سیکس سے جڑے معاملات پاکستان سمیت بہت سے معاشروں میں آج تک ممنوع موضوعات سمجھے جاتے ہیں جن پر بات چیت کو ’شرمناک‘ سمجھا جاتا ہے۔
سماجی، مذہبی اور ثقافتی قدغنوں کی وجہ سے یہ انتہائی حساس موضوع رہا ہے۔ ایسا ہی ایک موضوع ’فریجیڈیٹی‘ نامی بیماری بھی ہے جو دنیا میں لگ بھگ ہر دو میں سے ایک خاتون کو درپیش ہو سکتا ہے۔
ماہرین کی مدد سے ہم نے اس بیماری کی ممکنہ وجوہات اور نتائج سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
فریجیڈیٹی (جنسی خواہش کی کمی) کیا ہوتی ہے؟
یہ عام زبان میں استعمال ہونے والا لفظ ہے تاہم یہ خواتین میں جنسی خواہش کی کمی کی تعریف بھی ہے جو سیکس کے دوران جسمانی اور نفسیاتی لذت میں عدم دلچسپی کو بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایسی کیفیت سیکس کے دوران متاثرہ خاتون کو ہیجان شہوت سے محروم کر سکتی ہے۔
ماہرین کی رائے میں اس کیفیت کی وجہ سے خواتین خود کو ذمہ دار قرار دے کر احساس جرم میں مبتلا ہو سکتی ہیں اس لیے اس بیماری کے لیے ’آرگیمزک ڈس فنکشن‘ کی اصطلاح بھی استمعمال کی جاتی ہے۔
جین پال ایک کلینکل ماہر جنسیات ہیں، جن کا کہنا ہے کہ اس بیماری پر بات کرنے سے قبل سماجی اور ثقافتی ماحول کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔
یہ ممنوعہ موضوع کیوں ہے؟
ڈاکٹر ایڈرین ونیسا نے ایسے بہت سے مریض دیکھے جن کو سیکس کی خواہش کی کمی یا جنسی عدم اطمینان کی شکایت تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جنسی آزادی میں عورت کو مرد کے برابر کا درجہ نہیں مل سکا جس میں وہ سیکس کو تفریح کا ذریعہ سمجھیں۔‘
ان کے مطابق ’فریجیڈٹی کے بارے میں بات کرنے کا مطلب ہے کہ عورت کو اپنی جنسی زندگی کے بارے میں بات کرنا ہو گی جو (بہت سے معاشروں میں) آسان نہیں ہوتا۔‘
’اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں ایک جوڑے کی جنسی زندگی کی تمام تر ذمہ داری عورت کے حصے میں آتی ہے اور اگر وہ سیکس کی خواہش میں کمی کی شکایت کرے تو یہ ایک مسئلہ بن سکتا ہے۔‘
جین پال کا کہنا ہے کہ ’سیکس ایک انسانی ضرورت ہے جیسے خوراک۔ اور جب اس میں خرابی پیدا ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی مسئلہ ہے۔ لیکن اس بارے میں سوال سے لوگ شرمندہ ہو سکتے ہیں تو اسی لیے یہ ایک ممنوعہ موضوع تصور ہوتا ہے جس پر بات کرنا مشکل ہے۔‘
فریجیدیٹی کی وجوہات کیا ہوتی ہیں؟
اس جنسی بیماری کی وجوہات جسمانی بھی ہو سکتی ہیں اور نفسیاتی بھی۔
نفسیاتی وجوہات میں پریشانی، جنسی تشدد سمیت دیگر وجوہات شامل ہو سکتی ہیں جن سے غصے یا شرم کا احساس سیکس سے جڑ جائے۔ اس کے علاوہ شراب نوشی، تمباکو نوشی یا منشیات کا استعمال بھی اس کی وجہ بن سکتا ہے۔
ڈاکٹڑ انجیول کا کہنا ہے کہ ’کسی فرد میں ہیجان شہوت کا حصول عمر، تعلیمی قابلیت، مذہب، شخصیت یا رشتے کی نوعیت سے بھی جڑا ہو سکتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سیکس کے آغاز میں ہیجان شہوت مشکل سے حاصل ہوتی ہے اس لیے جب کوئی مریض ہمارے پاس آتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ ایک عام مسئلہ ہے اور سیکس سے عادی ہونے میں خواتین کو کافی وقت لگ سکتا ہے اور اسی لیے عام طور پر شرم کا احساس حاوی ہو جاتا ہے۔‘
عمر کے علاوہ جسمانی صحت یا ذہنی اور نفسیاتی صحت کا بھی ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی بھی چیز متاثر ہو تو اس کا اثر سیکس پر ہو سکتا ہے۔
