صدمہ یا شرم، پاکستان میں ایچ آئی وی پر قابو پانے میں سب سے بڑی رکاوٹ کیا؟
پاکستان کے ضلع لاڑکانہ کے علاقے رتو ڈیرو کے ایک دیہی مرکزِ صحت میں ڈاکٹر مظفر گھاگرو ایک سات سالہ بچے کا چیک اپ کر رہے تھے۔
اپنے والد کی گود میں بیٹھا بچہ بہت پرسکون نظر آ رہا تھا۔ ڈاکٹر بچے کے والد سے اس کی کیفیت کی بابت معلومات لیتے ہیں اور اس دوران بچے کی نظریں ڈاکٹر صاحب پر جمی تھیں۔
بچے کی آنکھیں چیک کرنے کے بعد ڈاکٹر مظفر کاغذ پر کچھ لکھا اور پھر لڑکے کو اس کی قمیض اٹھانے کا کہا۔
سینیٹائزر سے اپنے ہاتھ صاف کر کے ڈاکٹر صاحب لڑکے کے سینے پر سٹیتھو سکوپ لگاتے ہوئے اسے آہستہ آہستہ سانس لینے کی ہدایت کرتے ہیں۔
ڈاکٹر گھاگرو مرض کی تشخیص کے بعد ایک نسخہ لکھتے ہیں اور اگلے مریض کو آنے کا کہتے ہیں۔ ان کے کمرے کے باہر ایک درجن کے لگ بھگ مزید مریض اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ ان مریضوں میں کچھ کی عمریں فقط چند ہفتے کی ہی ہوں گی۔
ڈاکٹر مظفر گھاگرو اس علاقے کے سب سے مشہور ماہرِ امراضِ بچگان میں سے ایک تھے۔
رواں برس اپریل میں انھیں اس وقت گرفتار کر لیا گیا تھا جب رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی (ایڈز) کا مرض پھیلا۔ اس وبا سے متاثر ہونے والوں میں زیادہ تعداد نوعمر بچوں کی تھی۔
ابتدائی طور پر ڈاکٹر مظفر پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ انھوں نے جانتے بوجھتے بچوں میں ایچ آئی وی وائرس پھیلایا تاہم بعدازاں انھیں اس الزام سے بری کردیا گیا۔ اب انھیں مجرمانہ غفلت برتنے جیسے الزامات کا سامنا ہے اور وہ ضمانت پر جیل سے رہا کیے گئے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر مظفر نے دعویٰ کیا ’محکمہ صحت کے حکام پر بہت دباؤ تھا۔ اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے انھیں قربانی کے بکرے کی ضرورت تھی اور وہ انھوں نے مجھے بنا دیا۔ اور ایسا حسد کی وجہ سے بھی تھا کیونکہ بطور ڈاکٹر میری بہت شہرت تھی، لہذا چند ڈاکٹروں اور صحافیوں نے مل کر یہ کہانی بنائی۔‘
ان کا وہ نجی کلینک جہاں وہ روزانہ درجنوں بچوں کا علاج کرتے تھے اب بھی سیل ہے۔ ان کی برائے نام فیس اور ان کے ہاتھوں ملنے والی فوری شفا کی وجہ سے وہ رتو ڈیرو کے آس پاس آباد سینکڑوں دیہاتیوں کے لیے پہلی پسند ہوا کرتے تھے۔ ڈاکٹر مظفر کا کیس اب زیرِ سماعت ہے۔
انھوں نے بتایا ’میں گذشتہ دس برسوں سے پریکٹس کر رہا ہوں اور کبھی کسی ایک فرد نے بھی یہ شکایت نہیں کی تھی کہ میں استعمال شدہ سرنجوں کو دوبارہ استعمال کر رہا ہوں۔ میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔‘
ڈاکٹر کے مطابق ’ان کا کیس ایک چھوٹی عدالت میں زیر سماعت ہے اور مجھے امید ہے کہ آئندہ ایک، دو پیشیوں کے بعد سماعت مکمل ہو جائے گی۔‘
یاد رہے کہ جب ڈاکٹر مظفر زیر حراست تھے تو ان میں بھی ایچ آئی وی کے وائرس کی موجودگی کی تشخیص ہوئی تھی۔ اب ان کا دعویٰ ہے کہ ان میں اس بیماری کی موجودگی سے وہ مکمل طور پر لاعلم تھے۔
یہ سب رواں برس مئی میں شروع ہوا تھا۔
یہ سب رواں برس مئی میں اس وقت شروع ہوا تھا جب رتو ڈیرو کے ایک مقامی ڈاکٹر نے ان کے کلینک میں لائے گئے بچوں میں ایچ آئی وی کی بیماری کی علامات کا شبہ ہونے کے بعد انھیں ایچ آئی وی ٹیسٹ تجویز کیا۔ ٹیسٹوں کے نتائج آنے کے بعد ملک میں ایچ آئی وی کے سب سے بڑے پھیلاؤ کا پتا چلا۔
