چاند گرہن اور سورج گرہن نے کس طرح تاریخ کا رُخ موڑا ہے؟
آج 14 اکتوبر کو سورج گرہن کا امکان ہے جو امریکہ سمیت دنیا بھر کے بعض علاقوں میں نظر آئے گا۔
اس میں چاند سورج کے سامنے سے گزرے گا، لیکن یہ مکمل طور پر اسے گرہن نہیں لگائے گا، جس سے سورج کا صرف ایک پتلا کنارہ سامنے آئے گا۔ یہ ایک ایسا رجحان ہے جس نے اس قسم کے گرہن کو ‘رِنگ آف فائر’ کا نام دیا ہے۔
چاند گرہن یا سورج گرہن نے اکثر اوقات اہم واقعات کا رُخ بدلا ہے۔ لیکن کیا یہ تبدیلی بہتر کے لیے رہی ہے یا پھر بدتر کے لیے؟
سنہ 1889 میں وقت میں سفر کرنے کے متعلق شائع ہونے والے ایک مقبول ناول میں مصنف مارک ٹوین نے ایک ایسے شخص کے بارے میں لکھا جس کی زندگی گرہن کی وجہ سے بچ گئی تھی۔
مارک ٹوین کے ناول ‘اے کنیکٹی کٹ یانکی ان کنگ آرتھرز کورٹ’ کا مرکزی کردار ہانک مورگن بے ہوش ہو جاتا ہے اور پھر وہ چھٹی صدی کے انگلینڈ میں ہوش میں آتا ہے۔ وہ جلد ہی اپنے آپ کو مشکل میں پاتا ہے اور اسے لکڑی پر لٹکا کر نذر آتش کیے جانے کی سزا سنائی جاتی ہے۔
اس کی خوش قسمتی سے اس کی پھانسی کی سزا اسی دن مقرر ہوتی ہے جس دن گرہن ہونے والا ہے۔ اسے گرہن کے دن کا پتا ہوتا ہے۔ مورگن وہاں کے بادشاہ اور عوام کو اس کے حوالے سے دھوکہ دیتا ہے اور انھیں یہ باور کراتا ہے کہ گویا سورج اور چاند پر اس کا اختیار ہے۔ گرہن کا پیشگی علم اسے سزا سے نجات دلا دیتا ہے۔
یہ ایک فرضی کہانی ہے لیکن یہ حقیقی واقعات سے متاثر ہو سکتی ہے۔ امریکہ کی کھوج کرنے والے معروف سیاح کرسٹوفر کولمبس نے ایک بار ایسا ہی کچھ کیا تھا اور ممکنہ طور پر اس سے ان کی جان بچ گئی۔
درحقیقت انسانی تاریخ میں بہت سے سورج اور چاند گرہن تاریخ کے اہم مقامات پر رونما ہوئے ہیں اور یہ لوگوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہوا، جنگوں کے نتائج کو تبدیل کیا ہے، یہاں تک کہ کائنات کی نوعیت کے بارے میں ہمارے علم میں تبدلی کا باعث بنے ہیں۔
سورج یا چاند گرہن نے انسانیت کو کئی طریقوں سے متاثر کیا ہے اور یہ متعدد ثقافتوں، عقائد کے نظاموں اور افسانوں میں پیوستہ ہیں۔ صدیوں کے دوران لوگوں نے گرہن کے ان کائناتی واقعات کو دیوتاؤں، ماورائی قوتوں، بھوت پریت اور جانوروں کی حیرت انگیز مجموعے سے جوڑا ہے۔
مثال کے طور پر مغربی ایشیا میں اسے سورج کو کھا جانے والا ڈریگن کہا جاتا تھا، پیرو میں گرہن کوئی پوما تھا۔ کچھ مقامی امریکیوں نے اس کے متعلق بھوکے ریچھ کی بات کہی ہے جبکہ وائکنگز اسے آسمانی بھیڑیوں کے جوڑے کے طور پر دیکھتے تھے۔
ہیروڈوٹس کی کہانی
بعض اوقات گرہن نے درحقیقت تاریخی واقعات کا رخ بدل دیا ہے۔
