جمالیات

شاہ رخ خان: بالی وڈ کے ’رومانس کنگ‘ ایکشن سٹار کیسے بنے

Share

اپنے تین دہائیوں سے زائد کے کریئر میں بالی وڈ کے سپرسٹار شاہ رخ خان کی لڑکپن والی مستیاں، چمکتی دمکتی آنکھیں اور گالوں پر پڑتے ڈمپل والی دلکش مسکراہٹ انھیں دلفریب رومانوی ہیرو بناتی ہے، جس کے لیے وہ جانے جاتے ہیں۔ تاہم رواں برس وہ سکرین پر ایک نئے ہی سٹار کے روپ میں نمودار ہوئے ہیں۔ ان کا یہ جنم ان کے پہلے کرداروں سے یکساں مختلف ہے۔

اپنی نئی فلم جوان کے ایک سین میں وہ گنجے دکھائی دیتے ہیں، جہاں خوف کی علامت بنے خان کے ارد گرد اس ٹرین کے خوفزدہ مسافر ہیں، جنھیں اب یرغمال بنا لیا گیا ہے۔

جلد ہی وہ گانا گانے اور ڈانس کرنا شروع کر دیتے ہیں جو ان کے مغویوں کو نئے مخمصے میں ڈال دیتا ہے۔

اس فلم کے ٹریلر میں ناظرین کو یہ تنبیہ کی جاتی ہے کہ ’جب میں ولن بنتا ہوں نا تو میرے سامنے کوئی بھی ہیرو ٹک نہیں سکتا۔‘

شاہ رخ خان بالی وڈ کے سپر سٹارز میں سے ایک ہیں، جن کے انڈیا سمیت دنیا بھر میں کروڑوں مداح ہیں۔

ایک وقفے کے بعد ان کی فلموں میں واپسی بالی وڈ کی اس برس کی بڑی کامیابی ہے۔ اس فلم کی ناقد انوپم چوپڑا کے مطابق ایک دلکش رومانوی ہیرو کے برعکس اب وہ اس سکرین پر ’ایک لڑاکا مشین‘ کے روپ میں نمودار ہوئے ہیں۔

خان اس سے پہلے سنہ 2006 میں ڈان اور سنہ 2017 میں رئیس جیسی فلموں میں ایکشن ہیرو بن کر آئے ہیں مگر جو چار چاند ان کی شخیصت کو پٹھان اور جوان جیسی کامیاب فلموں نے لگائے وہ اپنی مثال آپ ہے۔

انوپم چوپڑا کا کہنا ہے کہ یہ چیز ان کے کریئر کے ایک نئے دور کا پتا دیتی ہے۔

رواں برس ریلیز ہونے والی فلم پٹھان میں شاہ رخ خان انڈیا کے خلاف شدت پسندی کا حملہ روکنے کے لیے انٹیلیجنس مشن پر ہیں۔

واضح رہے کہ اس فلم میں شاہ رخ خان نے ایک سابق را کے ایجنٹ کا کردار نبھایا ہے جبکہ اداکارہ دیپکا پاڈوکون نے سابق آئی ایس آئی ایجنٹ کا کردار ادا کیا ہے۔

اس فلم نے ایک ماہ میں مقامی باکس آفس کا ریکارڈ توڑتے ہوئے 120 ملین ڈالر سے زائد کمائے۔ شاہ رخ کی نئی فلم جوان نے یہی ریکارڈ صرف 18 دنوں میں توڑ ڈالا۔ اس فلم میں شاہ رخ کو ’ڈبل‘ کردار اور متعدد روپ میں دکھایا گیا ہے۔

انوپم چوپڑا کا کہنا ہے کہ جو کردار ہم اس فلم میں سکرین پر دیکھ رہے ہیں وہ اس کے برعکس ہے جو ہم پہلے دیکھ چکے ہیں۔

شاہ رخ خان کو ابتدائی کامیابی ہیرو مخالف کرداروں سے ملی ہے۔ سنہ 1993 کی فلم ڈر میں وہ ایک ولن کے روپ میں نظر آئے۔ اسی برس بازی گر میں وہ ایک جنونی عاشق کے روپ میں نمودار ہوئے۔ سنہ 1994 میں فلم انجام میں وہ ایک انتقام کی آگ میں جلنے والے کے روپ میں نظر آئے۔

سنہ 1995 کی ریکارڈ توڑ فلم دل والے دلہنیا لے جائیں گے میں وہ ایک رومانوی ہیروں بن کر ابھرے۔

اس کے بعد سے وہ متعدد ڈراموں اور کامیڈی شوز میں میزبان کے طور پر بھی سامنے آئے مگر وہ ’کِنگ آف رومانس‘ ہی رہے۔

