Site icon DUNYA PAKISTAN

حمل اور باڈی شیمنگ: ’مجھے نہیں معلوم حاملہ ہونا کب سے بے غیرتی اور بے حیائی ہو گئی‘

Share

’جب پیٹ بڑا ہوتا تھا تو مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ درحقیت میں خوش ہوتی تھی کہ واہ دیکھو ہو کیا رہا ہے۔‘

یہ الفاظ ایک یوگا ٹیچر راستی سعید کے ہیں جو پچھلے سال پہلی بار ماں بنیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ حاملہ ہونے پر بے حد خوش تھیں لیکن دوسرے لوگ اُن کے بڑھتے جسم کو دیکھ کر طرح طرح کی باتیں کرتے تھے۔

’دوسرے لوگ مجھے کہتے رہتے تھے کہ نظر لگ جائے گی، اس کو کور کر دیں، اچھا نہیں لگتا، پیٹ نہیں دکھانا چاہیے، دوپٹہ پہن کر جانا۔‘

راستی وہ واحد عورت نہیں ہیں جنھیں دورانِ حمل لوگوں کی ایسی باتوں کو جھیلنا پڑا۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے یو این ایف پی اے کے مطابق پاکستان میں ہر سال قریبا 56 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں۔

دورانِ حمل عورتوں کی جسمانی ساخت میں تبدیلی لازمی ہے جس کی وجہ سے وہ خود مختلف کیفیات کا شکار ہوتی ہے لیکن دوسروں کے تبصرے اکثر اُنھیں الجھا دیتے ہیں۔

اداکارہ مریم انصاری کے ہاں اسی سال پہلی اولاد ہوئی۔ وہ بتاتی ہیں کہ زچگی کے دوران اُن سے کہا گیا کہ ’روٹی نہیں کھاؤ، موٹی ہو جاؤ گی، چاول نہیں کھاؤ یہ ہو جائے گا، ابھی تو تمھارے اتنے بال گریں گے، ابھی جب بچہ ہو جائے گا تو دیکھنا، بہت ایسی عجیب عجیب باتیں کہ اوہ ابھی تو فرسٹ ٹرائے میسٹر ہے آگے آگے دیکھو کیا ہوتا ہے۔‘

حاملہ عورتیں چاہے کسی طبقہ سے ہوں، زچگی کے دوران ان کی نقل و حمل محدود کر دی جاتی ہے۔

ثمین نواز ایک صحافی ہیں اور بچہ کی ولادت کے بعد حال ہی میں انھوں نے اپنا ادارہ جوائن کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’خواتین کے لیے یہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ اب چونکہ یہ اس مرحلے سے گزر رہی ہیں لہذا ان کو چار دیواری میں بیٹھ جانا چاہیے، اِن کو دنیا کے سامنے اپنے جسم کی نمائش نہیں کرنی چاہیے۔‘

’مجھے نہیں معلوم حاملہ ہونا کب سے بے غیرتی اور بے حیائی ہو گئی‘

یوگا ٹیچر راستی سعید کراچی میں اپنا ایک یوگا سینٹر چلاتی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ دورانِ زچگی انھیں مختلف باتیں سننے کو ملیں۔

راستی کے بقول ’کمنٹس تو لازمی بات ہے لوگوں نے بہت فقرے کسے کہ کولہے پھیل گئے ہیں، اتنی بڑی ہو گئی ہوں، بچہ تو تمھارے سے بڑا لگ رہا ہے، پیر کھول کے نا چلا کرو یوٹریس نیچے آ جائے گا، پریگنینسی جلدی ہو جائے گی۔‘

راستی نے اس دوران ہونے والا ایک واقعہ بھی بتایا کہ جب وہ حاملہ تھیں تو ایک نیوز چینل نے اُن کے ساتھ ایک سیگمنٹ شوٹ کیا لیکن اُسے ایئر نہیں کیا۔ مینجمنٹ کے مطابق وہ سیگمنٹ نامناسب ہے کیونکہ وہ حاملہ ہیں۔