‘ٹوٹلٹی: ایکلیپس آف دی سن’ کے شریک مصنف اور ناکسویلے میں ٹینیسی یونیورسٹی کے مارک لٹ مین نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دو ہزار سال سے زیادہ پہلے ایک جنگ کے بارے میں ہماری معلومات ہیں کہ جنگ کے دوران گرہن کی وجہ سے اس کا نتیجہ بدل گیا تھا۔
یونانی مورخ ہیروڈوٹس نے 430 قبل مسیح میں لکھا کہ جدید دور کے ترکی کے علاقوں پر مبنی لیڈیان اور قدیم ایرانی لوگوں میڈیز کے درمیان ایک جنگ ہوئی تھی۔ ان کی لڑائی چھ سالوں سے جاری تھی، کبھی ایک کی فتح ہوتی تو کبھی دوسرے کی اور ایک قسم کا تعطل بنا ہوا تھا کہ پھر سے دونوں مخالفین آمنے سامنے آ گئے۔ بہر حال اس بار ‘ ہیروڈوٹس نے لکھا کہ دن اچانک رات میں بدل گیا۔ میڈیز اور لیڈیان نے جب اس تبدیلی کا مشاہدہ کیا تو لڑائی بند کر دی اور امن کی شرائط پر اتفاق کے لیے دونوں یکساں طور پر بے چین تھے۔’
لٹ مین کا کہنا ہے کہ 1800 کی دہائی میں ماہرین فلکیات نے نشاندہی کی کہ ہیروڈوٹس ضرور 28 مئی 585 قبل مسیح کو ہونے والے سورج گرہن کو بیان کر رہے تھے۔
ہیروڈوٹس کے ایک اور بیان میں کہا گیا ہے کہ کس طرح فارس کی فوج کے رہنما سرکسز نے یونان پر حملہ کرنے سے پہلے ایک گرہن دیکھا۔ لٹ مین کا کہنا ہے کہ یہ بالکل واضح نہیں ہے کہ اس نے اس سال کون سا گرہن دیکھا ہوگا لیکن اگر ہیروڈوٹس کے کہنے پر بھروسہ کیا جائے تو سرکسز اس سے اتنا گھبرا گیا تھا کہ اس نے اپنے زرتشتی پادریوں سے مشورہ کیا۔ انھوں نے سرکسز کو بتایا کہ خدا یونانیوں کو ان کے شہروں کی آنے والی تباہی کے بارے میں خبردار کر رہا ہے۔ انھوں نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا کہ ‘سورج ان کے لیے پیشین گوئی کرتا ہے اور چاند ہمارے لیے۔’
ہیروڈوٹس نے لکھا: ‘اس طرح کی بشارت کے بعد سرکسز ایک قسم کی سرخوشی میں آکے بڑھا۔’
لیکن یہ خوفناک مشورہ نکلا۔ سرکسز نے کامیابی کے ساتھ ایتھنز پر حملہ کیا، لیکن اس کی بحریہ کے تباہ ہونے کے بعد اسے واپسی پر مجبور ہونا پڑا۔ واپسی پر اس کی فوجیں بری طرح پسپا ہو گئیں۔ پھر 465 قبل مسیح میں اسے قتل کر دیا گیا۔
کولمبس کی جان کیسے بچی؟
یہ آخری موقع نہیں کہ جب گرہن کسی واقعے کے لیے اہم ثابت ہوا ہو۔
آپ وقت کو تیزی سے ایک ہزار سال سے زیادہ آگے بڑھا دیں تو آپ دیکھیں گے کہ کرسٹوفر کولمبس اپنے آخری سفر پر ہیں۔ ایک سوانح نگار کے مطابق سنہ 1503 میں کولمبس سے نے مایوسی کے عالم میں اپنے عملے کے ساتھ جمیکا کے ساحل پر اپنے ڈوبتے ہوئے بحری جہازوں کو کنارے لگایا۔ اس کی جہاز کے زیادہ تر لنگر کھو گئے تھے اور اس کے جہاز کو کو کیڑوں نے اس طرح کھالیا تھا کہ وہ ‘شہد کے چھتے کی طرح سوراخوں سے بھرے ہوئے تھے۔’
بھوک اور بغاوت دونوں کے ملے جلے خوف کے مد نظر کولمبس نے اپنے عملے کو اپنا اڈہ چھوڑنے سے منع کر دیا اور عارضی طور پر وہاں پر آباد لوگوں کے ساتھ کھانے اور پانی کے لیے ہسپانیہ کے بنے چھوٹے زیورات اور ديگر زیورات کی تجارت کی۔
