شوخ و چنچل انداز اور اپنے لباس کی وجہ سے مشہور بالی وڈ اداکارہ عرفی جاوید کے لیے میڈیا سے دور رہنا مُشکل لگتا ہے اور یہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ آئے دن کسی نہ کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر دیکھائی دیتی ہیں۔
اور اگر وہ کبھی چھپنے کی کوشش کرتی بھی ہیں تو ’پاپارازی‘ ایسا ہونے نہیں دیتے۔ وہ اُن سے متعلق کوئی نہ کوئی ایسی تصویر یا بیان نکال ہی لاتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی عرفی کو میڈیا پر آنا پڑتا ہے۔
پاپارازی وہ فوٹوگرافر ہوتے ہیں جو سیاست، کھیل، فلم یا کسی بھی شعبے میں شہرت رکھنے والی شخصیات کا پیچھا کرتے ہیں اور اُن کی روزمرہ زندگی کے ایسے حقائق کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں جو دیکھنے والوں کے لے انتہائی سنسنی خیز ثابت ہوں۔
لکھنؤ سے تعلق رکھنے والی عرفی اپنے لباس اور بیانات کی وجہ سے اکثر تنازعات میں گھری رہتی ہیں۔
عرفی نے بی بی سی ہندی کے لیے نین دیپ رکشت سے بات کی اور اپنی شہرت کے اس کٹھن سفر کے بارے میں بتایا۔
تینوں بہنیں ایک ساتھ گھر سے نکلیں
عرفی نے اپنا گھر نو عمری میں ہی چھوڑ دیا تھا۔ اس کے بعد دلی کے راستے ممبئی پہنچ کر عرفی نے ماڈلنگ کی شوخ دُنیا میں قدم رکھا۔
سوشل میڈیا پر بھی ان کے مداحوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ انسٹاگرام پر عرفی جاوید کو تقریباً دس لاکھ لوگ فالو کرتے ہیں اور لاکھوں لوگ ان کی ریلز اور ویڈیوز دیکھتے ہیں۔
عرفی نے نین دیپ کو بتایا کہ وہ اور اُن کی دونوں بہنیں ایک ساتھ گھر سے بھاگی تھیں۔ عرفی کی ایک بہن اُن سے ایک سال بڑی اور دوسری بہن ڈھائی سال چھوٹی ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ گھر سے بھاگنے کا منصوبہ کس نے بنایا تو ان کا کہنا تھا، ’مجھے نہیں معلوم۔ اگر آپ میری بڑی بہن سے پوچھیں گے تو وہ کہیں گی کہ اس کی منصوبہ بندی اُنھوں نے کی، اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو میں تو یہ کہتی ہوں کہ اس سب کی منصوبہ بندی میں نے ہی کی تھی۔‘
عرفی نے بات آگے بڑھائی اور کہا کہ ’میرے ذہن میں یہ نہیں تھا کہ میں ماڈلنگ یا اداکاری کا خواب پورا کرنے گھر سے نکلی، بات یہ تھی کہ مجھے اپنے ہی گھر میں اپنی مرضی سے رہنے کی اجازت نہیں تھی۔ گھر کا ماحول بہت خراب ہو چکا تھا۔ مجھے لگنے لگا تھا کہ میں وہاں مر جاؤں گی۔‘
عرفی نے بتایا کہ ’میرے والد مجھے بہت مارتے تھے، گالیاں دیتے تھے۔ مجھے اور میری بہنوں کو بہت زیادہ ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔ میرے والد بہت ’زہریلے‘ تھے۔ ہمیں مسلسل ہراساں کر رہے تھے۔ میں اصل میں زندہ رہنے کے لیے گھر سے بھاگی تھی۔‘
کیا عرفی بچپن سے ہی اتنی لاپرواہ تھیں یا حالات نے انھیں ایسا بنا دیا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے عرفی کہتی ہیں کہ ’مجھے بچپن سے ہی ایسے کپڑے پہننے کا شوق تھا لیکن ایک تو میرے پاس ایسے کپڑے تھے نہیں اور دوسرا یہ کہ مجھے گھر میں ایسا کرنے کی آزادی نہیں تھی۔ تو پھر میں بس جیکٹ پہن کر نکل جاتی تھی اور باہر جا کر اسے کھول دینا اور آزادانہ گھوما کرتی تھیں۔‘