صورتحال سے حکومت اور دیگر شراکت دار ایجنسیوں میں خطرے کی گھنٹیاں بج گئیں۔ اس کے بعد وسیع پیمانے پر سکریننگ ہوئی جس میں 1200 سے زیادہ افراد میں ایچ آئی وی کا وائرس پایا گیا۔ ان 1200 افراد میں نو سو کے قریب بچے تھے جن میں اس بیماری کی خاندانی ہسٹری نہیں تھی۔
ڈاکٹر مظفر کے کلینک سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سبحانہ گاؤں میں 32 بچے اس مرض میں مبتلا پائے گئے۔ ان بچوں کے خاندانوں میں کسی فرد کو یہ بیماری نہیں تھی۔ اس گاؤں کے لوگ غصے اور صدمے کی کیفیت میں ہیں۔
اس بیماری کے پھیلاؤ کے بعد حکومت نے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے اشتراک سے رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی کے علاج کا ایک سینٹر قائم کیا ہے۔ تاہم متاثرہ بچوں کے والدین پریشان ہیں اور انھیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔
ایسے ہی ایک متاثرہ بچے کی والدہ نے پریشانی کے عالم میں بی بی سی کو بتایا ’میں نے انھیں (ڈاکٹروں) کہا کہ میرے بچے کو دیکھیں اور اسے کچھ وٹامنز دیں۔ مگر انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ صرف ادویات تجویز کر سکتے ہیں اور یہ کہ ادویات مجھے خود بازار سے خریدنا ہوں گی۔‘
’اگر حکومت ہمیں ادویات ہی نہیں دے سکتی تو ہم ان سے مزید کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔‘
زیادہ تر متاثرہ بچے خوراک کی کمی کا شکار اور کم وزن ہیں۔ حکومت رتو ڈیرو میں قائم سینٹر پر ایچ آئی وی کی مفت دوائیں مہیا کررہی ہے۔ یہ ادویات عالمی امدادی فنڈ کے ذریعے سے فراہم کی گئیں۔ تاہم زیادہ تر والدین کم آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ ان ادویات کو خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے جو ان انفیکشنز کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں جو ایچ آئی وی کی وجہ سے پھیلتے ہیں۔
لیکن یہ شرم اور صدمہ ہی ہے جس نے رتو ڈیرو میں والدین کو سب سے زیادہ تکلیف میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وہ ماں پھر سے بتاتی ہیں ’یہ ہمارے بچوں کی زندگی کا سوال ہے، وہ مستقبل میں اس کا مقابلہ کیسے کریں گے، لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ نہ صرف متاثرہ بچے بلکہ ان کے والدین سے بھی گاؤں والے دور بھاگتے ہیں۔ صحت مند بچے ایچ آئی وی سے متاثرہ بچوں کے ساتھ نہیں کھیلتے ہیں اور سکولوں میں متاثرہ بچوں کے داخلے کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔
رواں برس جولائی میں جاری کردہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ان 11 ممالک میں سے ایک ہے جہاں ایچ آئی وی سب سے زیادہ پھیلا ہے اور پاکستان کا شمار ان پانچ ممالک میں بھی ہوتا ہے جہاں ایچ آئی وی کے وائرس کا شکار افراد میں سے نصف کو اپنے اندر موجود اس بیماری کا سرے سے علم ہی نہیں۔
رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی کے پھیلنے کا پتا لگنے کے بعد یہاں آنے والی پہلی ڈاکٹر فاطمہ میر تھیں۔ وہ بچوں کے وائرل متعدی امراض کی ماہر ہیں اور کراچی کے آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں کام کرتی ہیں۔
