پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے والی عدالت غیرآئینی قرار
لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیرقانونی قرار دے دیا ہے۔
عدالت عالیہ کے فل بینچ نے یہ فیصلہ پیر کو جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی جانب سے دی گئی اس درخواست پر سنایا جس میں انھیں سزا سنانے والی خصوصی عدالت کے قیام کو چیلنج کیا گیا تھا۔
صحافی عباد الحق کے مطابق عدالت نے اپنے فیصلے میں خصوصی عدالت کی تمام کارروائی کو بھی کالعدم قرار دے دیا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان کے مطابق اس فیصلے کے بعد پرویز مشرف کی سزا بھی ختم ہو گئی ہے۔
یاد رہے کہ 17 دسمبر کو اس خصوصی عدالت نے سابق آمر پرویز مشرف کو سنگین غداری کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے انھیں آئینِ پاکستان کے آرٹیکل چھ کے تحت سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔
مختصر فیصلے میں عدالت نے قرار دیا ہے کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کے سلسلے میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے تھے اور نہ ہی عدالت کی تشکیل اور نہ مقدمے کے اندراج کے لیے مجاز اتھارٹی سے منظوری لی گئی۔
عدالت نے کہا 18ویں ترمیم کے تحت آئین کے آرٹیکل 6 میں جو ترمیم کی گئی اس کا اطلاق ماضی سے نہیں کیا جا سکتا۔
عدالتِ عالیہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی بھی ملزم کی عدم موجودگی میں اس کا ٹرائل کرنا غیراسلامی، غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔
جسٹس مظاہر علی نقوی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی فل بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس امیر بھٹی اور جسٹس مسعود جہانگیر شامل تھے۔
یہ فل بینچ گذشتہ ماہ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سردار شمیم احمد خان نے تشکیل دیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ اس درخواست پر اپنا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کرے گی۔
پرویز مشرف کی درخواست میں کیا کہا گیا؟
عدالت میں پرویز مشرف کی جانب سے دائر شدہ 86 صفحات پر مشتمل درخواست میں کہا گیا تھا کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ ’بے ضابطگیوں اور متضاد بیانات‘ کا ایک مرکب ہے اور بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خصوصی عدالت کی سربراہی کرنے والے جج نے فیصلے میں چند ایسی اصطلاحیں استعمال کی ہیں جو ان کی ذاتی وابستگی، تعصب، بدگمانی، عداوت، بغض، مِس کنڈکٹ، صوابدیدی اختیارات کا غیر قانونی اور نامناسب استعمال، غیر مدبرانہ اور حلف سے روگردانی کی غماز ہیں۔
درخواست میں خصوصی عدالت کی تشکیل اور اس کی کارروائی کو چیلنج کیا گیا ہے۔ متفرق درخواست میں چھ قانونی نکات اٹھائے گئے تھے اور یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خصوصی عدالت کے جج نہیں ہو سکتے کیونکہ خصوصی عدالت میں صرف ہائی کورٹ کا جج شامل کیا جا سکتا ہے۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ خصوصی عدالت وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر تشکیل دی گئی تھی جبکہ مقدمے میں پرویز مشرف کو دفاع کا موقع نہیں دیا گیا اور ان کا بیان تک نہیں ریکارڈ کیا گیا۔
درخواست گزار کے مطابق ملزم پرویز مشرف کے عدالت کے روبرو تعزیرات پاکستان کی شق 342 کے تحت بیان کے بغیر ٹرائل مکمل نہیں ہو سکتا تھا جبکہ پرویز مشرف کو خصوصی عدالت میں شہادت پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
یہ بھی کہا گیا تھا کہ خصوصی فیصلے میں درج پیرا 66 آئین پاکستان اور اسلام کے منافی ہے۔ یاد رہے کہ پیرا 66 میں پرویز مشرف کی لاش کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں پھانسی دینے اور لاش تین روز تک لٹکائے رکھنے کے حوالے سے حکم دیا گیا ہے۔
پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کا پس منظر
سنہ 2013 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز نے حکومت میں آنے کے بعد سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ درج کیا تھا۔
اس مقدمے کے منطقی انجان تک پہنچنے کے دوران خصوصی عدالت کے چار سربراہان تبدیل ہوئے۔
پرویز مشرف صرف ایک مرتبہ ہی خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہوئے جب ان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ اس کے بعد سابق فوجی کبھی عدالت پیش نہیں ہوئے۔
سابق صدر پرویز مشرف مارچ 2016 میں طبی بنیادوں پر بیرون ملک چلے گئے تھے۔ ان کا نام اس وقت کی حکمراں جماعت مسلم لیگ ن نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے خارج کرنے کے بعد ملک سے جانے کی اجازت دی تھی۔
خصوصی عدالت کا فیصلہ کیا تھا؟
17 دسمبر کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں بننے والے خصوصی عدالت کے تین رکنی بینچ نے پرویز مشرف کو آئین شکنی اور سنگین غداری کا مجرم قرار دیتے ہوئے انھیں سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا تھا۔
بینچ میں موجود دو ججز یعنی جسٹس سیٹھ وقار اور جسٹس شاہد کریم نے پرویز مشرف کو آئین شکنی اور سنگین غداری کا مجرم قرار دیا تھا جبکہ جسٹس نذر اکبر نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ خصوصی عدالت کے 196 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں جسٹس نذر اکبر کا 42 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ استغاثہ کے شواہد کے مطابق ملزم مثالی سزا کا مستحق ہے اور اسے ہر الزام میں الگ الگ سزائے موت سنائی جاتی ہے۔
خصوصی عدالت نے سربراہ جسٹس سیٹھ وقار نے اپنے فیصلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو گرفتار کرنے اور سزا پر عملدرآمد کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اگر وہ (پرویز مشرف) مردہ حالت میں ملیں تو ان کی لاش اسلام آباد کے ڈی چوک لائی جائے جہاں اسے تین دن تک لٹکایا جائے۔
جسٹس وقار نے اپنے اس حکم کی توجیہہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ چونکہ ماضی میں کسی بھی فرد کو پاکستان میں اس جرم میں سزا نہیں دی گئی اور عدالت نے اپنا فیصلہ مجرم کی عدم موجودگی میں سنایا ہے، اس لیے اگر مجرم سزا پانے سے قبل وفات پا جاتا ہے تو یہ سوال اٹھے گا کہ آیا فیصلے پر عملدرآمد ہوا یا نہیں۔
مشرف کو سزا دینے کے حق میں فیصلہ دینے والے دوسرے جج جسٹس شاہد کریم نے جسٹس سیٹھ وقار کے فیصلے میں پرویز مشرف کی موت کی صورت میں ان کی لاش ڈی چوک پر لٹکانے کے حکم سے اختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے خیال میں مجرم کو سزائے موت دینے کا حکم کافی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین شکنی اور سنگین غداری ایک آئینی جرم ہے اور یہ وہ واحد جرم ہے جس کی سزا آئینِ پاکستان میں دی گئی ہے۔
آئین کی شق نمبر چھ کے مطابق وہ شخص جس نے 23 مارچ 1956 کے بعد آئین توڑا ہو یا اس کے خلاف سازش کی ہو ، اس کے عمل کو سنگین غداری قرار دیا جائے گا اور اس کو عمر قید یا سزائے موت سنائی جائے گی۔