ان کا بازو پھیلا کر محبت کا اظہار ان کے بہت سے کرداروں کی عکاسی کرتا ہے۔ شاہ رخ کے ’ہنر‘ کی پہلی جھلک جو شاہ رخ کے نام ہے، دیوانہ میں بھی دیکھنے کو ملی، دونوں بازو پھیلا کر دنیا بھر میں پیار کرنے والے۔ ’ایسی دیوانگی دیکھی نہیں کبھی‘ گانا یاد رکھیں جس میں شاہ رخ ایکروبیٹک پرفارمنس دیتے ہوئے آتے ہیں اور بازو پھیلائے ہوئے اپنے دل کی بات کرتے ہیں۔

اس وقت وہ پھیلے ہوئے بازو محبت کے اظہار کا احساس دلاتے ہیں، اب کچھ لوگوں کے لیے یہ ریپیٹ موڈ کا پوز بن چکے ہیں۔

جوان اور پٹھان اس شخصیت کی ذہانت اور کرشمے کو برقرار رکھتے ہیں مگر خان کو ایک اتنا طاقتور سپر سٹار کے طور پر پیش کیا گیا ہے جوسپر ہیرو جیسے کام انجام دیتا ہے۔

شاہ رخ خان

ناقد راہول دیسائی کا کہنا ہے کہ دونوں فلموں نے شاہ رخ خان کے کریئر اور شہرت کو نئی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے۔

انوپم چوپڑا کا کہنا ہے کہ ان فلموں میں ایک بہت مشکل توازن برقرار رکھا گیا ہے اور یہ وہ مشکل ہوتی ہے جس کا ان کے ساتھ کام کرنے والے ہر ہدایت کار کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس فلم میں مداحوں کے لیے تفریح کا سامان، ناظرین کو کچھ نئی پیشکش کرتے ہوئے ایک سٹار کی افسانوی سٹار کی حیثیت کو بھی برقرار رکھنے جیسا توازن رکھا گیا ہے۔

شاہ رخ خان کی ذاتی اور پیشہ وارانہ زندگی میں متعدد حادثات ان کی فلموں میں چار برس کی غیرحاضری کا باعث بنے۔

سنہ 2016 اور سنہ 2017 ان کے کرئیر کے بہت سست سال ثابت ہوئے، جب انھیں کوئی زیادہ کامیابی نہیں مل سکی۔

سنہ 2018 میں وہ مختصر دورانیے کے کردار اور وائس اوور تک محدود رہے۔ سنہ 2021 میں ان کے بیٹے آریان خان کی منشیات کے مقدمے میں گرفتاری میڈیا میں بڑی خبر بن گئی۔ تاہم بعد میں ان کے خلاف الزامات غلط ثابت ہوئے اور یہ مقدمہ واپس لے لیا گیا۔

راہول دیسائی کے مطابق پٹھان اور جوان نے شاہ رخ خان کی نجی اور پیشہ وارانہ زندگی میں مایوسیوں کو دور کرنے کا ایک خاص سبب بن گئیں۔

دونوں فلموں کا مختلف انداز ہے تاہم ان کا پیغام ایک جیسا ہی ہے۔ ایک محب وطن ہیرو جو مختلف مذہبی اور علاقائی پس منظر رکھنے والوں کے ساتھ مل کر ایسے کام کرتا ہے جو ملک کو بحران سے بچانے کے لیے ہوتے ہیں۔

یہ خیال حالیہ عرصے میں بالی وڈ کی دیگر فلموں جیسا کہ کیرالا سٹوری اور کشمیر فائلز سے یکسر مختلف ہے۔ ان دو فلموں کی تعریف انڈین وزیراعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے بھی کی۔ ان فلموں میں ہندو مذہبی عقائد یا قومیت سے رشتہ جوڑا گیا ہے۔ اگرچہ ان فلموں پر تنقید بھی ہوئی مگر یہ ہٹ فلمیں بن گئیں۔

جوان میں شاہ رخ خان ایک فوجی کے بیٹے کا کردار ادا کرتے ہیں جو اپنے باپ پرعائد کیے گئے الزامات کو دور کرنے کے لیے لڑ رہا ہے۔ وہ ایک ایسے بدعنوان سیاسی نظام پر ضرب کاری کے لیے مختلف روپ اختیار کرتے ہیں جہاں عام آدمی کو انصاف تک رسائی حاصل نہیں ہو پاتی۔

راہول دیسائی کا کہنا ہے کہ شاہ رخ کی فلموں میں اکثر ’فکشن‘ اور ’لائف‘ کو یکجا کر دیا جاتا ہے۔ انھوں نے جوان کے تنقیدی جائزے میں لکھا کہ ہمیں اس وہم سے لطف حاصل ہوتا ہے کہ ہم انھیں اتنا ہی دیکھتے ہیں جتنا کہ وہ کردار نبھاتے ہیں۔

