افغانستان نے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو پیر کے روز ہوئے ورلڈ کپ کے ایک میچ میں تاریخی شکست سے دو چار کیا۔ کرکٹ کا شیدائی نہ ہونے کے باوجود میں افغان ٹیم کی مہارت،اعتماد اور نظم سے بہت متاثر ہوا۔ ”رنگ“ میں لیکن جلد ہی ”بھنگ“ ڈل گئی۔ جو مقابلہ ہوا اس کی بدولت مین آف دی میچ قرار پائے افغان کھلاڑی کا نام غالباََ ابراہیم زدران تھا۔انعام وصول کرنے وہ سٹیج پر آیا تو اپنی جیت کو افغان مہاجرین کے نام کردیا جو اس کی دانست میں پاکستان سے جبراََ بے دخل کئے جارہے ہیں۔ہمارے ازلی دشمن بھارت کی گراﺅنڈ میں دنیا بھر میں پھیلے کرکٹ کے لاکھوں شائقین کے لئے افغان کھلاڑی کی جانب سے کیمروں کے ہجوم کے روبرو اداشدہ الفاظ نے ہمارے امیج کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ روایتی سفارت کاری کی بدولت اس کا ازالہ ممکن ہی نہیں۔
اس کالم کے باقاعدہ قاری بآسانی یاد کرسکتے ہیں کہ آج سے دو سال قبل جب افغانستان سے امریکی افواج کا ا نخلاءیقینی نظر آناشروع ہوا تومیں تواتر سے اقوام کی ”اجتماعی یادداشت“ کا ذکر کرتا رہا۔ بطور صحافی کئی بار افغانستان گیا ہوں۔اپنے کئی تجربات کا حوالہ دیتے ہوئے فریاد کرتا رہا کہ افغان عوام کی اکثریت پاکستان کو اپنا ”محسن“ شمار نہیں کرتی۔ ان کی بے پناہ تعداد بلکہ یہ سوچتی ہے کہ پاکستان نے امریکہ کو خوش رکھنے کی خاطر 1980ءکی دہائی میں ”جہاد“ کی سرپرستی کی اور بعدازاں جنرل مشرف کے دور میں نام نہاد ”وار آن ٹیرر“ کا کلیدی اتحادی بن کر بے تحاشہ ڈالر کمائے۔
ایک طویل جنگ کے ذریعے ”غلامی کی زنجیریں“ توڑ کر ا مریکہ کو ”افغانستان سے بھگانے“ والے طالبان بھی ہمیں کمزور ایمان والے تصور کرتے ہیں۔نظریاتی اعتبار سے وہ ہمارے سیاسی نظام کو ”اسلامی“ شمار نہیں کرتے۔اسی باعث ہمارے ہاں کے مذہبی انتہا پسندوں کے بارے میں ہمدردی کے جذبات رکھتے ہیں۔مذکورہ انتہا پسند افغانستان سے امریکہ کے انخلاءکے بعد پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے میں مصروف ہوگئے۔ عمران حکومت اور اس کے ساتھ ”سیم پیج“ پربیٹھے ”ماہرین قومی سلامتی“ کی یہ خام خیالی تھی کہ امریکہ کے خلاف جنگ کے اختتام کے بعد پاکستان سے افغانستان منتقل ہوئے انتہا پسندوں کو اگر وطن لوٹ کر عام شہریوں کی طرح زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کردئے جائیں تو ہمارے ہاں امن وامان یقینی بن جائے گا۔ انہیں پاکستان لوٹنے کی ترغیب دیتے ہوئے یہ حقیقت احمقانہ انداز میں فراموش کردی گئی کہ مذہبی انتہا پسندی کی بنیاد پر متشدد ہوئے عناصر معمول کی زندگی گزارنے کے قابل ہی نہیں رہتے۔ ”جہاد“ ان کا طرز زندگی بن جاتا ہے۔اس کے بغیر وہ زندگی بسر کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
