پاکستان انڈیا میچ سے ایک روز پہلے پاکستانی اور انڈین ٹی وی چینلز پر ’ٹاکرا‘ نامی پروگرامز چلنا اب ایک روایت بن چکی ہے۔
یہ دراصل میچ سے قبل طبلِ جنگ بجانے کی ایک پھیکی سی کوشش ہوتی ہے جس کے ذریعے دونوں ملکوں کے مداحوں کے لہو گرمانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
گذشتہ ایک دہائی میں اگر انڈیا اور پاکستان کے درمیان میچوں پر نظر ڈالیں تو اکا دکا ہی صحیح معنوں میں اس محنت کا جواز دے پائے ہیں جو میڈیا پر ان میچوں سے پہلے کی جاتی ہے۔
اسی عرصے میں ایک اور ایسا ’ٹاکرا‘ ہے جس نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنا مقام بنا لیا ہے۔ یہ پاکستان اور افغانستان کا میچ ہے جو ایک ایسی سنسنی خیز ایکشن فلم جیسا بن چکا ہے جو ہر گزرتے سال کے ساتھ دلچسپ ہوتی جا رہی ہے۔
دونوں ٹیمیں بڑے ٹورنامنٹس میں جب بھی میدان میں اتری ہیں پاکستان ہی فاتح لوٹا ہے لیکن یہ فتوحات شکست کے بہت قریب جا کر حاصل کی گئی ہیں۔
ان میچوں سے پہلے عموماً پاکستانی مداحوں کی بے چینی عیاں ہوتی ہے، یہ وہ موقع ہوتا ہے جب آئی سی سی کی درجہ بندیاں اور اعداد و شمار کچھ زیادہ معنی نہیں رکھتے۔ جیسے یہ کہ پاکستان ون ڈے رینکنگ میں دوسرے نمبر پر ہے اور افغانستان نویں اور یہ کہ پاکستان کو افغانستان نے آج تک ون ڈے کرکٹ میں کبھی شکست نہیں دی۔
سنہ 2019 کے ون ڈے ورلڈ کپ کا گروپ میچ ہو، سنہ 2022 کے ایشیا کپ کے سپر فور مرحلے کا میچ یا سنہ 2021 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا گروپ میچ سب ہی میں معاملات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ شکست یقینی نظر آ رہی تھی۔
تاہم کبھی عماد وسیم اور وہاب ریاض، کبھی شعیب ملک اور آصف علی اور کبھی نسیم شاہ پاکستان کو اس صورتحال سے نکالنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
اس مرتبہ پاکستان افغانستان میچ ورلڈ کپ سے کئی ماہ قبل اس وقت زیرِ بحث آیا تھا جب پی سی بی کی جانب سے اس کے شیڈول میں تبدیلی کی غیر معمولی درخواست کی گئی تھی۔ یہ میچ گراؤنڈ کے اندر ہونے والے واقعات کے ساتھ ساتھ اس سے باہر ہونے والے جھگڑوں اور سوشل میڈیا ٹرینڈز کے باعث بھی خاصا بدنام ہے۔
ورلڈ کپ کا یہ میچ ایک ایسے ماحول میں ہونے جا رہا ہے جب پاکستان کی جانب سے ملک میں مقیم افغان پناہ گزینوں کو ملک چھوڑنے کے لیے 31 اکتوبر کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔ ملک میں ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ پاکستان کی سکیورٹی صورتحال اور یہاں تک کہ معاشی بحران، خصوصاً ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں گراوٹ کی مبینہ ذمہ داری افغانستان پر آتی ہے۔
اس تحریر میں ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کیا وجہ تھی کہ پی سی بی کو ورلڈ کپ شیڈول کے اعلان سے قبل آئی سی سی کو چنئی میں افغانستان کے ساتھ میچ نہ رکھنے کی درخواست کرنی پڑی اور پاکستان سے رینکنگ میں کئی درجہ نیچے موجود افغانستان کی ٹیم کے ساتھ پاکستان کا میچ ’ٹاکرے‘ میں کب اور کیسے تبدیل ہوا؟
پاکستان افغانستان سے چنئی میں کیوں نہیں کھیلنا چاہتا تھا؟
جون میں جب آئی سی سی کی جانب سے ورلڈ کپ کے شیڈول کا اعلان کیا گیا تو اس سے چند روز پہلے کرکٹ پر تجزیے اور تبصرے کرنے والی ویب سائٹ کرک انفو پر شائع ہونے والی تحریر میں پاکستان کے شیڈول کے حوالے سے بڑے انکشاف کیے گئے تھے۔
اس تحریر میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان کی جانب سے آئی سی سی سے آسٹریلیا اور افغانستان کے خلاف میچوں کے شیڈول میں تبدیلی کی درخواست کی گئی تھی جس کے باعث وہ دونوں میچوں میں ’فیورٹ‘ بن جائے گا۔