فاطمہ میر نے وضاحت دیتے ہوئے کہا ’بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔ ٹیسٹ کروانے کا چیلنج ہے۔ ہمارے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ اتنے افراد کے ٹیسٹ کروائیں جتنوں نے کروانے کی ضرورت ہے۔ علاج معالجے کا چیلنج ہے، بچوں کا علاج بالغ افراد کے علاج سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر فاطمہ کے مطابق ’ادویات مہنگی ہیں۔ پاکستان یہ ادویات عالمی فنڈ کی مدد سے مفت حاصل کر رہا ہے۔‘
رتو ڈیرو میں اس بیماری کے پھیلاؤ نے پاکستان کو نمایاں کر دیا ہے۔ حکومتی انکوائری رپورٹ کے مطابق استعمال شدہ سرنجوں کا دوبارہ استعمال اور انفیکشن کو مؤثر طور پر کنٹرول کرنے میں ناکامی ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کا باعث بنی۔
ملک میں طبی فضلے کو تلف کرنے کا ناقص انتظام، غیر رجسٹرڈ بلڈ بینک اور جعلی ڈاکٹروں نے بھی اس مسئلے کے پھیلاؤ میں مدد دی۔
اقوام متحدہ کی ایڈز کنٹری ڈائریکٹر ماریہ الینا بورومیو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایچ آئی وی کا مرض پھیلنے کا سلسلہ جاری ہے اور درحقیقت پاکستان ایشیا میں دوسرا ایسا ملک ہے جہاں یہ بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ سنہ 2010 سے سنہ 2018 کے دوران ایچ آئی وی انفیکشن میں 55 فیصد اضافہ ہوا ہے اور سنہ 2018 کے آخر تک اس مرض میں مبتلا مریضوں میں سے صرف دس فیصد ہی علاج معالجے کی سہولت حاصل کر رہے تھے۔
تاہم انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ رتو ڈیرو واقعے سے پاکستان اس بیماری کے مسئلے کے حل کی طرف سوچے گا۔
’ایچ آئی وی حکومت اور اس کے شراکتی اداروں کی ترجیح نہیں تھی اور اس کا مطلب یہ تھا کہ اسے ثانوی حیثیت دی جا رہی تھی۔ اس حوالے سے بات چیت، پلاننگ، پروگرامنگ اور فنڈز بہت ہی کم تھے۔‘
اقوام متحدہ ایڈز کنٹری ڈائریکٹر ماریہ الینا بورومیو کو امید ہے کہ رتو ڈیرو واقعے کے بعد اب ایچ آئی وی پر زیادہ ایکشن، انرجی، ٹائم اور اضافی وسائل سامنے لائے جا رہے ہیں۔
اور اس کا ایک حل پہلے ہی سامنے آ چکا ہے۔
سندھ کی وزیرِ صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے کہا ہے کہ حکومت اب سرکاری اور نجی صحت کے مراکز میں انفیکشن کنٹرول کے طریقوں کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہی ہے۔
’اب ہم غیر مجاز بلڈ بینکس کے ساتھ بہت سختی سے نمٹ رہے ہیں، ایسے بلڈ بینک جو خون کی فراہمی سے قبل اس کی مناسب جانچ پرکھ نہیں کرتے۔ ہم معاشرے میں جعلی ڈاکٹروں کو دیکھ رہے ہیں اور آٹو لاک سرنجوں پر بھی تاکہ استعمال شدہ سرنج دوبارہ استعمال نہ ہو پائے۔‘
آٹو لاک سرنجز کو دوبارہ استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے اور ایک بار استعمال کے بعد وہ از خود تلف ہو جاتی ہیں۔
پاکستان نے محفوظ انجیکشن پالیسی بھی ترتیب دی ہے۔ اگست میں وزیر اعظم کے مشیر صحت ظفر مرزا نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اعلان کیا تھا پاکستان میں فی کس انجیکشن کے استعمال کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور پاکستان میں دیے گئے 95 فیصد انجیکشن غیر ضروری ہوتے ہیں۔
