انگریزی کا ایک لفظ ہے Provocateur Agent۔ فرانسیسی زبان سے مستعار لیا یہ لفظ ایسے شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے جو لوگوں کے دلوں میں اشرافیہ کے خلاف نسلوں سے جمع ہوئے غصے کو بھڑکاتا ہے۔ آتش غضب بھڑکانے کا مقصد مگر انقلاب برپا کرنا نہیں ہوتا۔ اصل ہدف ”حقیقی آزادی“ یا ”انقلاب“ لانے کے خواہاں افراد کو تشدد کی جانب دھکیلتے ہوئے ریاست کے روبرو بے نقاب کرنا ہوتا ہے۔ دلوں میں بھڑکتی آگ والے نہایت سوچ سمجھ کر بنائی حکمت عملی کے بغیر ریاست کے طاقت ور ترین اداروں کو ”اچانک“ دکھتی توڑپھوڑ یا آتشزدگی کے واقعات کے ذریعے اشتعال دلاتے ہیں اور محض چند گھنٹوں کی گہماگہمی کے بعد تھک جاتے ہیں۔
دریں اثناءریاست انہیں شناخت کرچکی ہوتی ہے اور نشان زد ہوئے”بلوائی“ بتدریج ریاستی اداروں کی گرفت میں آنے کے بعد سنگین مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی زندگیاں تباہ کرلیتے ہیں۔جس اشرافیہ کو گرانے کی خاطر وہ گھروں سے نکلے تھے وہ مزید مضبوط ہوجاتی ہے اور معاشرہ بے تحاشہ ناانصافیوں کے خلاف واجب احتجاج کے قابل بھی نہیں رہتا۔ دنیا کے کئی ممالک میں نیک نیتی سے چلائی متعدد عوامی تحاریک کو ایسے ہی ”ایجنٹوں“ نے شدید نقصان پہنچایا۔ ہمارے خطے میں بھی برطانوی راج کو طویل تر بنانے میں ایسے افراد نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اپنوں سے بے وفائی نے ا نہیں انگریز کی تشکیل کردہ اشرافیہ کا حصہ بنایا جن کی جدید نسلیں آج بھی لاہور میں قائم ایچی سن کالج جیسے اداروں سے تعلیم کے حصول کے بعد ریاست کے کلیدی عہدوں پر فائز ہیں یا صنعت کاروں کی صف اوّل میں شمارہوتی ہیں۔
”ایجنٹ“ کی جس صنف کا میں ذکررہا ہوں اس کی زندہ اور بھرپور مثال اسلام آباد کے ہمسایہ شہر راولپنڈی کی لال حویلی سے ا±ٹھے ایک صاحب ہیں۔1980کی دہائی کا آغاز ہوا تو بطور رپورٹر میں اسلام آباد میں ہوئے جرائم کے علاوہ راولپنڈی کی بلدیاتی سیاست پر بھی نگاہ رکھتا تھا۔ جنرل ضیاء کی سرپرستی میں بنائے بلدیاتی ادارے کے اس شہر میں میئر شیخ غلام حسین ہوا کرتے تھے جو کاروباری مزاج کی بدولت سرکار کی جی حضوری عبادت شمار کرتے۔راولپنڈی کی لال حویلی سے ابھرے صاحب بلدیاتی ادارے کے کونسلر منتخب ہوگئے۔ مختلف ٹی وی انٹرویو میں اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے کا غذات نامزدگی ابتداََ مسترد ہوگئے تھے۔ ان دنوں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ا ختر عبدالرحمن نے مگر ذاتی مداخلت سے انہیں منتخب ہونے کا موقعہ فراہم کردیا۔ موصوف کے بارہا دہرائے اس دعویٰ کے برعکس میں اصرار کروں گا کہ ان کی سرپرستی اور معاونت مقامی سطح کے کسی افسر نے فرمائی ہوگی۔آئی ایس آئی کے سربراہ تو ویسے بھی ان دنوں افغان جہاد پر اپنی توجہ مرکوز رکھے ہوں گے۔