راستی نے بتایا کہ ’انھوں نے بولا تھا کہ مناسب نہیں ہے کہ ہم اس کو ایئر کریں کیونکہ میں پریگننٹ ہوں۔ مجھے تھوڑا سا شاک لگا کہ اس میں آخر غلط کیا ہے؟ اس میں نہ دکھانے والی بُری بات کیا ہے۔‘

راستی نے جب سارا معاملہ سوشل میڈیا پر تحریر کیا تو انھیں لوگوں سے کافی سپورٹ ملی اور نیوز چینل نے اُن کو باقاعدہ بُلا کر ایک سیگمنٹ شوٹ کرایا جس میں زچگی سے متعلق مغالطوں پر بات کی گئی۔

ادکارہ مریم انصاری نے بیٹی کے پیدا ہونے کے بعد دورانِ زچگی کرائے جانے والے فوٹو شوٹ کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کیں تو اُنھیں اس حد تک منفی تبصرے اور پیغامات ملے کہ انھوں نے اپنا سوشل میڈیا ہی ڈی ایکٹویٹ کر دیا۔

مریم نے جواب میں ایک ویڈیو ریلیز کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ حاملہ ہونا کب سے بدتمیزی، بے غیرتی اور بے حیائی ہوگئی۔ آپ بھی ایسے ہی پیدا ہوئے تھے۔ دہرے معیارات۔۔۔ کوئی حاملہ ہو تو آپ اُسے مبارک باد دو اور اُس کو دُعائیں دو۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مریم نے بتایا کہ انھوں نے پورے کپڑوں میں دورانِ زچگی اس لیے شوٹ کرایا تھا کہ وہ اپنی پہلی اولاد کی ولادت سے پہلے کے لمحات کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ رکھ سکیں۔

’جب امایا پیدا ہوئی تو میں نے سوچا کہ یہ ایک اچھا موقع ہے جب میں اسی چیز کو لگا کر اعلان کروں اور اپنے سارے مداحوں کو سوشل میڈیا پر بتاؤں کہ ماشااللہ میرے گھر بیٹی ہوئی ہے۔‘

لیکن اُن کے فوٹو شوٹ کو بہت بُرا سمجھا گیا، اُنھیں طعنے دیے گئے اور لوگوں نے اُن کی خوشی کو دکھ میں بدل دیا۔

مریم نے بتایا کہ’ کہا گیا کہ جیسے تم مسلمان نہیں ہو، کلچر کے بارے میں لکھا کہ یہ تو انگلش کلچر ہے تو جس پر میں نے جواب بھی دیا کہ کیوں کیا پاکستانیوں کے بچے نہیں پیدا ہوتے؟ کیا مسلم عورتیں پریگننٹ نہیں ہوتیں؟‘

انھوں نے کہا کہ بہت سے لوگوں نے مثبت پیغامات یعنی مبارکباد بھی دیے لیکن منفی پیغامات کی تعداد زیادہ تھی۔

’جب مجھ کو اتنی تنقید ملی تو میں جذباتی طور پر بہت بریک ڈاؤن کر گئی۔ میں بہت کمزور ہو گئی۔‘

صحافی ثمین نواز نے زچگی کے بعد حال ہی دفتر جوائن کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’ہماری اپنی فیلڈ کے کچھ لوگ تھے جو پوائنٹ آوٹ کرتے تھے کہ اگر آپ کنٹرول نہیں کر پا رہے ہو تو اس طرح سے کرو کہ باڈی کور کرکے رکھو۔‘

ان باتوں کی وجہ سے انھوں نے بہتر سمجھا کہ وہ کچھ عرصہ کے لیے فیلڈ میں ہی نہ جائیں۔ ثمین نے بتایا کہ انھوں نے یہ فیصلہ کیوں لیا۔

’شاید میں اُن رویوں سے اور اُس ذہنی دباؤ میں مبتلا نہ ہوں جو اُس دوران مجھے ہونے لگی تھی۔ جو یقینا ناصرف میرے لیے بلکہ میرے ہونے والے بچہ کے لیے بھی نقصان دہ ہو سکتی تھی۔‘