شاہ رخ خان

راہول دیسائی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس سے پہلے والی فلمیں خود پسندی کی مثال تھیں جن پر جشن اس سپرسٹار کی میراث ہے۔‘

ان کے مطابق اب فرق یہ ہے کہ پٹھان اور جوان جیسی فلمیں ایک شخص (مشہور شخصیت، والد، عاشق، محب وطن) کے طور پر ان کی شناخت اور رائے کو افسانوی بناتی ہیں اور موجودہ ماحول میں ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے تعلقات کی عکاسی کرتی ہیں۔‘

تاہم یہ تصور شاہ رخ خان کی فلموں کے لیے نیا نہیں ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی بہت ساری پرانی فلموں میں بھی اس طرح کا سیاسی رنگ پایا جاتا ہے۔

انوپم چوپڑا کے مطابق سوا دیس جیسی فلم جس میں وہ ناسا کے انجنیئر کا کردار ادا کرتے ہیں جو رہائش کے لیے انڈیا آ جاتے ہیں، اور اس میں وہ ایک خاص قسم کی محب وطنی پر بات کرتے ہیں۔ مگر جو کچھ گذشتہ چند عرصے میں انڈیا میں ہوا تو اس چیز نے ان کی زندگی میں اب سیاسی رنگ زیادہ شامل کر دیا ہے۔

جب سے انڈیا میں وزیراعظم مودی کی قوم پرست حکومت قیام میں آئی ہے تو سماجی اور سیاسی کارکنان کا کہنا ہے کہ ملک میں مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

بی جے پی ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ تاہم اس جماعت کے رہنما کم ہی ایسے واقعات کی مذمت کرتے ہیں۔

راہول دیسائی کا کہنا ہے کہ اس برس کی ریکارڈ توڑ فلمیں ہمیں شاہ رخ خان کی سوچی سمجھی واپسی کے بارے میں بتاتی ہے کہ کیسے وہ ایک ایسے ملک میں جسے ہندو اکثریتی جماعت چلا رہی ہے وہاں وہ نہ صرف ایک اداکار بلکہ مسلم سپر سٹار کے روپ میں ابھر کر سامنے آئے ہیں۔

ان کے مطابق بہت سارے ناظرین کو یہ احساس نہیں کہ وہ دراصل جب خان کی یہ فلمیں دیکھتے ہیں تو وہ رواداری اور پرانی سیکولرازم والی سوچ کی طرف لوٹ رہے ہیں۔

فلم جوان کا ایک منظر جس کا حوالہ ناقدین اور سامعین یکساں دیتے ہیں وہ ووٹنگ اور سیاسی احتساب کی اہمیت پر شاہ رخ خان کی تقریر ہے۔

حکمران جماعت بی جے پی اور اپوزیشن جماعت کانگریس سمیت متعدد سیاسی جماعتیں ان مسائل کا ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔

انوپم چوپڑا کا کہنا ہے کہ یہ ایک اچھی علامت ہے۔ جب آپ کچھ کرتے ہیں تو پھر اس کے اثرات ہر طرف مرتب ہوتے ہیں۔

انوپم دیسائی کا کہنا ہے کہ ان فلموں کے ساتھ خان کی کامیابی نے ’انھیں ایک ایسی جگہ پر واپس لے آئی ہیں، جہاں وہ اب صرف اپنے شاندار ماضی کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ اپنے نئے کام سے ایک نئی پہچان بنا چکے ہیں۔‘

لیکن کتاب Desperly Seeking Shah Rukh کی مصنف شریانا بھٹا چاریہ کہتی ہیں کہ شاہ رخ خان کو ہمیشہ سے ہی اتنا پسند کیا جاتا ہے کہ وہ پھر سے جوبن میں نظر آئیں۔

انھوں نے اپنی کتاب کے لیے سپر سٹار کے مداحوں کا انٹرویو کرنے میں 15 سال لگائے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’پہلے کبھی کسی نے انھیں شناخت کی سیاست تک محدود نہیں کیا تھا۔‘

شریانا کا کہنا ہے کہ پرجوش شائقین ایک وقفے کے بعد اب اپنے پسندیدہ اداکار کو دیکھنے کے لیے متحرک ہو گئے ہیں۔ وہ یکجہتی کا اظہار کرنا چاہتے تھے اور اپنے آپ کو لطف اندوز کرنا چاہتے تھے۔ تفریح ​​​​کچھ اپنے ہی طرز کی تخریب بھی ہے۔‘

راہول دیسائی کا کہنا ہے کہ شاہ رخ خان کو اداکار کے طور پر اب بھی بہت کچھ کرنا ہے۔ میں ان کی عمر بڑھنے، اپنے جاہ و جلال کے ساتھ زیادہ محفوظ ہونے، بیانات دینے اور مزید متنوع کرداروں کا انتخاب کرنے کا منتظر ہوں۔‘