جنوبی بحرالکاہل کے وسط میں قریب ترین خشک زمین سے تقریباً 2,688 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بے نام سمندر کا حصہ ہے جو بہت ٹھنڈا ہے، جہاں طوفانی ہوائیں چلتی ہیں اور یہ ہر وقت بپھرا ہوا رہتا ہے۔ یہ ایک ایسا جان لیوا مقام ہے جہاں آسماں اپنے رنگ بدلتا نظر آتا ہے۔
سمندری سفر میں متعدد ریکارڈ قائم کرنے والے برطانوی ڈی کیفاری ان چند لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے اس دور افتادہ سمندری حصے کا سفر کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جنوبی سمندر میں سرمئی رنگ کے بہت سے شیڈز ہیں اور وہاں طوفانی لہریں ہو سکتی ہیں۔ یہ جگہ بہت پرفضا لیکن قدرے خوفناک بھی ہے۔‘
اس دور دراز مقام پر جہاں کوئی ذی روح موجود نہیں، اور ایسی جگہ پر اگر آپ مصیبت میں پڑ جائیں تو بچنے کا امکان بہت کم بچتا ہے۔ اگر خوش قسمتی سے آپ وہاں ’دی اوشین ریس‘ کے دوران پھنستے ہیں تو آپ کو وہاں زندگی کی واحد نشانیاں سہ رخی شارک کے پنکھ نما بادبان نظر آ سکتے ہیں جو فاصلے پر پانی کی سطح کے بالکل اوپر نظر آئيں گے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر سمجھ لیجیے کہ آپ کی قسمت آپ کا ساتھ چھوڑ چکی ہے۔
اس علاقے کو معمول کی کسی بھی انسانی سرگرمی جیسا کہ جہاز رانی یا ماہی گیری کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ درحقیقت وہاں قریب ترین انسان اکثر ایک بالکل مختلف قسم کے ایکسپلورر ہوتے ہیں، اور یہ بین الاقوامی خلائی سٹیشن (آئی ایس ایس) کے خلاباز ہیں جو آپ کے سر کے اوپر 415 کلومیٹر کے فاصلے پر ہو سکتے ہیں۔
سمندر کے درمیان اس مقام کو ناقابل رسائی سمندری قطب کے نام سے یا پھر صرف ’پوائنٹ نیمو‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اگر آپ دنیا کے نقشے پر پوائنٹ نیمو تلاش کریں گے تو یہ آپ کو نیوزی لینڈ اور چلی کے درمیان نیلے پانی کے ایک مسلسل خطے کے درمیان ملے گا۔ مزید درستگی کے ساتھ کہیں تو یہ ایک غیر آباد جزیرۂ مرجانی ڈیوسی جزیرے کے درمیان موجود ہے جو کہ پٹکیرن جزائر کا حصہ ہے اور وہ شمال میں ہے۔ جبکہ جنوب میں انٹارکٹیکا کا میہر جزیرہ ہے، مغرب میں چتہم جزائر اور مشرق میں چلی ہے۔
یہ ایک ایسا مقام ہے جو کہ سمندر کا سب سے الگ تھلگ اور تنہا ہے۔ یہاں سب سے کم زندگی کے آثار ہیں۔ یہاں تک کہ اس کے سطح سے سمندر کا فرش کوئی 13 ہزار فٹ یعنی ڈھائی میل نیچے ہے۔
تاہم برفیلے، خالی پانیوں اور آئی ایس ایس کے درمیان اس خالی ویران جگہ میں ایک قبرستان بھی ہے جسے ’خلائی جہازوں کا قبرستان‘ کہا جاتا ہے اور اس وسیع خطے میں زمین کے مدار میں گردش کرنے والے ناکارہ جہازوں کا کوڑا دفن ہے۔
