برطانیہ میں قتل ہونے والی 10 سالہ بچی سارہ شریف کے والد اور ان کی سوتیلی ماں نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ وہ برطانیہ میں حکام کے ساتھ تحقیقات میں تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔سارہ شریف کی موت کے بعد ان کی سوتیلی ماں بینش اور ان کے والد عرفان کا یہ پہلا عوامی رابطہ ہے۔اس فوٹیج میں سارہ کے والد عرفان خاموش دکھائی دے رہے ہیں جبکہ ان کی سوتیلی والدہ بینش بتول کو ایک نوٹ بک سے پڑھ کر بیان دیتے دیکھا جا سکتا ہے۔واضح رہے کہ 10 سالہ سارہ کی لاش 10 اگست کو سرے کے شہر ووکنگ میں ان کے گھر سے ملی تھی۔سرے پولیس قتل کی تفتیش کے سلسلے میں سارہ کے والد عرفان شریف، ان کی اہلیہ بینش بتول اور بھائی فیصل ملک سے بات کرنا چاہتی ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ یہ تینوں افراد 9 اگست کو برطانیہ سے واپس پاکستان گئے تھے اور پولیس انھیں تلاش کرنے میں تاحال ناکام رہی ہے۔سارہ کی سوتیلی والدہ نے اپنے اس ویڈیو پیغام میں سارہ کی موت کو ایک حادثہ قرار دیا اور اس حوالے سے دو جملوں میں انتہائی مختصر بات کی۔
سارہ کی سوتیلی والدہ نے دو منٹ 36 سیکنڈ کی اس ویڈیو میں پاکستانی پولیس پر ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے اور کہا کہ پولیس ان کے خاندان کے دیگر افراد کو خوفزدہ کر رہی ہے اور انھیں غیر قانونی طور پر حراست میں لے رہی ہے جبکہ ان کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔بینش بتول نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’ہمارے روپوش ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں ڈر ہے کہ پاکستانی پولیس تشدد کر کے ہمیں مار ڈالے گی۔‘دوسری جانب جہلم پولیس کے سربراہ محمود باجوہ نے بی بی سی سے بات چیت میں ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ خاندان کے افراد کو ہراساں کرنے اور تشدد کرنے کے تمام الزامات غلط ہیں۔پولیس سربراہ کے مطابق اگر اہلِ خانہ کو پولیس سے کوئی خوف ہے تو وہ تحفظ حاصل کرنے کے لیے عدالت جا سکتے ہیں۔بینش بتول نے ویڈیو کے اختتام پر کہا کہ وہ برطانیہ کے حکام کے ساتھ تحقیقات میں تعاون کرنے کو تیار ہیں۔بی بی سی کو سارہ کے والدین کی ویڈیو بھیجی گئی تھی تاہم بی بی سی اس اکاؤنٹ کی تصدیق کرنے سے قاصر رہا ہے اور نہ ہی یہ تصدیق ہو سکی کہ یہ ویڈیو کس مقام پر فلمائی گئی ہے۔واضح رہے کہ اب تک کی تفتیش کے مطابق سارہ کی موت کی حتمی وجوہات تاحال سامنے نہیں آ سکیں تاہم امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سارہ کی موت غیر فطری انداز میں ہوئی۔پوسٹ مارٹم رپورٹ میں سارہ کے جسم پر کافی تعداد میں شدید چوٹوں کا پتا چلا۔
’سارہ اتنی بُری طرح زخمی تھی کہ اسے پہچان نہیں پائی‘
