پاکستان کی سپریم کورٹ نے وفاق کو حکم دیا ہے کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے جبری طور پر لاپتہ افراد کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کو فوری طور پر عدالت میں پیش کرے۔
کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم گزشتہ ماہ سے جبری طور پر لاپتہ تھے تاہم وزارت دفاع نے عدالت میں اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ مذکورہ وکیل ان کی تحویل میں ہیں۔
یاد رہے فوج کے تمام خفیہ ادارے وزارت دفاع کے ماتحت تصور کیے جاتے ہیں۔
اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے اپنے 9 جنوری کے فیصلے میں کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کو وزارت دفاع کے ماتحت اداروں کی حراست میں رکھنے کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انھیں فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
انعام الرحیم ایڈووکیٹ کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ عدالتی حکم کے چار روز گزر جانے کے باوجود انھیں رہا نہیں کیا گیا۔
عدالت میں کیا ہوا؟
جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے وفاق کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کردہ اپیل کی سماعت کی۔
اٹارنی جنرل انور منصور نے عدالت میں ایک سربمہر لفانے میں مذکورہ وکیل کی حراست کی وجوہات پیش کیں اور کہا کہ یہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے لہذا اس معاملے کی ان کیمرہ سماعت کی جائے جسے عدالت نے مسترد کردیا۔
واضح رہے کہ لاہور کورٹ میں کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی جبری گمشدگی سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران ایڈشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے عدالت کو بتایا تھا کہ مذکورہ وکیل کو نیشنل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ’اس رپورٹ میں جو لکھا ہے وہ سب کچھ شائع ہوچکا ہے لہذا چیزوں کو ڈرامہ ٹائز کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
عدالت کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کا ابھی مختصر فیصلہ آیا ہے اور تفصیلی فیصلہ آنے میں وقت لگے گا۔
عدالت نے وفاقی حکومت سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جواز بتایا جائے کہ ایسا کیا قومی سلامتی کا ایشو ہے جس کی بنا پر اس اپیل کی سماعت چیمبر میں کی جائے۔
بینچ میں موجود جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ وہ کب ایسی دستاویزات عدالت میں پیش کریں گے کیونکہ عدالت ان اہم دستاویزات سے دیکھنا چاہتی ہے کہ اس مقدمے میں کون سا قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔
بینبچ کے سربراہ نے اٹارنی جنرل سے کہا ’دستاویزات عدالت میں پیش کریں، انھیں پبلک نہیں کیا جائے گا۔‘
اٹارنی جنرل سے عدالت سے استدعا کی کہ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کو پیش کرنے کے حکم کا عدالت دوبارہ جائزہ لے جس پر جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ انعام الرحیم کو پہلے عدالت میں پیش کریں اس کے بعد معاملے کو دیکھیں گے۔
صدر سپریم کورٹ بار قلب حسن، کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کے حق میں روسٹرم پر آئے اور کہا ’ان کی جبری گمشدگی کے بارے میں قومی سلامتی کا کیا معاملہ ہے یہ سب کو معلوم ہے۔‘
اُنھوں نے مزید کہا ’آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے سپریم کورٹ میں آرمی ایکٹ اور سروسز رولز کی کاپیاں پیش کی تھیں۔‘
انھوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایڈووکیٹ سے ان کے اہل خانہ سے ملاقات بھی نہیں کروائی جارہی۔
اس اپیل کی سماعت اب 14 جنوری کو ہو گی۔
یاد رہے کہ دو روز قبل وزارت دفاع اور وفاق نے مشترکہ طور پر لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کے رہائی کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔
اس اپیل میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ کرنل (ر) انعام الرحیم کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے خلاف تحقیقات چل رہی ہیں۔
اپیل میں مزید یہ بھی کہا گیا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کا رہائی کا فیصلہ خلافِ قانون ہے اور سپریم کورٹ انعام الرحیم کی رہائی کا فیصلہ معطل کرے۔
واضح رہے کہ وفاق کی اس اپیل کی سماعت کرنے والے بینچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم ہیں۔
جسٹس مشیر عالم اس دو رکنی بینچ کی بھی سربراہی کررہے تھے جس نے ایک مذہبی جماعت کی طرف سے فیض آباد دھرنے کے مقدمے کا فیصلہ سنایا تھا۔
اس فیصلے میں وزارت دفاع کو ان فوجی افسران کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دیا گیا تھا جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی معاملات میں حصہ لیا تھا۔
کرنل انعام الرحیم کون ہیں؟
انعام الرحیم ایڈووکیٹ کا تعلق پاک فوج کے 62ویں لانگ کورس سے ہے۔ یہ وہی کورس ہے جس سے موجودہ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کا بھی تعلق ہے۔
آل پاکستان ایکس سروس مین لیگل فورم کے کنوینر انعام الرحیم ماضی میں لاپتہ اور فوج کے حراستی مراکز میں قید افراد کے مقدمات لڑنے کے علاوہ فوجی عدالتوں اور فوجی سربراہان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے خلاف عدالتوں سے رجوع کر چکے ہیں۔
انعام الرحیم پاک فوج کی لیگل برانچ جسے جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ یا جیگ برانچ کہتے ہیں سے بھی منسلک رہے۔ پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ فوج میں رہتے ہوئے پرویزمشرف کے ناقدین میں شامل تھے۔
انھوں نے اپنے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سے تمغہ امتیاز ملٹری وصول کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ وہ لیفٹینینٹ کرنل کے عہدےسے آگے نہ جاسکے اور اکتوبر 2007 میں ریٹائر ہو گئے۔
2008 میں انعام الرحیم نے راولپنڈی میں قانون کی پریکٹس شروع کر دی۔ ان دنوں راولپنڈی میں پرویز مشرف پر حملہ کیس کے ملزمان رانا فقیرو دیگر اپنے لیے وکیل تلاش کررہے تھے مگر کوئی ان کا کیس لینے کے لیے تیار نہ تھا۔ انعام الرحیم آگے بڑھے اور انہوں نے ملزمان کے وکیل کے طور پر خدمات پیش کیں۔ اس طرح وہ پہلی بار میڈیا کی نظروں میں بھی آئے۔
پرویز مشرف اوردیگر عسکری شخصیات کے اثاثوں سے متعلق انعام الرحیم نیب سے بھی رجوع کرتے رہے۔ پرویز مشرف کے اثاثوں کے بارے میں انھوں نے مختلف فورمز پر درخواستیں بھی دیں۔
انعام الرحیم نے جنرل راحیل شریف کے دور میں پاک افغان سرحد پر انگوراڈہ کی چیک پوسٹ مبینہ طور پر افغانستان کے حوالے کرنے کے خلاف بھی ایک رٹ پٹیشن کررکھی تھی جس میں اس وقت کے ڈائریکٹرجنرل آئی ایس پی آر عاصم سلیم باجوہ کو بھی ملزم نامزد کررکھا تھا۔
حال ہی میں عاصم سلیم باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی سی پیک اتھارٹی کے سربراہ کے طورپر تعیناتی کے بعد یہ معاملہ ایک بارپھر سامنے آیا تھا۔