انھوں نے لکھا تھا ’(انجیکشن کا زیادہ استعمال) خون کی وجہ سے لگنے والی بیماریوں جیسا کہ ہیپاٹائٹس سی اور ایچ آئی وی/ایڈز کے پھیلاؤ میں سب سے بڑا عنصر ہے۔ ہم اس مسئلے کو مؤثر طریقے سے حل کرنے جا رہے ہیں۔‘
ڈاکٹر فاطمہ میر اس سے متفق ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’یہ ہماری ثقافت کا حصہ ہے کہ اگر بچے کو کچھ بھی ہوتا ہے تو ہم ڈاکٹر سے اسے ٹیکہ لگانے کا کہتے ہیں، ہماری یہ ریت ہمارے بچوں کو خطرات سے دوچار کر رہی ہے۔‘
حکومت نے آٹو سرنج پالیسی فائنل کر لی ہے اور امید ہے کہ آئندہ چند مہینوں میں اسے ملک بھر میں رائج کر دیا جائے گا۔
رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی کا پھیلاؤ ملک میں اس بیماری کے پھیلنے کا آٹھواں واقعہ تھا۔ اس کی خاص بات یہ تھی اس مرتبہ بیماری کا شکار زیادہ تر بچے تھے۔
مگر صوبہ پنجاب میں اس بیماری کے پھیلاؤ کے سب سے زیادہ واقعات سامنے آئے ہیں اور ایچ آئی وی سے متاثرہ زیادہ تر لوگ یہاں بستے ہیں۔ مگر پنجاب میں یہ بیماری خاص طبقات تک محدود ہے جیسا کہ ہیجڑے، سیکس ورکرز اور ہم جنس پرست۔
دوسری جانب صوبہ پنجاب ہی وہ صوبہ ہے جہاں ایچ آئی وی یا ایڈز کو بڑی بدنامی سمجھا جاتا ہے۔ حکومت مختلف این جی اوز کی مدد سے زیادہ خطرے سے دوچار آبادی کے لیے مختلف پروگرام چلا رہی ہے تاکہ لوگ اس بیماری کے بارے میں آگاہی حاصل کرسکیں اور انھیں محفوظ جنسی عمل کے قابل بنایا جا سکے۔
چونکہ پاکستان میں شادی سے پہلے جنسی تعلقات قائم کرنا اور ہم جنس پرستی غیر قانونی ہے اسی لیے یہ کام کرنے والی این جی اوز بہت زیادہ نمایاں ہو کر کام نہیں کر سکتیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ اسی وجہ سے وہ زیادہ خطرات سے دوچار آبادی کے بڑے حصے تک نہیں پہنچ پاتیں۔
بیماری سے منسلک بدنامی کی وجہ سے ایسے طبقات خود کو کمزور محسوس کرتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں ایچ آئی وی/ایڈز پر قابو پانے میں یہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
جن لوگوں کو ایچ آئی وی انفیکشن کی تشخیص ہوتی ہے انھیں حکومت کے پاس اپنا اندراج کروانا ضروری ہوتا ہے۔ انھیں مفت علاج کی سہولت مہیا کی جاتی ہے لیکن پاکستان میں اقوام متحدہ کی کنٹری ڈائریکٹر ماریہ ایلینا کا کہنا ہے کہ متاثرہ اشخاص میں سے بیشتر صرف اس وجہ سے اپنا علاج جاری نہیں رکھتے کہ کہیں ان کی بیماری کا علم دوسروں کو نہ ہو جائے۔
ڈاکٹر فاطمہ میر کا ماننا ہے کہ رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی کا شکار ہونے والے نوجوان افراد اس بیماری سے جڑی بدنامی کا داغ دھونے میں مدد کر سکتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’چیزوں کے بارے میں خاموشی اختیار کرنا مسئلے کو حل نہیں کرتا۔ اس سے مسائل صرف بڑے اور مضبوط ہوتے ہیں۔‘
ڈاکٹر فاطمہ کے مطابق رتو ڈیرو میں بیماری کے پھیلاؤ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ماضی میں اس بیماری سے پھیلاؤ سے احسن انداز میں نہیں نمٹا گیا۔
’اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم (بیماری) کے پھیلاؤ سے بہتر انداز میں نمٹیں اور دیرپا رہنے والا ایکشن لیں۔ نہیں تو بیماری کا اگلا پھیلاؤ بڑا اور غیر منظم ہو گا۔‘