سارہ کی والدہ اولگا شریف نے پولینڈ کے ٹیلی ویژن کو بتایا کہ وہ سارہ کو ان زخموں کی وجہ سے مردہ خانے میں انتہائی مشکل سے پہچان سکیں۔برطانیہ میں اپنے گھر میں مردہ پائی جانے والے 10 سالہ سارہ شریف کی والدہ اور نانی کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی بیٹی کی میت کو مردہ خانے میں بمشکل پہچانا کیونکہ اس کا چہرہ بُری طرح زخمی تھا۔سارہ کی والدہ اولگا شریف کا کہنا تھا کہ سارہ کے ایک گال پر سوجن تھی اور دوسری جانب چوٹیں تھیں۔’آج بھی جب میں اپنی آنکھیں بند کرتی ہوں، تو میں دیکھ سکتی ہوں کہ میرا بچی کیسی لگ رہی تھی۔‘پولش ٹیلی ویژن پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اولگا شریف کا کہنا تھا کہ وہ 2015 میں عرفان شریف سے علیحدہ ہو گئی تھیں۔ سارہ اور ان کے ایک بھائی ابتدا میں والدہ کے ساتھ رہتے تھے مگر بعدازاں عدالت نے بچوں کی کسٹڈی والد کے حوالے کر دی تھی۔اولگا شریف بنیادی طور پر پولینڈ سے تعلق رکھتی ہیں اور برطانیہ میں رہتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پہلے تو وہ اپنے دو بچوں کو باقاعدگی سےملتی تھیں لیکن پھر حالات مشکل ہو گئے۔ انھوں نے ٹی وی چینل کو بتایا کہ ’ان کی سوتیلی والدہ نے مجھے کہا کہ میں مزید نہ آؤں، کیونکہ بچے مجھے دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔‘’یہ معمول کی بات نہیں ہے کہ ایک مرتبہ بچے خوش ہوتے ہیں، اور اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ پہلے ماں سے کون بات کرے گا، اور پھر بچے مجھ سے فون پر بھی بات نہیں کرنا چاہتے اور مجھے بدترین ناموں سے پکارتے ہیں۔‘سارہ کی نانی سلویا کرز کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی چاہتی ہیں کہ عرفان شریف کی کسٹڈی میں موجودہ سارہ کے بھائی کو واپس کر دیا جائے۔’اولگا اسے اپنے ساتھ رکھنا چاہتی ہے۔ وہ اپنے بیٹے کو واپس لانا چاہتی ہیں۔‘’میرا نواسا 13 سال کا ہے، اس لیے اسے معلوم ہو گا کہ سارہ کے ساتھ کیا ہوا۔‘اولگا کا کہنا تھا کہ جب ان کی شادی عرفان شریف سے ہوئی تھی تو انھوں نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی تھی۔ بی بی سی ان کے دعووں کا جواب دینے کے لیے عرفان شریف سے رابطہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔
’پوتی کے مرنے کا گہرا صدمہ ہے، میرے بیٹے نے بتایا یہ حادثہ تھا‘
10 سالہ سارہ شریف کے دادا محمد شریف کا کہنا ہے کہ سارہ کے والد کے مطابق ان کی ’بیٹی کی موت محض ایک حادثہ تھی۔‘عرفان شریف کے والد محمد شریف نے بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو پاکستان آنے کے بعد دیکھا تھا۔سارہ کے دادا کے مطابق ’یہ ایک حادثہ تھا تاہم میرے بیٹے نے یہ نہیں بتایا کہ یہ حادثہ کیسے ہوا۔ اس کے بعد عرفان نے خوفزدہ ہو کر برطانیہ چھوڑ دیا تھا۔‘سارہ کے دادا نے تصدیق کی کہ انھوں نے اپنے بیٹےعرفان کو پاکستان میں اس وقت دیکھا جب وہ جہلم آئے تھے جہاں نہ صرف ان کا بچپن گزرا تھا بلکہ وہاں اب بھی ان کے خاندان کے دیگر افراد رہائش پذیر ہیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر سارہ کی موت ایک حادثہ تھی تو عرفان پاکستان کیوں چلے آئے تو محمد شریف نے جواب دیا کہ ’ڈر کی وجہ سے۔‘’اس کی بیٹی مر گئی تھی اور ظاہر ہے جب آپ اتنے بڑے صدمے کا سامنا کرتے ہیں تو آپ ٹھیک طرح سے سوچ بھی نہیں سکتے۔‘اس سوال کے جواب میں کہ وہ اپنے بیٹے کے پاکستان آنے کے فیصلے کو کس طرح دیکھتے ہیں تو محمد شریف نے کہا ’میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ انھیں کیس کا سامنا کرنا چاہیے تھا اور پاکستان آنے کی بجائے وہیں رکنا چاہیے تھا۔‘عرفان کے والد نے دعویٰ کیا کہ ’میرا بیٹا بالآخر برطانیہ واپس جائے گا اور اپنے کیس کا سامنا کرے گا۔