کوئی عورت جو ایسی کیفیت سے گزر رہی ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ نفسیاتی علاج کروا رہی ہو یا پھر ماہواری کے دوران غدود کی وجہ سے متاثر ہو یا یہ بھی ممکن ہے کسی بھی وجہ سے اس کی جسمانی صحت اسے سیکس کی خواہش میں کمی کے مسئلے سے دوچار کر رہی ہو۔
اس مسئلے کا علاج کیا ہے؟
اس مسئلے کا کوئی مخصوص علاج نہیں ہے کیوں کہ اس کا دارومدار وجوہات پر ہوتا ہے۔
اگر مسئلہ نفسیاتی ہے تو کسی ماہر نفسیات یا سیکس کے ماہر سے رجوع کرنا چاہیے یا پھر میاں بیوی دونوں ہی تھراپی حاصل کر سکتے ہیں۔
ایسی ادویات جو کسی ذہنی بیماری کے لیے استعمال کی جا رہی ہوں، وہ بھی اس مسئلے کی وجہ بن سکتی ہیں۔
جین پال کا کہنا ہے کہ ’اب تک ایسا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا جو اس مسئلے کو حل کر سکے۔ تاہم میں نے افریقی پودوں سے ایک ایسی دوائی تیار کی ہے جو کسی حد تک مدد کر سکتی ہے۔‘
ڈاکٹر ایڈریئن کا کہنا ہے کہ ’ایسی خواتین جو سیکس میں عدم دلچسپی کے مسئلے سے دوچار ہوتی ہیں ان کے لیے دیگر راستے موجود ہوتے ہیں جیسا کہ مالش یا خودلذتی۔ ان کے مطابق یہ ضروری ہے کہ مرد اور خواتین سیکس کے دیگر ذرائع کی اہمیت کو تسلیم کریں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے مریضوں سے بات کی کہ ’کیسے وہ اپنے جسم کو جان سکتے ہیں اور خصوصاً خواتین جسم کے مختلف حصوں کو پہچان کر لذت کا احساس حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔‘
کوگنیٹیو بیہیویرل تھراپی اور سیکس تھراپی ایسے مسائل کا سامنا کرنے والے مریضوں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر ونیسا کا کہنا ہے کہ ’میں گوکنیٹیو اور بیہیویریل تھراپی کے ذریعے نفسیاتی علاج کرتی ہوں۔ بہت سی خواتین کے لیے جنسی خواہشات کا اظہار کرنا مشکل ہوتا ہے تو میں انھیں اعتماد حاصل کرنے میں مدد فراہم کرتی ہوں۔ مقصد یہ ہے کہ آپ اپنے جسم پر کنٹرول حاصل کریں۔‘
کیا فریجیڈیٹی خاتون یا جوڑوں کے تعلقات کو متاثر کرتی ہے؟
یہ کیفیت اعتماد میں کمی یا ڈپریشن تک کی وجہ بن سکتی ہے۔ کسی خاتون کے لیے جنسی لذت سے محرومی کافی متاثر کن ہوتی ہے جو رشتوں میں مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔
جین پال کا کہنا ہے کہ ’جب ہم کام پر، یا دوستوں کے ساتھ یا خاندان والوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور کوئی اپنی جنسی زندگی کے بارے میں بات کرے تو ہم اکثر مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں جس کے اثرات کام پر، ہماری ذات پر، آپ کے شریک حیات پر حتی کہ بچوں پر بھی پڑ سکتے ہیں۔‘
’ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر خواتین بچوں پر خوامخواہ ہاتھ اٹھاتی ہیں کیوں کہ وہ تنہا محسوس کرتی ہیں اگرچہ وہ شادی شدہ ہوتی ہیں لیکن وہ شادی کے تعلق سے لطف اندوز نہیں ہو رہی ہوتیں۔‘
ڈاکٹر ایڈریئن کے مطابق ’یہ کیفیت تعلقات میں مسائل پیدا کرتی ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی عورت اپنے خاوند کی خواہش نہ کرے، اسے اپنے شوہر سے ملاپ میں لذت محسوس نہ ہو؟ ایسے میں مرد سوچ سکتا ہے کہ اس کی بیوی اسے سزا دے رہی ہے اور یوں شادی کا بندھن مشکل میں پڑ سکتا ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کیفیت کو شکست دی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ جنسی پارٹنر صبر کرنے والا اور سمجھدار ہو جو عورت کو یہ احساس نہ دلائے کہ مسئلہ اس میں ہے بلکہ ایسی علامات ظاہر ہونے پر بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرے۔