سنہ 1971 اور 2018 کے درمیان امریکہ، روس، جاپان اور یورپ سمیت عالمی خلائی طاقتوں نے پوائنٹ نیمو کے آس پاس سمندر کے غیر آباد علاقے میں 263 سے زیادہ خلائی اشیا کو سمندر برد کیا ہے۔ اس فہرست میں سوویت دور کا خلائی سٹیشن اور ملک کے سیلیوت پروگرام کے چھ طیاروں کے ساتھ ساتھ 140 روسی دوبارہ سپلائی فراہم کرنے والی گاڑیاں، جاپان کی طرف سے لانچ کی گئی چھ کارگو ٹرانسفر گاڑیاں، اور پانچ یورپی خلائی ایجنسی (ای ایس اے) کی گاڑیاں شامل ہیں۔
ایسا سمجھا جاتا ہے کہ ابھی حال ہی میں اس سمندری کوڑے دان میں سپیس ایکس کے کیپسول راکٹ بھی پہنچے ہیں۔ اور اتفاق سے اس کا قریبی پڑوسی آئی ایس ایس بھی آٹھ سالوں میں اس دور افتادہ جگہ پر دفن ہونے والا ہے۔
خلائی جہاز پوائنٹ نیمو پر جا کر کس طرح ختم ہوتا ہے؟ اس وقت اس کی بے پناہ گہرائیوں میں کون سی ٹوٹی پھوٹی، مڑی تڑی ہوئی باقیات پڑی ہیں؟ اور مستقبل کے ماہرین آثار قدیمہ اس سب سے کیا سمجھیں گے؟
ایک مخفی ریکارڈ
23 مارچ سنہ 2001 کو ماسکو کے وقت کے مطابق صبح 8:59 بجے روسی خلابازوں کے ایک گروپ نے جنوبی بحرالکاہل میں فجی کے جزیرے پر سے آسمان کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جس کی ملک کی خلائی ایجنسی ایک سال سے زیادہ عرصے سے تیاری کر رہی تھی۔
لیکن یہ جلد ہی ختم ہو گیا کیونکہ چند سیکنڈوں کے لیے سنہری روشنیوں کا ایک سلسلہ آسمان سے چمکتا ہوا دیکھا گیا جس کے پیچھے دھویں کی لکیر تھی۔ اس منظر کے ساتھ سونک بوم یا صوتی دھماکہ بھی تھا۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب اشیا آواز کی رفتار سے زیادہ ہوتی ہیں تو یہ شاک لہروں سے پیدا ہوتی ہیں۔
یہ وہ دن تھا جب میر خلائی سٹیشن کی دنیا بھر میں اپنے 1.9 ارب کلومیٹر کے سفر کے بعد موت ہوئی تھی۔ دنیا کا یہ پہلا ماڈیولر خلائی سٹیشن اپنے تمام تر 134 ٹن کے وجود کے ساتھ زمین کی فضا میں دوبارہ داخل ہوا۔
اس نے ابتدائی طور پر جاپان کے اوپر بیرونی خلا سے دہلیز کو عبور کیا، پھر جنوبی بحر الکاہل کے غیر آباد علاقے (سپوآ) سے ٹکرایا۔ پوائنٹ نیمو کا یہ خطہ فرانس سے 34 گنا بڑا خطہ ہے۔
اس کے فوراً بعد انٹرنیٹ پر یہ افواہ گردش کرنے لگی کہ اس کے ٹکڑے تیرنے لگے ہیں اور کہیں کہیں پائے بھی گئی ہیں۔ یہ سب باتیں جھوٹ ہیں اور اس کا ایک بھی پرزہ کہیں بھی نہیں ملا ہے۔ اسے بحرالکاہل نے نگل لیا ہے اور اس کے ٹکڑے اسی کے آس پاس کئی کلومیٹر میں پڑے ہوئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ اور دوسرے ناکارہ خلائی جہاز جنھوں نے اسی طرح کے سفر کیے ہیں وہ اپنی تابناکی کے سبب زمین کے ماحول اور اچانک سمندر میں اترنے کے باوجود کیسے بچ پائیں گے؟
جب اشیا بیرونی خلا سے واپس سفر کرتی ہیں تو ان پر گیس کے مالیکیول آ جاتے ہیں جو کہ ہمارے سیارے کو گھیرے ہوئے ہیں۔ تقریباً 28,164 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گرنے والا خلائی ملبہ، چاہے وہ شہابیہ ہو یا پھر نجمیہ یا پرانا خلائی جہاز یا انسانی مسافروں کے ساتھ والا طیارہ وہ سب اتنی قوت کے ساتھ ہوا کو اپنے راستے سے دھکیلتے ہیں کہ اس کی وجہ سے کیمیکل بانڈز ٹوٹ جاتے ہیں اور ایک برقی چارجڈ پلازما بناتے ہیں۔