‘یاد رہے کہ برطانیہ میں 10 سالہ پاکستانی بچی سارہ کے قتل کے معاملے پر تین افراد کی بین الاقوامی سطح پر تلاش کا کام جاری ہے۔ پاکستان میں پولیس کئی ہفتوں سے عرفان شریف، ان کے 28 سالہ بھائی فیصل ملک اور ان کی 29 سالہ بیوی بینش بتول کی تلاش کر رہی ہے۔برطانوی پولیس کے مطابق انھیں 10 اگست کی صبح اطلاع ملی تھی کہ انگلینڈ کی کاؤنٹی سرے کے قصبے ووکنگ کے ایک گھر میں بچی مردہ حالت میں پائی گئی ہے۔بچی کی لاش 10 اگست کو مقامی وقت کے مطابق تقریباً دو بج کر 50 منٹ پر ان کے خالی گھر سے ملی تھی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں سارہ کے جسم پر بے شمار گہرے زخم پائے گئے ہیں۔برطانیہ کی پولیس سارہ کی موت کی تفتیش کے سلسلے میں خاندان کے تین افراد سے بات کرنا چاہتی ہے لیکن وہ تینوں افراد نو اگست کو سارہ کی لاش ملنے سے ایک دن قبل برطانیہ چھوڑ کر پاکستان جا چکے تھے۔
’سارہ میری بہت پیاری پوتی تھی‘
سارہ کے دادا اپنی پوتی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بظاہر پریشان بھی دکھائی دے رہے تھے۔’مجھے اپنی پوتی کے مرنے کا گہرا صدمہ ہے اور اس کے جانے کا غم اب زندگی بھر میرے ساتھ رہے گا۔‘انھوں نے کہا کہ ’سارہ دو مرتبہ پاکستان آئی تھیں۔ اس کی ہر بات بہت پیاری تھی۔ وہ میری بہت پیاری پوتی تھی۔‘انھوں نے اپنے بیٹے عرفان شریف کے لیے براہ راست پیغام بھی دیا۔ ’وہ جہاں بھی ہوں گے، وہ یہ بات سن سکیں گے۔ میں کہتا ہوں کہ انھیں سامنے آ کر اپنے کیس کا دفاع کرنا چاہیے، چاہے کچھ بھی ہو۔ انھیں پولیس کی تفتیش میں پوچھے گئے سوالوں کے جواب دینے چاہیے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ انھیں چھپ کر رہنا چاہیے۔‘
’میرے کچھ بیٹے فرار تو کچھ پولیس کے پاس ہیں‘
پاکستانی پولیس کے مطابق ’برطانیہ سے آنے والے سارہ کے خاندان کے افراد 10 اگست کو اسلام آباد ائیرپورٹ پر اترے تھے جہاں سے انھوں نے جہلم شہر کا سفر کیا تھا۔ وہ جہلم میں کچھ دن ٹھہرے تھے، ڈومیلی گاؤں میں چند گھنٹے رکے اور 13 اگست کو وہاں سے روانہ ہوئے۔‘سارہ کے دادا حال ہی میں اپنے بیٹے عرفان کے ساتھ رابطے میں آنے کی تردید کرتے ہیں۔پولیس نے بی بی سی کو بتایا کہ سارہ کے خاندان نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ عرفان ان سے بالکل نہیں ملے تاہم محمد شریف کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے بیٹے سے ملاقات کی کبھی تردید نہیں کی۔جہلم کی پولیس عرفان کے پاکستان میں مقیم خاندان کے افراد کو دو بار عدالت میں پیش کر چکی ہے۔ پولیس پرعرفان کے بھائیوں اور بھابھیوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں لینے کا الزام ہے۔پہلی مرتبہ پولیس نے یقین دہانی کروائی کہ وہ انھیں مزید گرفتار نہیں کرے گی تاہم منگل کو عدالت میں پیشی کے موقع پر پولس نے انھیں حراست میں لینے کی تردید کی۔عدالت میں جج نے پولیس کو دو ہفتوں میں واقعے کی مفصل رپورٹ پیش کر نے کا حکم دیا۔محمد شریف نے بی بی سے کہا ’گزشتہ تین ہفتوں میں ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ میرے کچھ بیٹے فرار ہیں، کچھ پولیس کے پاس ہیں۔ پولیس کے ڈر سے کوئی ہم سے رابطہ نہیں کر رہا۔‘