کیا آپ کو لگتا ہے کہ اگر آپ کا خاندان آپ کے والدین آپ کا ساتھ دیتا تو آپ کا بچپن مختلف ہوتا؟
اس پر انھوں نے کہا کہ ’ہاں، کبھی کبھی ایسا لگتا ہے لیکن کچھ خاص نہیں۔ اس کے برعکس میں خود کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ میں آج یہاں اس مقام تک پہنچی ہوں اور شاید مجھے اپنی عُمر سے زیادہ تجربہ ہے۔‘
عرفی نے کہا ’کچھ اداس لمحات ضرور ہیں۔ جب آپ دوسرے بچوں اور اُن کے والد کا تعلق اور رشتہ پیار محبت سے بھرا دیکھتے ہیں تو کبھی کبھی آپ ضرور سوچتے ہیں کہ آپ کے والد ایسے کیوں نہیں تھے؟ لیکن شاید اب کافی دیر ہو چُکی ہے اب یہ بھی اتنا محسوس نہیں ہوتا۔‘
بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر پیسے کمائے
عرفی نے بی بی سی کو لکھنؤ سے ممبئی براستہ دہلی اپنے سفر کے بارے میں بتایا۔
وہ کہتی ہیں،’جب ہم تینوں گھر سے نکلیں تو پیسے تو تھے نہیں لیکن اس سب کے باوجود ہم نے ہار نہیں مانی اور جینا نہیں چھوڑا۔ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ہم نے بچوں کو ٹیوشن پڑھائی اور پیسے کمائے۔ رہی بات دو وقت کے کھانے کی تو وہ تو کوئی بھی دے دیتا ہے، آج کل تو کوئی بھوکا نہیں مرتا۔‘
عرفی نے کہا ’پیسوں کا کیا، جتنا بھی ہو کم ہی لگتا ہے۔‘ انھوں نے کہا ’چھ ماہ لکھنؤ میں رہی، پھر دہلی چلی گئی۔ وہاں کال سینٹر میں کام کیا۔ دہلی میں 7-8 مہینے کام کیا۔ پھر ممبئی آئی اور تب میں شاید 19 سال کی تھی۔‘
’ممبئی میں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزاری‘
عرفی نے ممبئی میں ابتدائی دنوں کا حال بتایا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں گھر پر تھی (لکھنؤ) میں تو میرے لیے باہر جانا مشکل تھا لیکن یہاں ممبئی میں آتے ہی مجھے لگا کہ نئی زندگی ملی۔ میں نے پارٹیز میں جانا شروع کیا، ڈیٹنگ کر رہی تھی، الکوحل کا استعمال بھی کیا، مطلب زندگی خوب گُزری ممبئی آ کر۔ مجھے بالکل بھی تنہائی اور اکیلا پن محسوس نہیں ہوا۔ میں نے اس لمحے کا خوب لطف اٹھایا۔ دوستوں کو کہا چلو سیر کرتے ہیں، مزے کرتے ہیں۔‘
عرفی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ممبئی آنے کے بعد، میں نے ٹی وی میں آڈیشن دینا شروع کر دیے۔ تین چار ماہ میں مجھے کام ملنا شروع ہو گیا۔ مجھے یہ اچھا لگا۔ پیسے بھی اچھے تھے۔ اس لیے یہ کام ملازمت سے بہتر نظر آنے لگا تھا کہ کم سے کم پیسے تو اچھے مل رہے ہیں۔ بس صرف ایک خطرہ یہ تھا کہ چھ ماہ کے لیے کام ملے گا اور چھ ماہ تک کام نہیں ہو گا لیکن میں نے اسے بھی سنبھال لیا، کیونکہ چھ ماہ میں کمائی ہوئی رقم سال بھر چلتی ہے۔‘عرفی کہتی ہیں کہ ’بچپن سے مجھے لگتا تھا کہ میں ’ہیروئن‘ ہوں لیکن گھر چھوڑنے کے بعد میں نے سوچا کہ مجھے بھی یہ کوشش کرنی چاہیے لیکن میری اداکاری کوئی بہت اچھی نہیں۔‘
سرجری کے بعد چہرہ بدل گیا
