پاکستان

پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے آرمی ایکٹ میں تبدیلیاں مسترد کیں، فرحت اللہ بابر

Share

پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں اندرونی سطح پر نہ ہی جمہوری ہیں اور نہ ہی ان میں آزادانہ جمہوری فیصلے کرنے کی صلاحیت ہے اور اس کی حالیہ مثال پارلیمنٹ سے آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2020 کے متفقہ طور پر منظور کیا جانا ہے۔

 رپورٹ کے مطابق انہوں نے انکشاف کیا کہ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیڑی (سی ای سی) نے پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ بل کو مسترد کردیا اور 4 ترامیم کی تجویز دی تھی تاہم کمیٹی کو اعتماد میں لیے بغیر اسے مسترد کردیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ نہایت دردناک تھا کہ پارٹی قیادت نے ترامیم سے دستبردار ہونے کا ‘یکطرفہ’ فیصلہ کیا جس کا مقصد پارلیمنٹ کی بالادستی تھی اورر وزیر اعظم کو آرمی چیف کو توسیع دینے کے ساتھ انہیں ہٹانے کا بھی اختیار دینا تھا’۔

فرحت اللہ بابر نے سوال کیا کہ ‘کیا پارٹی اپنے قائدین کے تابع پوگئی ہیں اور یہاں کوئی جمہوری عمل نہیں ہے؟’۔

واضح رہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں آرمی ایکٹ کے حوالے سے اختلاف رائے کی آوازیں اٹھا رہی ہیں۔

ایک روز قبل مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر دفاع خرم دستگیر نے اعتراف کیا تھا کہ پارٹی کی قیادت کو آرمی ایکٹ کی غیر مشروط حمایت کے لیے دباؤ کا سامنا ہوا ہوگا۔

الحمرا آرٹ سینٹر میں منعقدہ تھنک فیسٹ سیشن میں سیاسی جماعتوں کی اندرونی جمہوریت کے عنوان پر ہونے والی بحث میں بات کرتے ہوئے شرکا کو اپنے اختلاف رائے کے حوالے سے آگاہ کیا تھا۔

سینیئر پیپلز پارٹی رہنما کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو فیصلے جمہوری عمل کے ذریعے کرنا چاہیے۔

اندرونی جمہوریت پر کسی جماعت کی جانب سے بات نہ کیے جانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان 2006 کے میثاق جمہوریت (سی او ڈی) میں سیاسی جماعتوں میں اندرونی اصلاحات کا ذکر نہیں کیا گیا تاہم اس میں پارٹی کے سیکیورٹی ایجنسیز سے تعلقات پر نظر ثانی پر بحث کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کا کردار پارلیمانی پارٹیز سے لے گیا جس کے عوامی رائے کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔

تحریک انصاف میں انٹرا پارٹی انتخابات متعارف کرانے اور اسے برداشت نہ کرتے ہوئے پارٹی کے چیف الیکشن کمشنر کو برطرف کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی میں اندرونی سطح پر پارٹی کے انتخابات میں نمائندگان نہیں تھے اور پارٹی قائدین نے چند ووٹوں سے پارٹی حاصل کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘مجھے معلوم ہے کہ پارٹی کے اندر یہ انتخابات حقیقی جمہوریت پر مبنی نہیں ہوتے’۔

انہوں نے پارٹی کے اندر اصلاحات اور ون مین شو کے بجائے جمہوری عمل کی بالادستی لانے کے لیے نئے میثاق جمہوریت کا مطالبہ بھی کیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما ایڈووکیٹ حامد خان کا کہنا تھا کہ عمران خان انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کے لیے پر عزم ہیں تاکہ تحریک انصاف کو حقیقی جمہوری پارٹی کے طور پر پیش کیا جاسکے تاہم ان کا ماننا ہے کہ یہ غیر متعلقہ ہیں اور ‘پہلا سے بنا ہوا نظام’ دستیاب ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی بنیاد آئیڈیلزم پر رکھی گئی تھی اور پارٹی چیئرمین نے اسے جمہوری شکل دینے کے لیے انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ روایتی لوگوں نے عمران خان کے جمہوری نظریے کو پارٹی کے تقسیم ہونے اور شکست پانے والے لوگوں کا پارٹی کے لیے کام نہ کرنے کا خوف پیدا کرکے ناکام بنادیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسری جانب جو پہلی مرتبہ انٹرا پارٹی انتخابات میں ناکام ہوے تھے، نے نتائج تسلیم نہیں کیے اور جیتنے والوں پر کرپشن کے الزامات عائد کردیے تھے۔

اے این پی کے سابق سینیٹر افسریاب خٹک کا کہنا تھا کہ ملک کو مخلوط مارشل لا کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو اصلاحات لانے، ادارے کے طور پر کام کرنے اور پالیسیوں پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