اس کی وجہ سے وہ جل جاتے ہیں، اور چھوٹی اشیاء کی صورت میں ان کا وجود ختم ہو جاتا ہے اور وہ زمین سے ٹکرانے سے پہلے ہی بخارات میں غائب ہو جاتے ہیں لیکن زیادہ حجم والی باقیات کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا ہے۔
آسٹریلیا میں فلینڈرز یونیورسٹی کے خلائی آثار قدیمہ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ایلس گورمین کا کہنا ہے کہ خلائی جہاز کے وہ حصے جو زمین کی حدود میں دوبارہ داخل ہوتے ہیں وہ سب سے زیادہ برقرار رہتے ہیں۔ عام طور پر وہ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے اصل مقصد کو پورا کرنے کے لیے گرمی یا دباؤ کی انتہا کو برداشت کرنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہوتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اکثر یہ ایندھن کے ٹینک یا راکٹ بوسٹر ہیں جو بچ جاتے ہیں کیونکہ ان میں یا تو کرائیوجینک ایندھن ہوتے ہیں (گیس پروپیلنٹ جو مائع ہونے تک ٹھنڈا اور گاڑھا ہوتا ہے) یا وہ واقعی زیادہ درجہ حرارت پر جل رہے ہوتے ہیں، اس لیے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ایندھن کے ٹینکوں کو واقعی مضبوط ہونا پڑتا ہے۔ یہ عام طور پر خلائی جہاز یا راکٹ پر موجود سب سے بڑی ٹھوس اشیاء کی نمائندگی کرتے ہیں اور وہ اضافی موصلیت کے ساتھ محفوظ بھی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘ان میں بہت سارے سٹینلیس سٹیل، ایلومینیم مرکب، ٹائٹینیم مرکبات ہوتے ہیں۔۔۔‘
انسولیشن اکثر کاربن کے مرکبات سے بنائے جاتے ہیں جیسے کاربن فائبر جو گرم ہونے پر جلتے نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ اس کے ابتدائی نموبنے 287 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرمی بردارشت کر سکتے تھے۔
گوز مین کہتی ہیں کہ زیادہ تر معاملات میں ایک بار جب خلائی جہاز زمین کی فضا میں دوبارہ داخل ہوتا ہے تو ہم ان کی حتمی قسمت کے بارے میں نہیں جانتے صرف اندازہ لگاتے ہیں۔ ’ہم بس اتنا جانتے ہیں کہ وہ کہاں ہیں، لیکن ہم نے انھیں نہیں دیکھا۔ کوئی بھی وہاں (پوائنٹ نیمو کے ارد گرد) تحقیقی جہاز کے ساتھ نہیں گیا اور نہ ہی ان کی حالت کو دیکھنے کے لیے نیچے تہہ تک گیا۔‘
ملبے کا بکھرنا
مغربی آسٹریلیا میں سپیرانس میوزیم اس معاملے کے حوالے سے کچھ شواہد پیش کرتے ہیں۔ اسی نام کے ساحلی قصبے میں واقع یہ نوادرات کا غیر واضح علاقائی کشش کا میوزیم عجیب و غریب اور بظاہر بے ترتیب چیزوں کے زخیرے پر مشتمل ہے جہاں پرانی موٹر بائیک، 19ویں صدی کی ریل گاڑی، مختلف قسم کی زرعی مشینریاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ لیکن ان چیزوں کے لیے زیادہ مشہور نہیں ہے۔