پی سی بی اور آئی سی سی کی اس لیکڈ بات چیت سے عام تاثر یہ ملا کہ پاکستان چنئی میں افغانستان سے اس لیے کھیلنے سے خائف ہے کیونکہ چنئی کی پچ سپنرز کے لیے سازگار سمجھی جاتی ہے اور افغان سپنرز جو کہ آئی پی ایل کے دوران بہترین بولنگ کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں اس کا بھرپور فائدہ اٹھا کر پاکستانی بلے بازوں کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ رواں برس مارچ میں افغانستان نے شارجہ میں کھیلی جانے والی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں پاکستان کو 2-1 سے شکست دی تھی۔ ان میچوں کے دوران یوں تو پاکستان نے اپنے سینیئر کھلاڑیوں کو آرام کا موقع دیا تھا لیکن سپنرز کو مدد دینے والی ان کنڈیشنز میں افغان بولرز نمایاں طور پر حاوی نظر آئے تھے۔
اس حوالے سے پی سی بی کے اس وقت کے ترجمان سمیع الحسن برنی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آئی سی سی کی جانب سے شیڈول جاری کرنے سے پہلے کرکٹ بورڈز کو بھیجا جاتا ہے اور تمام بورڈز اس پر اپنی آرا سے آگاہ کرتے ہیں اور عموماً آئی سی سی صرف سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ہی شیڈول یا گراؤنڈ میں تبدیلی کرتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہماری آئی سی سی سے اس بارے میں ہونے والی گفتگو لیک ہو گئی جس کے باعث ایک غلط تاثر گیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘
اگر پاکستانی بیٹنگ کا جائزہ لیا جائے تو گذشتہ کچھ عرصے کے دوران کپتان بابر اعظم بالخصوص سپنرز کے سامنے ہچکچاہٹ کا شکار دکھائی دیے ہیں اور اس ورلڈ کپ میں آسٹریلیا اور نیدر لینڈرز کے خلاف میچ میں سپنرز کے ہاتھوں ہی آؤٹ ہوئے ہیں۔
اسی طرح افتخار احمد بھی سپنرز خصوصاً لیگ سپنرز کے خلاف پر اعتماد دکھائی نہیں دیتے۔ اس کے علاوہ ماضی میں افغان سپنرز پاکستان کے خلاف چھوٹے ٹوٹل کا دفاع کرتے ہوئے بھی اچھی کارکردگی دکھا پائے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان آج اپنا میچ اسی پچ پر کھیلے گا جس پر آسٹریلیا اور انڈیا کے درمیان آٹھ اکتوبر کو میچ کھیلا گیا تھا اور آسٹریلیا کی ٹیم پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے صرف 199 رنز ہی بنا سکی تھی۔
پاکستان افغانستان میچ ’ٹاکرے‘ میں کیسے تبدیل ہوا؟
80 کی دہائی کے اواخر میں جب افغانستان اس وقت کی دو سپر پاورز امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ کا میدان بنا تو اس دوران اقوامِ متحدہ کے مطابق افغانستان سے 30 لاکھ کے قریب افغان پناہ گزین پاکستان منتقل ہوئے۔
افغان کرکٹ کی تاریخ لکھنے والے اکثر افراد کے مطابق افغانستان میں کرکٹ کی بینیاد انھی پناہ گزین کیمپوں میں رکھی گئی تھی۔ وقت کے ساتھ جب افغانستان میں کرکٹ کا ڈھانچا بہتر ہونے لگا تو پاکستان سے متعدد کوچز نے افغان ٹیم کی کوچنگ کی جن میں کبیر خان اور انضمام الحق شامل ہیں۔
تاہم پھر کچھ بی سی سی آئی اور انڈیا کی افغان کرکٹ میں گہری دلچسپی تھی اور کچھ 31 مئی 2017 کا کابل دھماکہ تھا جس نے پاکستان اور افغانستان کے بورڈز کے تعلقات ہمیشہ کے لیے بدل دیے تھے۔ اس دھماکے نے کیسے دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ کے رشتے کو متاثر کیا، مزید تفصیلات کرکٹ تجزیہ کار سمیع چوہدری کے اس کالم میں جس کا ایک اقتباس کچھ یوں ہے کہ:
