پاکستان

’لکی پالتو تھا یا آوارہ؟‘ کراچی کی مقامی عدالت کا پولیس کو تحقیقات کا حکم

Share

کراچی میں جانوروں کو ریسکیو کرنے والی تنظیم اے سی ایف (عائشہ چندریگر فاونڈیشن) کے شیلٹر میں ہلاک ہونے والا بلا پالتو تھا یا آوارہ؟ یہی جاننے کے لیے کراچی کی ایک مقامی عدالت نے پولیس کو تحقیقات کا حکم دیا ہے جس کے بعد نتائج کی روشنی میں ہی قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔واضح رہے کہ کراچی کی رہائشی سعدیہ غوری نے ملیر کی عدالت میں اپنے پالتو بلے کی اے سی ایف سینٹر میں ہلاکت کا مقدمہ درج کرنے کے لیے درخواست دائر کی تھی۔سعدیہ غوری کا کہنا ہے کہ ان کے بلے کی ایک ٹانگ میں چوٹ لگی تھی۔ انھوں نے 19 اگست کو اپنے بلے کو علاج کے لیے عائشہ چندریگر فاونڈیشن کے حوالے کیا تاہم جب وہ اپنے بلے کو وصول کرنے کے لیے اے سی ایف کے ملیر میں واقع شیلٹر ہوم گئیں تو سٹاف نے انھیں سینٹر میں داخل ہونے اور بلا دکھانے سے انکار کر دیا جس پر انھیں شبہ ہوا اور انھوں نے اپنے بلے کی صحت کے بارے میں دریافت کیا۔سعدیہ غوری کے مطابق ’اے سی ایف کی ٹیم نے تاخیری حربے استعمال کیے اور پھر دھمکانے لگے۔‘سعدیہ غوری اپنے بلے کا نام ’لکی‘ بتاتی ہیں اور ان کے بقول لکی کی عمر پانچ سے چھ سال ہوگی۔عدالت نے اپنے تحریری حکم نامے میں سعدیہ غوری کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اگلے ہی روز انھوں نے بلے کی واپسی کے لیے اے سی ایف کو درخواست دی لیکن انھوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی اور 21 اگست کو انھیں پیغام بھجوایا گیا کہ ’آپ کا بلا مر گیا ہے۔‘سعدیہ غوری کے مطابق اطلاع ملتے ہی وہ سینٹر پہنچیں اور اپنے پالتو بلے کی لاش کا مطالبہ کیا تاہم اے سی ایف کی جانب سے ان کو کہا گیا کہ یہ ان کی پالیسی نہیں۔یہ جواب ملنے کے بعد سعدیہ نے تھانے میں درخواست دی اور پولیس کے ہمراہ سینٹر کا دورہ کیا۔’ہمیں ان کے سٹاف نے کہا کہ بلے کو دفنا دیا گیا ہے لیکن میں نے دفنانے کی جگہ کا پوچھا تو انھوں نے لاعلمی کا اظہار کیا جبکہ دوسری ٹیم نے دفنانے کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے لکی کو پھینک دیا تھا۔‘

جانوروں کا ریسکیو کا ادارہ

ادارہ پالتو جانوروں کو ریسکیو کرتا ہے نا علاج کرتا ہے: اے سی ایف

عائشہ چندریگر فاونڈیشن کے وکیل کا کہنا ہے کہ اے سی ایف آوارہ جانوروں کا ریسکیو اور علاج کرتا ہے نہ کہ پالتو جانوروں کا۔وکیل کے مطابق ’2022 سے درخواست گزار ریسکیو کے لیے ادارے کی معاونت کرتی رہی ہیں اس لیے وہ اس اصول سے باخبر ہیں۔‘اے سی ایف کے وکیل نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ درخواست گزار کی گذارش پر زخمی بلے کو ریسکیو کیا گیا جس کو گلی کے کتوں نے حملے میں زخمی کیا تھا۔ ان پر عائد الزام بے بنیاد اور من گھڑت ہیں لہذا اس درخواست کو مسترد کیا جائے۔اے سی ایف کے وکیل عرفان بھٹہ نے بی بی سی کو بتایا کہ درخواست گزار نے خود فارم بھرا تھا جس کے بعد ان کا اختیار ختم ہو گیا۔’بلا دوسرے روز ہی مر گیا تھا اس کو ریڑھ کی ہڈی (سپائنل کارڈ) کا مسئلہ تھا۔ عدالت میں اس کی موت کا سرٹیفیکٹ بھی پیش کیا تھا۔‘

جانوروں کی پناہ گاہ
،تصویر کا کیپشناے سی ایف کے مطابق یہ ریسکیو سروس، پناہ گاہ، بدسلوکی کا شکار اور سڑک پر پائے جانے والے زخمی جانوروں کے لیے بنائی گئی ہے

واضح رہے کہ اے سی ایف سنہ 2013 میں جانوروں کے حقوق کی سرگرم کارکن عائشہ چندریگر نے قائم کی تھی۔اے سی ایف کی ویب سائٹ کے مطابق یہ ریسکیو سروس، پناہ گاہ، بدسلوکی کا شکار اور سڑک پر پائے جانے والے زخمی جانوروں کے لیے بنائی گئی ہے۔بی بی سی کی جانب سے عائشہ چندریگر سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ جب یہ معاملہ اپنے منطقی انجام پر پہنچے گا تو پھر وہ اپنا موقف دے سکیں گی تاہم اے سی ایف نے اپنے فیس بک پر پوسٹ کیا ہے کہ ایک بار فارم پر دستخط کرنے کے بعد آپ جانور کے مالکانہ حقوق اے سی ایف کو دے دیتے ہیں۔اے سی ایف نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ یہ ادارہ پالتو جانوروں کو ریسکیو نہیں کرتا اور نہ ہی انھیں علاج کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔’اگر آپ نے ہماری معلومات کے بغیر اپنا پالتو جانور فراہم کیا ہے تو وہ اس کے ذمہ دار نہیں اور ریسکیو ہونے والے جانوروں کے بارے میں آگاہی دینے کے بھی پابند نہیں۔‘لیکن سعدیہ غوری کہتی ہیں کہ اس فارم پر رپورٹر یا مالک کا نام مطلوب ہے۔’ظاہر ہے کہ مالک تو پالتو جانوروں کے ہی ہوتے ہیں۔ سڑک پر پھرنے والے جانوروں کے تو نہیں۔ فارم میں یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ کیا آپ اس جانور کے اصل مالک ہیں یا یہ آپ کے پاس کب سے ہے۔‘ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ درخواست گزار نے کہا ہے کہ اس نے اپنا بلا علاج کے لیے دیا تھا لیکن انھوں نے درست انداز میں علاج نہیں کیا اور ان کی غفلت کی وجہ سے وہ مر گیا۔عدالت کے مطابق ’یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ بلا پالتو تھا یا آوارہ بلا تھا۔ ایس ایس پی ملیر کو ہدایت کی جاتی ہے کہ فریقین کو طلب کر کے انکوائری کرے اور اس رپورٹ کی روشنی میں قانونی کارروائی کی جائے۔‘اے سی ایف کے وکیل نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس نے ابھی تحقیقات شروع نہیں کیں اور انھیں نوٹس نہیں آیا۔اس معاملے پر ایس ایس پی ملیر کا موقف جاننے کے لیے بی بی سی نے ان سے رابطے کی بارہا کوشش کی تاہم ان سے رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