اگر آج آپ کو بچوں کی پیدائش پر قابو پانے کے طریقوں تک باآسانی رسائی حاصل ہے تو اُن کی قدر اور اہمیت کا اندازہ لگانا آپ کے لیے ہرگز آسان نہیں ہو سکتا۔
گذشتہ صدی کے دوران اہم دریافتوں نے خواتین کی زندگیوں کو بدلنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
جدید انٹرا یوٹرائن ڈیوائسز یعنی ہارمونل مانع حمل طریقوں کی ایجاد سے پہلے استعمال ہونے والی زیادہ تر مصنوعات کی تاثیر بہت کم تھی اور وہ حمل کو روکنے کے بجائے اس میں وقفے کے لیے زیادہ مؤثر تھیں۔
جب 1960 میں بچوں کی پیدائش پر قابو پانے کی گولی (یعنی مانع حمل دوا) دستیاب ہوئی تو یہ حمل روکنے کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہوا۔
اس دوا کو درست طریقے سے استعمال کیا گیا تو اس کی ناکامی کی شرح ایک فیصد سے بھی کم نکلی اور اس طرح خواتین کا اعتماد ان مانع حمل ادویات پر قائم ہوا۔
اگرچہ اس گولی کے بعض سنگین ضمنی اثرات بھی ہو سکتے ہیں تاہم بہت سی خواتین کے لیے یہ اب بھی ان طریقوں سے بہت کم تکلیف دہ تجربہ ثابت ہوتا ہے جو اس کی دریافت سے قبل رائج تھے۔
دوبارہ قابل استعمال کنڈوم
کنڈوم کا استعمال 17ویں صدی سے ہی شروع کر دیا گیا تھا اور اس کا بنیادی مقصد جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کو روکنا تھا۔
ابتدائی طور پر انفیکشن سے روکنے کے لیے کنڈوم جانوروں کی آنتوں یا کھال کا استعمال کرتے ہوئے بنائے جاتے تھے.
مصنوعی ربڑ کی ایجاد کے چند سال بعد 1844 میں ربڑ کا پہلا کنڈوم تیار ہوا۔
اسے کیونکہ ایک مرتبہ استعمال کے بعد دھو کردوبارہ استعمال کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا، اسی وجہ سے یہ موجودہ مردانہ کنڈوم سے زیادہ موٹا اور کم آرام دہ تھا۔
ڈسپوزایبل لیٹیکس کنڈوم 1930 کی دہائی تک ایجاد نہیں ہوا تھا۔ یہ ڈسپوزیبل کنڈوم پتلے، زیادہ آرام دہ اور ایک بار پہننے کے قابل ہوتے تھے۔
اس دہائی کے بعد امریکہ میں اس’غیر اخلاقی سامان‘ سمجھے جانے والی مصنوعات کی فروخت پر پابندی کو ختم کر دیا اور اس سے کنڈوم کے استعمال کو زیادہ وسیع ہونے میں مدد ملی۔
تیزاب میں بھیگے ہوئے سپنج
چونکہ تیزاب سپرم (نطفہ) کو مار دیتا ہے، اس لیے گھریلو طور پر پیدائش پر قابو پانے کا روایتی طریقہ سرکہ میں بھگوئے ہوئے سپنج کو اندام نہانی میں داخل کرنا سمجھا جاتا تھا۔
خاص طور پر ایسے سپنج 20 ویں صدی کے اوائل میں تجارتی طور پر دستیاب ہوئے اور ان میں سپرمی سائیڈل کیمیکل (spermicidal chemicals) موجود ہوتے تھے۔
نطفے کومارنے والے سپنج کی کچھ اقسام اب بھی دستیاب ہیں۔ تاہم برطانیہ میں فی الحال ایک فیصد سے بھی کم خواتین اس قسم کا سپنج استعمال کرتی ہیں۔
اس طریقہ کار میں عام طور پر ناکامی کی شرح خاص طور پر نوجوان خواتین کے لیے تقریباً 12 سے 24 فیصد سالانہ ہے۔ عام طور پر، کم موثر طریقے استعمال کرنے پر کم عمر خواتین کے حاملہ ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے کیونکہ وہ بڑی عمر کی خواتین سے زیادہ تولیدی صلاحیت کی حامل ہوتی ہیں۔