وہاں لوگ پلیکسی گلاس کیبنٹ اور دھات کے قلم کے لیے زیادہ جاتے ہیں جس پر لیمینیٹڈ کاغذ کے ساتھ احتیاط سے لیبل لگا ہوا ہے۔
وہاں بیلن نما سٹیل سے بنا ہوا ایک کچلا ہوا پانی کا ٹینک ہے، ایک پراسرار ٹائٹینیم کی بیضہ نما چیز ہے جس میں کبھی نائٹروجن ہوا کرتا تھا، سٹیل فوڈ فریزر، اور زنگ آلود دھات کے مختلف غیر معمولی شکل کے ٹکڑے، مٹھی بھر سپنج کے سکریپ کے درمیان موجود ہیں۔
سب سے بڑی چیز دھاتی آکسیجن ٹینک ہے، جو صاف پلاسٹک میں لپٹی ہوئی ہے۔ یہ کوئی 6 فٹ لمبی (1.8 میٹر) ہے۔ یہ پہلے امریکی خلائی سٹیشن سکائی لیب کے اب تک کے سب سے بڑے ٹکڑوں میں سے ہیں۔
اسے 14 مئی سنہ 1973 کو زمین کے مدار میں لانچ کیا گیا تھا۔ اور یہ صرف چھ سال بعد اپنے آبائی سیارے پر واپس آ گیا۔ ناسا نے ابتدائی طور پر امید ظاہر کی تھی کہ سکائی لیب اپنا مشن زیادہ دیر تک جاری رکھے گا، لیکن اس کا مدار توقع سے زیادہ تیزی سے تنزلی کا شکار ہوا، اور 1979 کے اوائل تک یہ واضح ہو گیا کہ 77 ٹن وزنی یہ سٹیشن خلا میں باقی نہیں رہ سکتا چاہے لوگ اسے پسند کریں یا نہ کریں۔
تمام بڑی خلائی اشیا کی طرح سکائی لیب کو زمین پر اتارنے کے لیے ہر ممکن حد تک کنٹرول کرنا ضروری سمجھا گیا تاکہ اسے انسانی سرگرمیوں سے بہت دور سمندر میں اتارا جا سکے۔
تاہم کسی نے بھی اس کو ٹھکانے لگانے کے بارے میں نہیں سوچا تھا اور ناسا کے بہت کم انجینئرز اس خلائی سٹیشن کو زمین پر واپسی کے سفر پر لانے کے لیے کچھ کر سکتے تھے۔
اپنے آخری دن سکائی لیب کو ’ڈی اوربٹ‘ کیا گيا جس کےتحت اس کے انجنوں کو خود کو سست کرنے کے لیے فائر کیا گیا تاکہ یہ آسمان سے گرے اور امید کے مطابق آسٹریلیا کے بالکل جنوب مغرب میں بحر ہند میں غائب ہو جائے۔ لیکن یہ منصوبے کے حساب سے نہیں ہوا۔
11 جولائی 1979 کو صبح کے اوائل میں، وسطی آسٹریلیا میں سکائی لیب کا ملبہ گرنے کا منظر تھا۔ مقامی لوگوں نے ٹیلی سکوپ کے رکھنے کا آلہ، ایندھن کے ٹینکوں کے ٹکڑے، ایک لیڈ فلم کا صندوق، ایک 22 فٹ لمبا ایئر لاک ٹکڑا، ایئر لاک چیمبر کی حفاظت کرنے والی ایک ڈھال اور ایک بڑا آکسیجن ٹینک ملنے کی اطلاع دی، جو کہ جھاڑیوں اور کھیتوں میں بکھرا پڑا تھا۔
ناسا کے مطابق مجموعی طور پر ملبے کے کم از کم 38 ٹکڑے ملے ہیں جن میں سے ہر ایک کا وزن 454 کلو سے زیادہ ہے۔
اس خلائی فضلے کا زیادہ تر حصہ شائر آف ایسپرنس میں پہنچ گیا اور اس خطے نے ناسا کو کوڑا پھیلانے پر 400 ڈالر جرمانے کے ساتھ ایک نیا قانون جاری کیا۔ یہ جرمانہ تکنیکی طور پر آج تک بقایا ہے۔
اگرچہ یہ واقعہ خلائی ایجنسی کے لیے شرمناک تھا لیکن اس نے ایک بڑی چیز کے دوبارہ داخل ہونے سے ملبے کو جانچنے کی اجازت دی۔
نتیجہ صرف دھات کا جمع ہونا نہیں تھا، حیرت انگیز طور پر ان کے کچھ پیچیدہ ڈھانچے بچ گئے جن میں ایک ہیچ ڈور یا کھٹکے والا دروازہ بھی شامل ہے۔
