تسلی کے لئے میں دو تین دفعہ اس کی پسند کے ڈاکٹر کے پاس جا چکا ہوں اور وہ بھی یہ رپورٹ دیتے رہے ہیں کہ ایبڈامن (ABDOMEN)میں کسی قسم کی کوئی گروتھ نہیں ہے مگر شمشاد کی پریشانی برقرار رہتی ہے اور وہ کہتا ہے میرا مشورہ مانو تو امریکہ یا لندن سے الٹرا سائونڈ کرائو تم میرے بہت قیمتی دوست ہو میں نہیں چاہتا کہ تم کسی خوش فہمی میں مارے جائو۔شمشاد میرے اور اپنے علاوہ پاکستان کے بارے میں بھی بہت فکرمند رہتا ہے وہ اس کی مختلف بیماریوں کی تشخیص کرتا رہتا ہے اور حیرت کی بات ہے کہ کم از کم پاکستان کے حوالے سے اس کے بہت سے وہم صحیح ہوتے ہیں مثلاً وہ کہتا ہے کہ اسے مارشل لا کا عارضہ ہے جس کی وجہ سے اس کی صحت گرتی جا رہی ہے پہلے یہ گھبرو جوان ہوتا تھا اس کا دراز قد، اس کے خوبصورت خدوخال اور اس کی عمدہ صحت کا پوری دنیا میں چرچا تھا مگر جاگیرداری ، کٹھ ملائیت اور ناخواندگی کے ساتھ ساتھ ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف کے فوجی ادوار اسے راس نہیں آئے اور وہ جو لاکھوں میں ایک تھا اب دنیا کے تمسخر کا نشانہ بنا ہوا ہے میں یہاں تک اس سے اتفاق کرتا ہوں مگر اس کے بعد وہ مجھ سے توقع رکھتا ہے کہ ہم ایک محفل گریہ منعقد کریں جس میں پاکستان کے زوال کے حوالے سے ایک دوسرے کے گلے لگ کر رویا کریں اور اعلان کیا جائے کہ یہ ملک اب نہیں بچے گا، میں پوچھتا ہوں اس سے کیا ہوگا شمشاد جواب دیتا ہے اس سے یہ ہو گا کہ دنیا کو پاکستان سے ہماری محبت کا اندازہ ہو گا میں کہتا ہوں نہیں، اس سے مایوسی پھیلے گی اور مایوسی ایک مکمل طور پر صحت مند وجود کو بھی موت کی طرف گھسیٹ کر لے جاتی ہے پاکستان تو ویسے ہی صدمات سہتے سہتے بہت نحیف ہو گیا ہے ہمیں پاکستان سے اظہار ہمدردی کرنے کی بجائے اسے مضبوط بنانے کی کوشش کرنی چاہئے اسے وہ بنیادیں فراہم کرنی چاہئیں جن پر استوار یہ عمارت ایک بار پھر سروقد نظر آئے اور دنیا میں اس کی خوبصورتی اور اس کی صحت مندی کے دوبارہ چرچے ہوں میں پاکستان کو تمہاری طرح خوبصورت اور صحت مند دیکھنا چاہتا ہوں۔شمشاد اس کے جواب میں ایک ٹھنڈی آہ بھرتا ہے اور افسردہ لہجے میں کہتا ہے ’’میری طرح صحت مند‘‘ میں تو بیمار ہوں مجھے تو لگتا ہے میں صرف دو چار سال اور زندہ رہوں گا اس پر میں اس کی گردن دبوچ لیتا ہوں اور محاورے کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے کہتا ہوں ’’بندے کی شکل بری ہو تو وہ کم از کم بات اچھی کرے‘‘ اور وہ بے دلی سے آئینے میں اپنی شکل دیکھنے لگتا ہے اس توقع کے ساتھ کہ شاید آئینہ ہی اس کے وہم کی تصدیق کردے۔