ڈائیافرم اور کیپس
ڈایافرام اور ان کے چھوٹے کزنز، جنہیں کیپس کہتے ہیں، 1800 کی دہائی کے اوائل میں ایجاد ہوئے تھے۔
کنڈوم کی طرح، یہ سپرم کے لیے جسمانی رکاوٹوں کے طور پر کام کرتے ہیں اور سپنج کی طرح وہ سپرمیسائڈز کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔
ان مصنوعات کو جماع سے پہلے اندام نہانی میں داخل کیا جاتا اور اس کے بعد کم از کم چھ گھنٹے تک جگہ پر رکھا جاتا تاکہ نطفے کو مارا جا سکے۔
دوسری جنگ عظیم سے پہلے مانع حمل کے لیے کیپس اور ڈایافرام امریکہ اور یورپ میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتے تھے۔
لیکن ان طریقوں کو استعمال کرنے والی نوجوان خواتین میں ناکامی کی عام شرح تقریباً 12 فیصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں ایک فیصد سے بھی کم خواتین انھیں استعمال کرتی ہیں۔
رکاوٹ کے طریقوں کی ناکامی کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں عورت کی اووریز میں انڈے بننے کا عمل نہیں رکتا اور اگر نطفہ رکاوٹ کو عبور کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو تولیدی عمل کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
دوسری خرابی یہ ہے کہ انھیں رکھنا مشکل ہے اور جنسی تعلقات سے پہلے ان کو اندام نہانی میں داخل کرنا ضروری ہے، ایسے وقت میں جب مرد اور خاتون شاید دوسری چیزوں کے بارے میں سوچنا نہ پسند کریں گے۔
’ڈوچنگ‘ حمل روکنے کے بجائے اندام نہانی میں جلن اور انفیکشن کا سبب
انٹرکورس یعنی جسمانی تعلق قائم کرنے کے بعد اندام نہانی کو جراثیم کش محلول کے ساتھ دھونا 20ویں صدی کے اوائل میں مانع حمل طریقہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔محلول کے ساتھ دھونے کا یہ عمل (ڈوچنگ) نطفہ کو متاثر نہیں کرتا جو بچہ دانی کے منہ سے آگے بڑھنے کے لیے اپنا سفر پہلے ہی شروع کر چکے ہیں۔ لہذا اندام نہانی کو اینٹی سیپٹک سے دھونے کا نتیجہ حمل کو روکنے میں معاون نہیں تھا۔آج صحت کے ماہرین ڈوچنگ کی سختی سے حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اس طریقے سے اندام نہانی کے کے قدرتی حفاظتی بیکٹیریا کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے جبکہ ماہرین کے مطابق اس طریقہ کار کو استعمال کرنے سے اندام نہانی میں جلن اور انفیکشن ہو سکتی ہے۔
حمل کو روکنے کے لیے بالوں کی پن کی طرز کا آلہ
انٹرا یوٹرائن ڈیوائسز (IUDs) مانع حمل طریقے کار کے طور پر بہت مقبول رہیں لیکن ابتدا میں یہ ڈیوائسز جدید مصنوعات سے مختلف تھیں۔ابتدائی انٹرا یوٹرائن طریقے اس سوچ پر مبنی تھے کہ بچہ دانی کے اندر رکھا گیا کوئی بھی آلہ ممکنہ طور پر فرٹیلائزڈ انڈے کو نشوونما سے روک دے گا۔19 ویں صدی میں، حمل کو روکنے کے لیے بالوں کے لیے استعمال ہونے والی پن کی طرز کا آلہ استعمال کیا جاتا تھا۔ان آلات کے دو بازو تھے جو اندام نہانی میں داخل ہوتے تھے اور ایک بٹن نما چیز بچہ دانی کے منہ (سروکس) کو ڈھانپتا تھا۔ یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ یہ مصنوعات کبھی بھی آرام دہ رہی ہوں گی۔پولینڈ کے ماہر امراض نسواں رچرڈ ریکٹر نے 1909 میں ایک مقالہ شائع کیا تھا کہ کس طرح انھوں نے خاتون کے رحم میں ریشم کے کیڑے کی ایک انگوٹھی داخل کی اور اس کو نکالنے کے لیے اس کے اطراف دو دھاگے پھیلے ہوتے تھے۔اس وقت، بہت سے ممالک میں مانع حمل کے خلاف قوانین کی وجہ سے ماہر نسواں خاموشی سے ان آلات کو استعمال کرتی تھیں۔1920 کی دہائی میں نام نہاد ’گریفن برگ کی انگوٹھی‘ نے دھاتی کھوٹ والی انگوٹھی کی جگہ لے لی۔جرمن ماہر امراض نسواں ارنسٹ گریفن برگ نے سب سے پہلے خالص چاندی استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن جسم نے دھات کو جذب کر لیا اور جس کے رد عمل میں خواتین کے مسوڑھوں کا رنگ نیلا ہو گیا ۔1950، 1960 اور 1970 کی دہائیوں کے دوران، تمام قسم کے IUD مواد اور شکلیں استعمال کی گئیں جس میں شیٹ سے لے کر کوائل تک شامل تھیں یہاں تک کے محققین نے محسوس کیا کہ تانبے نے مانع حمل آلات کی تاثیر کو بہتر بنایا ہے۔
مانع حمل کے لیے ہارمونل اور کاپر آلات میں ناکامی کی شرح
1970 کی دہائی میں امریکہ میں مارکیٹ میں تقریباً 70 مختلف انٹرا یوٹرائن ڈیوائسز آ چکی تھیں۔ایسا ہی ایک تانبے کا آلہ بدنام زمانہ’ ڈلکون شیلڈ‘ تھا جس نے اسے ہٹانے کے لیے استعمال ہونے والے دھاگوں کے ڈیزائن کی وجہ سے بیکٹیریا کو بچہ دانی تک جانے دیا تھا۔اس کی وجہ سے بڑی تعداد میں خواتین کو انفیکشن ہوا اور 1970 کی دہائی میں انٹرا یوٹرائن طریقوں کی مقبولیت میں کمی آئی۔جدید انٹرا یوٹرائن ڈیوائسز (IUDs) مکمل طور پر بچہ دانی میں رکھے جاتے ہیں اور ان میں تانبے یا ہارمونز ہوتے ہیں جیسے کہ سست رفتار پروجیسٹرون، اور یہ پرانے آلات سے زیادہ محفوظ اور زیادہ موثر ہیں۔آئی یو ڈیز کی وجہ سے انفیکشن سے بچاؤ اب ممکن ہے لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس آلے کو رحم میں داخل کرنے کے پہلے چند ہفتوں میں انفیکشن سامنے آ جاتی ہے۔ہارمونل اور کاپر دونوں آلات میں اب ناکامی کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ماہرین کے مطابق ’ہمارے پاس فی الحال پیدائش پر قابو پانے کے کئی طریقے ہیں جو کہ اگر صحیح طریقے سے استعمال کیے جائیں تو شاذ و نادر ہی ناکامی کا خدشہ ہوتا ہے۔ لیکن خواتین اب بھی اپنے لیے بہترین طریقہ تلاش کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔‘تاہم ماہرین اپنی نئی تحقیق میں پیدائش پر قابو پانے کے ضمنی اثرات (سائیڈ افیکٹ) کو کم کرنے پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔ساتھ ہی، حکومتوں کو چاہیے کہ وہ جنسی صحت کی خدمات کو فروغ دینے کی حوصلے افزائی کریں تاکہ خواتین کو مانع حمل طریقوں تک بہتر اور تیز تر رسائی دی جا سکے، اور ساتھ ہی ان کے لیے موزوں ترین انتخاب کرنے کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