تو پوائنٹ نیمو پر خلائی جہاز کے ٹکڑے کتنے بڑے ہو سکتے ہیں؟
خلائی جہاز کے معاملے میں اس کے دوبارہ زمین کے مدار میں داخلے کے وقت یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ یہ دیو ہیکل خلائی سٹیشن جو تقریباً 13 میٹر لمبا ہے اور پانچ لیبارٹری ماڈیولز پر مشتمل ہے وہ 1500 ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔
ملبے کے ماہرین نے کہا تھا کہ سب سے بڑے حصے ممکنہ طور پر چھوٹی کار کے سائز کے برابر بھی ہو سکتے ہیں۔ ان میں ایندھن کے ٹینک، بیٹریاں، بلک ہیڈز اور سٹوریج بکس شامل ہوں گے، یہ سب پوائنٹ نیمو کے آس پاس سمندر کے نیچے گہرے پانیوں میں گرے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ ہلکی اشیا جیسے ایلومینیم شیٹ اور فوم کی انسولیشن بھی بچ سکتی ہے۔
اب جب آئی ایس ایس سنہ 2031 میں زمین پر واپس آئے گا تو یہ پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہوگا کہ ملبہ پوائنٹ نیمو جیسے غیر آباد علاقے پر گرے۔ اس کا وزن تقریباً 400 ٹن ہے۔ اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پہلے سے ہی منصوبے ہیں۔
جانسن سپیس سینٹر کے نمائندے نے ایک ای میل میں وضاحت کی کہ ‘ناسا نے یو ایس ڈی آربٹ وہیکل کے لیے امریکی صنعت سے تجویز مانگی ہے۔’
ناسا نے پیش گوئی کی ہے کہ جب آئی ایس ایس کے کچھ حصے جل جائیں گے، تو زیادہ گھنے یا زیادہ گرمی کو برداشت کرنے والے حصے کے زندہ رہنے کا امکان ہے۔ اس میں ٹرسس شامل ہیں۔ یہ سٹیل کے ڈھانچے کا ایک سلسلہ ہے جو خلائی سٹیشن کی ریڑھ کی ہڈی بناتا ہے اور 18.3 میٹر تک لمبا ہو سکتا ہے۔
ایک تاریخی ریکارڈ
اس سب کا مطلب یہ ہے کہ پوائنٹ نیمو جو ابھی ہے وہ ممکنہ طور پر اسی طرح رہے گا اور یہ مستقبل کے ماہرین آثار قدیمہ کے لیے سونے کی کان جیسا ہوگا۔ گورمن کہتی ہیں: ‘آپ ان (خلائی جہاز کے قبرستانوں) کا مطالعہ اسی طرح کریں گے جیسے آپ کوڑے کے درمیان کسی سیپ یا دوسری چیز کے ملنے پر مطالع کرتے ہیں۔’ سیکڑوں یا ہزاروں سال پہلے انسانوں کے ذریعے پھینکے گئے فضلے کے ان زخائر کا اکثر ماہرین آثار قدیمہ یہ جاننے کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ لوگ کیسے رہتے تھے، بشمول وہ کیا کھاتے تھے اور ان کی کیا قدر تھی۔
قدیم خول یا سیپوں کا مطالعہ کرنے سے ماہرین آثار قدیمہ نے قدیم ساحلی شکاریون کے طرز عمل کو دوبارہ تشکیل دینے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ وہ زندہ رہنے کے لیے سمندری غذا جیسے کہ گھونگھے اور سیپ پر انحصار کرتے تھے۔ اگرچہ کسی چیز کو ضائع کرنے کا عمل، خواہ کوئی خلائی جہاز ہو یا سیپ یا گھونگھے ہوں، لاپروائی میں کیا جانے والا عمل لگ سکتا ہے لیکن گورمن ان کوڑوں کے ڈھیر کو نوادرات کے دانستہ طور پر جمع کرنے کے طور پر بیان کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہین کہ ‘ایک چیز جو آپ دیکھ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ اس میں تبدیلی کیسے آئی۔ جیسے، کون سی سب سے شروع کی ہیں، کون سی تازہ ترین ہیں؟ ہم درمیانی سالوں میں کس قسم کی تکنیکی یا مادی تبدیلیاں دیکھتے ہیں، وغیرہ۔’
ایک ہزار سالوں بعد جب یہ چیزیں پوائنٹ نیمو پر ملیں گی تو لوگ اسے دوبارہ قابل استعمال راکٹوں کے طور پر دیکھیں گے۔ گورمن کا کہنا ہے کہ ‘کسی وقت، اگر آپ زمین کے ارد گرد سمندر میں کیا ہے اس کا عالمی سروے کر رہے ہوں گے تو آپ دیکھیں گے کہ سنہ 2013 کے بعد سمندروں میں ضائع اشیا کے گرنے کی تعداد میں بنیادی کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ قدر میں تبدیلی ہے کہ لوگ ری سائیکلنگ، دوبارہ استعمال اور ماحولیاتی نقصان کو کم کرنے کی قدر کرنا شروع کر رہے ہیں۔’
درحقیقت، گورمن پوائنٹ نیمو پر موجود نوادرات کو ابتدائی خلائی تحقیق کے ایک اہم ریکارڈ کے طور پر دیکھتی ہیں۔ اور خوش قسمتی سے شاید یہ زمانے تک وہیں محفوظ رہے گا، کہیں نہیں جا رہا ہے۔ نہ صرف جنوبی بحرالکاہل میں پھیلی ہوئی باقیات کے قابل ذکر حد تک برقرار رہنے کا امکان ہے، بلکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ان کا بہتر طور پر تحفظ ہوا ہو۔
پوائنٹ نیمو کے آس پاس کے پانیوں کو زمین پر سب سے زیادہ بے جان سمجھا جاتا ہے اسی وجہ سے وہ ایک بہتر خلائی جہازون کا قبرستان ہے۔ وہ خشکی سے بہت دور ہے، جو سمندروں میں غذائی اجزاء کو لے جاتا ہے۔ یہ، گہرے سمندر میں آکسیجن کی قدرتی کمی، منجمد درجہ حرارت اور سورج کی روشنی کی مکمل کمی کے ساتھ مل کر مثالی حالات پیدا کرتا ہے تاکہ اس میں کیمیائی عمل کی شرح میں کمی کے سبب زنگ بھی نہیں لگیں گے۔
گورمین کا کہنا ہے کہ ‘بنیادی اثر صرف نمکین پانی کے مواد کے کیمیائی رد عمل پر ہوگا۔ لیکن بہت سے اہم خلائی جہاز کے اجزاء کو فعال طور پر سٹینلیس سٹیل اور ٹائٹینیم اور ایلومینیم کے مرکب دھاتوں کے ساتھ تیار کیا گیا ہے تاکہ وہ خراب نہ ہوں۔ ‘یہ وہی ہے جو آپ کسی ایندھن کے ٹینک سے چاہتے ہیں۔’
گورمین کا خیال ہے کہ 1,000 سالوں میں بھی پوائنٹ نیمو پر موجود خلائی جہاز نسبتاً اچھی حالت میں ہوگا۔ ‘یہ وہ چیز ہے جو آپ کو تاریخی جہازوں کے ملبے کے طور پر ملیں گے۔ وہ پانی کے نیچے بہت اچھی طرح سے محفوظ ہیں۔ اور یہ اس وقت ہے جب زمین پر انھیں خریدا گیا تھا تو ان میں بوسیدہ ہونے کا زیادہ امکان تھا۔’
لہذا، اگرچہ ابھی تک کوئی بھی پوائنٹ نیمو پر دلچسپ خلائی نوادرات کا سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہوا ہے، لیکن سمندری فرش پر مکمل اندھیرے میں شاید وہاں بہت کچھ موجود ہے۔ کم از کم ابھی کے لیے، انھوں نے بیرونی خلا کے تاریک خالی پن کو ایک اور تنہائی مبدل کر دیا ہے۔