بہرحال بلدیاتی ادارے کا رکن منتخب ہونے کے بعد راولپنڈی سے ابھرے صاحب اس کے اجلاسوں میں میئر شیخ غلام حسین کے خلاف نفرت انگیز تقریروں سے رونق لگانا شروع ہوگئے۔ ان دنوں خبریں چھاپنے سے قبل انہیں سنسر سے کلیئر کروانا لازمی تھا۔ نہایت ہوشیاری سے اپنائی حکمت عملی کے تحت مارشل لاءحکومت بلدیاتی اداروں کے اجلاسوں میں صفائی ستھرائی کے ناقص انتظام کے خلاف ہوئی دھواں دھار تقاریر کو اخبارات میں نمایاں انداز میں چھپادیکھنا چاہتی تھی۔ اس کی بدولت لوگ اس گماں میں مبتلا رہتے کہ فوجی آمر ہونے کے باوجود جنرل ضیاءنچلی سطح سے منتخب ہوئے عوام کے ”حقیقی نمائندوںکو وطن عزیز کو درپیش “اصل مسائل جی داری سے اجاگر کرنے کا موقعہ فراہم کررہے ہیں۔ایسی فضا میں فقط حب الوطنی سے محروم تبصرہ نگارہی پاکستان میں ”جمہوریت“ قائم نہ ہونے کا رونا روسکتے ہیں۔راولپنڈی کے مقامی اخبارات میں لہٰذا راولپنڈی کی لال حویلی سے ا±ٹھے صا حب کا ڈنکا بجنا شروع ہوگیا۔
چند برس گزرنے کے بعد جنرل ضیاءنے 1985کے غیر جماعتی انتخاب کے ذریعے قومی اسمبلی کی بحالی کا فیصلہ بھی کرلیا۔ بلدیاتی سیاست کی وجہ سے مشہور ہوئے راولپنڈی کی لال حویلی سے ابھرے صاحب میئر شیخ غلام حسین کو ہراکر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ ایوان زیریں پہنچنے کے بعد انہوں نے چند روز عوام کا ”حقیقی نمائندہ“ ہونے کا ڈرامہ بھی رچایا۔ جلد ہی مگر احساس ہوگیا کہ ”حلقے“ میں ”ترقیاتی کاموں“ کے لئے سرکار کی سرپرستی درکار ہے۔
موصوف کی ”اصل لاٹری“ مگر 1988ءکے انتخاب میں نکلی۔ پیپلز پارٹی نے مناسب ہوم ورک کئے بغیر راولپنڈی سے قومی اسمبلی کی ایک نشست سے سابق آرمی چیف ٹکا خان کو کھڑا کردیا۔ خان صاحب سادہ طبیعت کے حامل درویش صفت انسان تھے۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے ا±ٹھے زبان دراز نے اپنی جواں سالی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹکا خان صاحب کا بڑھاپا خراب کیا اور انہیں ہراکر ”قومی سطح“ کی مشہوری حاصل کرلی۔
1988ءکی قومی اسمبلی میں پنجاب سے منتخب ہوئے رکن اسمبلی کے لئے ”انقلابی“ شناخت بنانا اور اسے برقرار رکھنا بہت آسان تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں تو آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ نواز شریف تھے جو پیپلز پارٹی کے مخالف سیاستدانوں کی جی کھول کر سرپرستی فرماتے۔ ان دنوں کے صدر اور آرمی چیف بھی پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کو مستحکم وکامیاب ہوتا نہیں دیکھنا چاہ رہے تھے۔ایسے ماحول کا راولپنڈی کی لال حویلی سے اٹھے صاحب نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور عوامی جلسوں میں خاتون وزیراعظم کے خلاف رکیک الفاظ کے استعمال سے بھرپور شہرت کمائی۔ پیپلز پارٹی کےخلاف ریاستی اعتبار سے طاقت ور حلقوں کی سرپرستی نے راولپنڈی کی لال حویلی سے اٹھے صاحب کو عوام کے دلوں میں اشرافیہ کے خلاف پلتے غصے کا ”حقیقی ترجمان“ بنادیا۔ 1994مگر ان کے لئے برا سال ثابت ہوا۔