’گھر سنبھالنا سب سے مشکل کام ہوتا ہے‘

شاید معاشرے میں بنے حُسن کے مخصوص پیمانوں کے پیشِ نظر ایک حاملہ عورت کو بھی اُس کے بڑھتے جسم پر شرمندہ کر دیا جاتا ہے۔ جسم چھپانے، ڈھانپنے اور شرم دلانے کے لیے کیے جانے والے اِن تبصروں سے عورتوں کی زندگی کتنی متاثر ہوتی ہے۔

ثمین نواز کہتی ہیں کہ جب انھوں نے چھ سے آٹھ ماہ تک کام کی نوعیت بدلی تو اُن کی آمدنی متاثر ہوئی لیکن کام کو زیادہ وقت دینا پڑا۔

راستی سیعد نے کہا کہ ’ادھر ادھر سے لازمی کمنٹس ملتے ہیں لیکن اُس وقت میں اپنے آپ سے اتنی خوش تھی کہ واقعی مجھے کوئی اثر نہیں پڑا۔‘

اداکارہ مریم انصاری کا ماننا ہے کہ ’عورت ایک سپر پاور ہوتی ہے‘ اور اس کا احساس انھیں زچگی کے دوران ہوا۔ مریم نے دورانِ زچگی عام دنوں سے زیادہ کام کیا۔

’میں نے اپنا بزنس شروع کیا، اپنے شوہر کے ساتھ مل کے اپنا سٹوڈیو کھولا، میں نے ورک آوٹ کرایا، کلاسز دیں، خود بھی ورک آوٹ کیا، اپنی لاء ڈگری مکمل کی، اپنی شوٹس کیں، اپنی کیمپینز کیں، میرا خیال ہے میرا صرف نواں مہینہ تھا جہاں میں نے بریک لیا۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’میری طرح بہت ساری عورتیں ہیں جو دورانِ زچگی کام بھی کرتی ہیں، اپنےگھر سنبھالتی ہیں اور میں ایک بات کہنا چاہوں گی کہ گھر سنبھالنا سب سے مشکل کام ہوتا ہے۔‘

’حاملہ عورت کی ہر چیز میں چوائس ہونی چاہیے‘

ماہرین کہتے ہیں کہ ماں بننے والی عورتوں کے لیے ذہنی تناؤ بے حد نقصان دہ ہے لیکن حاملہ عورتیں چاہے گھروں میں ہوں یا کام کرنے باہر نکلتی ہوں، تبصروں سے بچ نہیں پاتیں۔ ایسی عورتوں کے لیے آئیڈیل ماحول کیا ہوگا؟

یہ سوال کیا تو راستی جھٹ بولیں کہ ’جس میں سب لوگ اپنے کام سے کام رکھیں، حاملہ عورتوں کو بھی کام کرنے دیں، اگر ان کو گھر بیٹھنا ہے ان کو گھر بیٹھنے دیں، اگر ان کو محنت کرنی ہے تو اُن کو محنت کرنے دیں، اگر اُن کو تفریح کرنی ہے تو تفریح کرنے دیں۔ بنیادی طور پر اس دنیا میں عورت کی خصوصا حاملہ عورت کی ہر چیز میں چوائس ہونی چاہیے، یہ لازمی ہے۔‘

ثمین نواز کہتی ہیں کہ ’جس طرح سے ہمارے گولیگز ہیں یا فیلڈ کے دوران کام کرنے والے لوگ ہیں، اُن کو بھی اس چیز کو سوچنا چاہیے کہ اگر کوئی خاتون باہر نکل کے کام کر رہی ہے اور وہ ایک قدرتی عمل سے گزر رہی ہے تو اُس کو ڈسکس نہیں کرنا چاہیے۔‘

’اُس کو اُس کے کام کرنے دینا چاہیے، اور اگر آپ اتنا ہی ضروری سمجھتے ہیں اُس کو کوئی مشورہ دینا تو اُس کو اس انداز میں دینا چاہیے کہ سامنے والے کو بُرا بھی نہ لگے اور آپ اپنی بات اُس تک پہنچا بھی دیں۔‘

Exit mobile version