ان کے لیے خطرہ ہمیشہ موجود رہتا تھا۔ جمیکا کے مشرقی علاقوں کی چھان بین کرتے وقت ان کی سکاؤٹ پارٹی میں سے ایک کو مقامی لوگوں نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ معاملات اس وقت اور بھی خراب ہو گئے جب جنوری 1504 میں عملے میں سے کچھ ایک نے بغاوت کر دیا اور وہ جزیرے پر بھاگ گئے۔ کولمبس کے سوانح نگار نے لکھا کہ انھوں نے جزیرے کے رہائشیوں کے ساتھ بدسلوکی کی اور ان کا مذاق اڑایا، ان کے سامان چوری کیے اور ‘ہر ممکنہ زیادتی کا ارتکاب کیا۔’
کئی ہفتوں تک ایسا ہی چلتا رہا اور پھر مقامی لوگوں کا صبر ختم ہو گیا۔ رواداری نے حقارت اور نفرت کو راستہ دیا اور کھانے کی تجارت بند ہو گئی۔ کولمبس اور بقیہ عملے کو اب فاقہ کشی کا سامنا تھا۔
اس صورت حال میں ان کا اختتام قریب ہی تھا کہ کولمبس کو یاد آیا کہ ایک فلکیاتی واقعہ چاند گرہن قریب آرہا ہے۔ یکم مارچ کو کولمبس نے مقامی برادریوں کے رہنماؤں کو اکٹھا کیا اور ان سے پابندی ہٹانے کے لیے کہا اور انھیں خبردار کیا کہ ‘میری حفاظت کرنے والا خدا تمہیں سزا دے گا۔۔۔ آج کی رات چاند اپنا رنگ بدل دے گا اور اپنی روشنی کھو دے گا، اور یہ اس بات کی علامت ہوگا کہ آسمان سے تم پر آفت نازل ہوگی۔’
اس رات چاند گرہن نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟
کولمبس کی یہ حرکت کام کر گئی۔ خوفزدہ مقامی لوگوں نے ان کی مخالفت بند کر دیا اور پھر سے انھیں کھانا فراہم کرنا شروع کر دیا۔ کولمبس نے کہا کہ وہ ایک کام کریں گے جس سے ان سب کو ‘معافی’ مل جائے گی۔
آج کے نظریے سے دیکھیں تو یہ ایک پریشان کن کہانی ہے کیونکہ مقامی لوگوں کو لوٹ مار کرنے والے یورپیوں کو روکنے کا پورا حق تھا اور یہ کہ ان کی جانب سے سائنسی علم اور جعلی دھمکیوں کو اپنا راستہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا شاید ہی اخلاقا درست تھا۔
لیکن اس کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ پر ہے کہ کولمبس کے ساتھ کیا ہوتا اگر اس رات چاند گرہن نہ ہوتا۔ کیونکہ جون تک ان لوگوں تک امداد پہنچنے والی نہیں تھی۔ شاید یہ اس کی ساکھ کے لیے بہتر ہوتا اگر وہ جمیکا پر تباہ و ہلاک ہوجاتا۔ اس کی بقیہ زندگی کسی صورت قابل رشک نہیں تھی۔ وہ خراب جسمانی اور ذہنی صحت میں سپین واپس آیا، سرکاری شناخت اور پیسے کے لیے احتجاج کرتا رہا۔ اس کے سرپرستوں نے اس کی ذہنی حالت پر شک کیا اور اس کے مطالبات کو نظر انداز کر دیا۔ وہ 1506 میں اپنی موت تک ناخوش رہا۔
لٹ مین کا کہنا ہے کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ کولمبس کی طرح چاند گرہن سورج گرہن کے مقابلے میں اہم لمحات میں آتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ اسے زیادہ لوگ دیکھتے ہیں۔ اگرچہ سورج گرہن زیادہ ہوتے ہیں لیکن چاند گرہن زیادہ دیر تک رہتا ہے اور نصف سے زیادہ زمین پر نظر آتا ہے۔ اس لیے ‘ان کا تاریخ کو متاثر کرنا آسان ہے۔’