جہلم کے چودھری الطاف حسین ان دنوں گورنر پنجاب تھے۔محترمہ بے نظیر بھٹو وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹ چکی تھیں۔وہ ان سے ملاقات کے لئے ا سلام آباد آئے ہوئے تھے اور وزیر اعظم سے ملاقات سے قبل مہمانوں کی گیلری میں بیٹھ کر قومی اسمبلی کی کارروائی دیکھنے میںمشغول تھے۔چودھری صاحب کی موجودگی میں راولپنڈی کی لال حویلی سے ا±ٹھے صاحب نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف بازاری زبان استعمال کی۔ محترمہ اس سے بیزار ہوکر اپنی نشست سے اٹھ کر وزیر اعظم چیمبر کو روانہ ہوگئیں۔ اس دن انہوں نے پیلے رنگ کا لباس پہن رکھا تھا۔اس رنگ کی مناسبت سے راولپنڈی کے زبان دراز نے ان کے خلاف انتہائی بےہودہ فقرہ کسا۔ اس فقرے کی وجہ سے محترمہ وزیر اعظم کے چیمبر آئیں تو ان کا چہرہ غصے سے سرخ مگر آنکھوں میں بے بسی نمایاں تھیں۔
چودھری الطاف ان سے ملنے آئے تو فوراََ ان کے جذبات کو بھانپ لیا اور صاف الفاظ میں وزیر اعظم کو آگاہ کیا کہ بطور گورنر پنجاب وہ زبان دراز کو اس کی اصل اوقات یاددلاکررہیں گے۔وزیر اعظم سے گفتگو کے بعد وہ مجھے ملے اور اپنے ہمراہ پنجاب ہا?س میں گورنر کے لئے مختص انیکس میں لے گئے۔ وہاں پہنچتے ہی انہوں نے ٹیلی فون پر انگلیاں گھمانا شروع کردیں۔ چند ہی گھنٹوں بعد دریافت ہوا کہ راولپنڈی پولیس نے لال حویلی سے ممنوعہ بور کی بندوق برآمد کرلی ہے۔مذکورہ برآمدگی کی بدولت زبان دراز کے خلاف دہشت گردی کے ا لزامات کے تحت برق رفتاری سے خصوصی عدالت میں مقدمہ چلا۔ بالآخر سزا یافتہ مجرم کی صورت بہاولپور جیل بھیج دئے گئے۔
اپنے خلاف سنائی سزا کو دلیری سے بھگتنے کے بجائے راولپنڈی سے ابھرا زبان دراز ”معافی تلافی“ کے لئے ہر ممکن واسطے ڈھونڈتا رہا۔ اعتراف کرتا ہوں کہ اس تناظر میں میرا دل بھی پسیچ گیا اور میں نے بھی بارہا چودھری الطاف حسین سے گستاخی کرتے ہوئے التجا کی کہ ”بہت ہوگئی۔ اب معافی درکار ہے“۔ یوسف رضا گیلانی ان دنوں قومی اسمبلی کے سپیکر ہوا کرتے تھے۔انہوں نے بھی اپنی قیادت کو سمجھایا کہ اسمبلی کے قواعد کے مطابق زبان دراز کو ایوان کی کارروائی میں حصہ لینے کی سہولت فراہم کی جائے۔بالآخر یہ سہولت میسر ہوگئی۔ زبان دراز مگر اس کے بعد ہوئے تمام اجلاسوں میں یوں بیٹھے رہے جیسے انہیں سانپ سونگ گیا ہو۔ ان کی خاموشی نے مجھے ان کی ”دلیری“ کی حقیقت سے آگاہ کردیا۔
1996ءکے بعد سے لہٰذا میں نے موصوف کو سنجیدگی سے ایک لمحے کو بھی نہیں لیا۔ ان کا ذکر بھی اس کالم میں نام لئے بغیر راولپنڈی کی لال حویلی سے ا±بھرے ”بقراطِ عصر“کے ذ ریعے ہوتا ہے۔ربّ کا صد شکر کہ گزرے جمعہ کی شام ہمارے بے پناہ لوگوں نے بھی موصوف کی ”دلیری“ کو ایک ٹی وی انٹرویو کی بدولت بخوبی جان لیا ہے۔”اعترافی انٹرویو“ کے بعد موصوف پتلی گلی سے نکل گئے ہیں۔ سینکڑوں بے وسیلہ نوجوانوں کو ا±کسانے کی سزا سے مگر بچ گئے۔”ایجنٹ“ تیلی لگانے کے بعد جان بچانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