’یہ تو آج تک واضح نہیں ہو سکا کہ کابل دھماکے کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا مگر یہ حقیقت ہے کہ جیسے ممبئی حملوں نے پاکستان انڈیا تعلقات کی سمت بدل دی تھی، ویسے ہی کابل دھماکے نے بھی پاک افغان کرکٹ تعلقات کا رخ موڑ دیا اور ہمہ وقت پی سی بی کے احسانات کا دم بھرنے والی افغان کرکٹ دوطرفہ رقابت کی اس سطح پہ آن پہنچی جہاں پہنچتے پہنچتے پاکستان انڈیا کرکٹ کو دہائیوں کا سفر طے کرنا پڑا تھا۔‘
دونوں ٹیمیں اس کے بعد جب سنہ 2019 کے ورلڈ کپ میں آمنے سامنے آئیں تو میچ ہارنے کے بعد تماشائیوں کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر خاصی وائرل ہوئیں اور آئی سی سی کی جانب سے اس کا نوٹس بھی لیا گیا۔
اس کے بعد سے اب جب بھی افغانستان اور پاکستان کا میچ ہوتا ہے تو صورتحال گراؤنڈ یا گراؤنڈ سے باہر کشیدہ رہنے کا خدشہ رہتا ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر افغانستان کی انڈیا سے شکست کے بعد پاکستان میں چلنے والے ٹرینڈز میں افغان کھلاڑیوں کو مختلف القابات سے نوازا جاتا رہا ہے۔
ایسا ہی سنہ 2021 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی ہوا تھا۔ اس سے چند ہی ماہ قبل افغانستان میں طالبان دوبارہ کنٹرول سنبھال چکے تھے اور پاکستان کے اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کو کابل میں اسی دوران دورہ کرتے دیکھا گیا تھا۔
طالبان کے ملک پر کنٹرول سنبھالنے کے بعد ہزاروں افغان شہریوں کو ملک چھوڑنا پڑا تھا اور اس ساری صورتحال میں پاکستان کے کردار پر طالبان مخالف افراد کی جانب سے خاصی تنقید کی جاتی رہی ہے۔
صحافی اور مصنف محمد حنیف نے اس دوران بی بی سی اردو کے لیے لکھے گئے کالم ’ہمارے نمک حرام بھائی‘ میں سوال کیا تھا کہ ’۔۔۔اب ہم کیا چاہتے ہیں؟ کہ افغانستان انڈیا کو بھی شکست دے۔ پہلے مجاہدین سے یہ امید تھی کہ وہ طالبان سے اپنا ملک آزاد کروانے کے بعد ہمیں کشمیر آزاد کروا کر دیں گے۔‘
تاہم کرکٹ کے میدان پر صورتحال نے سنہ 2022 میں اس وقت طول پکڑا تھا جب ایشیا کپ کے ایک میچ کے دوران آصف علی اور افغان بولر فرید احمد کے درمیان بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی تھی۔
اس میچ میں افغانستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں 129 رنز بنائے تھے جواب میں پاکستان کے 119 رنز پر نو کھلاڑی 19ویں اوور کے اختتام پر پویلین لوٹ گئے تھے۔ نویں وکٹ آصف علی کی ہی گری تھی اور انھیں آؤٹ کرنے کے بعد فرید احمد نے جب جشن منایا تو بات تلخ کلامی سے ہاتھ پائی تک پہنچی۔
اس کے بعد نسیم شاہ کی جانب سے دو یادگار چھکے مارے گئے اور پاکستان یہ میچ آخری اوور میں ایک وکٹ سے جیتنے میں کامیاب ہوا تھا۔ اس میچ کے بعد بھی شارجہ کرکٹ گراؤنڈ میں افغان تماشائیوں کی جانب سے کرسیاں پھینکنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس کے بعد شارجہ میں انتظامیہ کی جانب سے کارروائی کی گئی تھی۔
یہی صورتحال حالیہ پاکستان افغانستان سیریز کے دوسرے ون ڈے میں بھی دیکھنے کو ملی تھی جب پاکستان کو آخری اوور میں 10 رنز درکار تھے اور شاداب خان کو نان سٹرائکر اینڈ پر فضل الحق فاروقی کی جانب سے رن آؤٹ کر دیا گیا تھا۔
ایسے میں ایک مرتبہ پھر نسیم شاہ نے پاکستان کو فتح سے ہمکنار کیا تھا۔ آج پاکستان کے پاس نسیم شاہ کی خدمات موجود نہیں ہوں گی کیونکہ وہ ایشیا کپ میں انجری کا شکار ہونے کے باعث ورلڈ کپ سے باہر ہو گئے تھے۔
اس ورلڈ کپ میں پاکستان لگاتار دو میچ جیتنے کے بعد اگلے دونوں میچ انڈیا اور آسٹریلیا سے ہار چکا ہے اور اس کے لیے یہ میچ جیتنا انتہائی اہم ہے۔
دوسری جانب افغانستان کی ٹیم دفاعی چیمپیئن انگلینڈ کو شکست دے چکی ہے اور ایک سازگار پچ پر پاکستان سے مدِ مقابل ہے اور امید ہے کہ ایک اور سنسنی خیز ٹاکرا شائقین کا منتظر ہے۔