ٹیکیومسہ کا گرہن
بہر حال ایک سورج گرہن نے امریکی تاریخ میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ سنہ 1800 کی دہائی میں، مقامی امریکی شوانی رہنما اور خود ساختہ پیغمبر ٹیکیومسہ اور اس کے بھائی مل کر اپنے لوگوں کو متحد کرنے اور روایتی طور طریقوں کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
اس علاقے کے مقرر کردہ گورنر ولیم ہنری ہیریسن جو بعد میں امریکی صدر بنے کے ارادے مختلف تھے اور انھوں نے رہنماؤں کو اپنی زمین سونپنے پر آمادہ کرنا شروع کیا۔ وہ جانتے تھے کہ ٹیکیومسہ اور اس کے بھائی ان کے راستے میں کھڑے ہیں، اس لیے انھیں بدنام کرنے کی خاطر انھوں نے کہا کہ اگر وہ پیغمبر ہیں تو سورج کو آسمان پر کیوں نہیں روک دیتے؟
یہ چال الٹی پڑ گئی۔ ٹیکیومسہ کے بھائی نے اعلان کیا کہ 16 اپریل 1806 کو سورج ساکن رہے گا۔ لٹ مین کہتے ہیں کہ وہ ‘مناسب وقت پر وہ اپنی پوری پلٹن کے ساتھ باہر نکلا اور سورج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ‘چھپ جاؤ’۔
یہ واضح نہیں ہے کہ ٹیکیومسہ اور اس کے بھائی کو کیسے معلوم تھا کہ اس دن سورج گرہن ہوگا۔ لیکن یہ یقینی طور پر ان کے لیے مؤثر رہا اور اس نے دونوں بھائیوں کے اثر و رسوخ اور ان کے لوگوں میں ان کی ساکھ کو مضبوط کیا۔ لِٹ مین کا کہنا ہے کہ ‘شوانیوں کو اس قسم کے ثبوت کی ضرورت نہیں تھی، لیکن اس نے ولیم ہنری ہیریسن کی کوششوں کو فائدہ نہیں پہنچایا۔’
افسوس کی بات ہے کہ اس کے بعد جنگ ہوئی۔
متعلقہ فوائد
لٹ مین کے مطابق سب سے زیادہ تاریخی طور پر نتیجہ خیز گرہن 20ویں صدی کے اوائل میں وقوع پزیر ہوا۔ سنہ 1919 میں ایک گرہن ہوا جس نے البرٹ آئن اسٹائن کو ان کے عام ریلیٹیویٹی یا اضافیت کے اصول کے بارے میں درست ثابت کیا، اور انھیں دنیا کے مشہور ترین سائنسدانوں میں سے ایک بنا دیا۔
لٹ میں کہتے ہیں: ’میرے خیال سے یہ دنیا کی تاریخ پر حقیقی اثر تھا۔ سائنس کے لحاظ سے، کائنات کے بارے میں ہماری سمجھ اور لوگوں کے رویوں کے لحاظ سے یہ ایک اہم موڑ تھا۔ کائنات کو سمجھنا زیادہ ہی مشکل ہے جتنا کہ ہم نیوٹنین کے فزکس کے زمانے میں سمجھتے تھے۔‘
مختصراً یہ کہ سنہ 1919 کے سورج گرہن نے سائنسدانوں کو یہ دیکھنے کی اجازت دی کہ سورج کی کشش ثقل ستارے کی روشنی کو موڑ رہی ہے، جو آئن سٹائن کی ایک اہم پیشگوئی تھی۔
کیا تاریخ کو آگے بڑھانے کے لیے یہ آخری گرہن تھا؟ شاید نہیں۔ اگلی دہائی میں اور بھی بہت سارے امیدوار ہیں۔ لیکن جب کہ زمین اور چاند کے راستوں کی اب آسانی سے پیش گوئی کی جا سکتی ہے ایس میں جب لوگوں اس سے گزریں گے تو وہ کیا ردعمل ظاہر کریں گے۔