عرفی جاوید نے اپنے چہرے اور پھر سرجری کے بارے میں بھی کھل کر بات کی۔انھوں نے کہا کہ جب میں ممبئی آئی تو میں بہت پر اعتماد تھی لیکن جب میں نے خود کو سکرین پر دیکھا تو میں نے دیکھا کہ میرے دانت آگے کی جانب منہ سے باہر نکلے ہوئے ہیں۔ مجھے محسوس ہونے لگا کہ میرا تو چہرہ بھی پرکشش نہیں۔ پھر میں نے انسٹاگرام پر ایک اداکارہ کو دیکھا جس نے کاسمیٹک سرجری کروائی تھی۔ میں اسے دیکھ کر خوش ہوئی لیکن میرے پاس تو پیسے نہیں تھے اور یہ سب کام تو بہت سا پیسہ مانگتے ہیں، اس لیے میں نے اپنا چہرہ اپنے دل جیسا بنانے کے لیے سرجری کروائی۔‘’ایک سرجری کے دوران ڈاکٹر نے میرا چہرہ بگاڑ دیا۔ انھوں نے میرے ہونٹ خراب کر دیے تو میں نے ان کی دوبارہ سرجری کروائی۔‘
سیکس سین کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے پر پروڈیوسر کو جیل بھیج دیا گیا
عرفی نے کہا کہ انھیں ان انڈسٹری میں جگہ بنانے کے لیے بہت سی مُشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اسی کوشش کے دوران ان کا استحصال بھی ہوا۔وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ایک پروڈیوسر نے عرفی کو ویب سیریز میں کام کرنے کا موقع دے کر ہراساں کرنے کی کوشش کی۔اس واقعے کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ’میں شروع سے ہی اس بات پر بضد تھی کہ میں کوئی سیکس سین نہیں کروں گی،اور یہ بات میں نے سیریز کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کے سامنے بھی واضع کر دی تھی کہ میں ایسا کوئی سین نہیں کروں گی لیکن جیسے ہی میں سیٹ پر پہنچی تو انھوں نے مجھے ایک ہم جنس پرست سین کرنے پر مجبور کیا، بعد میں مجھے سیکس سین کرنے پر بھی مجبور کیا گیا۔‘عرفی نے اس واقعے کے بارے میں مزید بتایا ’میں نے اس بارے میں ہدایتکار کو بھی آگاہ کیا اور کہا کہ یہ ٹھیک نہیں ہوا لیکن انھوں نے میری ایک نہ سنی۔ مزید سین کروانے کے لیے سیٹ پر میرے کپڑے زبردستی پھاڑ دیے گئے اور مجھے مجبور کیا گیا۔‘مجھے لگا یہ سب ٹھیک نہیں ہو رہا بلکہ یہ میرا استحصال کیا جا رہا ہے۔ میں نے تین دن تو یہ سب برداشت کیا مگر اُس کے بعد میں نے پولیس کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ جب میں نے پولیس میں شکات کر دی تو انھیں گرفتار کر لیا گیا اور جیل بپیج دیا گیا۔ بعد میں مجھ پر اس شکایت کو واپس لینے کے لیے بہت دباؤ ڈالا گیا۔ مجھے مجبور کیا گیا کہ سب کُچھ بھول جاؤں اور اُن کے خلاف کی جانے والی شکایت واپس لے لوں۔ بالآخر، میں نے شکایت واپس لے لی کیونکہ مُجھ پر اُوپر سے بہت زیادہ دباؤ تھا۔‘
’جب کوئی سماج سے ہٹ کر کُچھ کرتا ہے تو مخالفت ہوتی ہے‘
عرفی جاوید اپنے کپڑوں اپنے لباس کی وجہ سے ہمیشہ خبروں میں رہتی ہیں۔ ان کا پہناوا بھی کئی بار متنازعہ رہا ہے۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے عرفی کہتی ہیں، ’جب کوئی شخص سماج سے ہٹ کر کُچھ کرتا ہے، تو پہلے اس کی مزاحمت اور مخالفت ہوتی ہے۔ راجیو گاندھی جب پہلی بار انڈیا میں کمپیوٹر لائے تھے تو ان کے پتلے جلائے گئے تھے لیکن آج ہر ایک کے ہاتھ میں کمپیوٹر ہے۔‘عرفی نے کہا کہ انٹرنیٹ پر لوگ میرے بارے میں بہت کچھ کہتے ہیں لیکن وہ شخص اپنی زندگی میں کیا کر رہا ہے، اسے خود اُس پر توجہ دینی چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ اُس کا اپنا کردار کیسا ہے۔‘