بہرحال سوچے سمجھے بغیر اپنائی پالیسی کی بدولت پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ہولناک حد تک اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ طالبان حکومت ان واقعات کا ذمہ دار داعش جیسی تنظیموں کو ٹھہراتی ہے جو ان کے اقتدار کو بھی تسلیم نہیں کرتیں۔طالبان کے ”انصار“ رہے پاکستانی طالبان بھی تاہم کئی واقعات میں واضح انداز میں ملوث رہے ہیں۔ طالبان سے ان کا ذکر کرو تو وہ ایسے عناصر کے ساتھ ”مذاکرات“ کا مشورہ دیتے ہیں۔اپنے ہاں پناہ گزین ہوئے طالبان کے خلاف ازخود کارروائی کرنے کو آمادہ نہیں۔
ایسے حالات میں جب دہشت گردی کی تقریباََ ہر دوسری واردات کے پیچھے نہ صرف افغانستان میں ”پناہ گزین“ طالبان بلکہ افغان شہری بھی ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ ملوث پائے گئے تو حکومت نے فیصلہ کیا کہ افغان شہریوں کی پاکستان آمدورفت کا نظام مزید منظم اور باقاعدہ بنایا جا ئے۔ طورخم اور چمن جیسے شہروں میں امیگریشن کے نظام کو اب جدید تر بنادیا گیا ہے۔افغان شہریوں کی ا کثریت اس سے ہرگز خوش نہیں۔پاکستان میں امن وامان یقینی بنانے کے لئے مگر پا کستان کی یہ مجبوری ہے کہ پاک-افغان سرحد پر کڑی نگاہ رکھے اور وہا ں سے پاکستان آنے والوں کی تفصیلات سے مکمل طورپر آگاہ رہے۔
آج سے تقریباََ ایک ماہ قبل ریاست پاکستان نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد اعلان کیا کہ ہمارے ہاں غیر قانونی طورپر مقیم ہر غیر ملکی کو 31اکتوبر تک پاکستان چھوڑنا ہوگا۔ بدقسمتی سے اس اجلاس کے فیصلے جس انداز میں رپورٹ ہوئے اس سے یہ تاثر ابھرا کہ ہمارے ہاں مقیم ”ہر افغان“ کو پاکستان سے نکالنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔مذکورہ تاثر کے سنگین عواقب کو ہمارے ”ذہن سازوں“ نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ یہ بات سمجھانے میں بہت دیر لگائی کہ اقوام متحدہ کی جانب سے باقاعدہ طورپر ”مہاجر“ تسلیم کئے لاکھوں افغان پاکستان ہی میں رہیں گے۔ 6سے 7لاکھ کے درمیان فقط ان افغان شہریوں کو پاکستان چھوڑنا ہوگا جو کسی بھی شناختی دستاویز کے بغیر پاکستان در آئے ہیں اور غیر ملکیوں کے کسی بھی ریکارڈ پر موجود نہیں۔ یہ حقیقت مگر تفصیل کے ساتھ دنیا ہی نہیں بلکہ پاکستان کے عوام تک بھی نہیں پہنچ پائی ہے۔عام پاکستانیوں کی اکثریت بھی یہ تصور کئے بیٹھی ہے کہ 31اکتوبر تک ہمارے ہاں مقیم ”ہر افغان“ کو جبراََ بیدخل کردیا جائے گا۔
اپنے ہی عوام کو حقائق سے بے خبر رکھنے والی حکومت کی وجہ سے افغان عوام کی اکثریت اور عالمی میڈیا کے بے تحاشہ قاری اور ناظرین یہ سوچنے کو لہٰذا مجبور ہیں کہ کئی دہائیوں سے افغانستان کا ”ماما“ بنا پاکستان اب وقت گزرجانے کے بعد اپنے ہاں مقیم افغان مہاجرین کو ”بوجھ“ شمار کرنا شروع ہوگیا ہے اور انہیں سفاکانہ انداز میں افغانستان لوٹنے کو مجبور کررہا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے کئی شہروں میں مقامی انتظامیہ اور پولیس بھی رشوت کی طلب میں باقا عدہ دستاویز کے ساتھ وہاں مقیم افغان شہریوں کے ساتھ دھونس اور زیادتی کے واقعات میں ملوث ہونا شروع ہوگئی ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ ایسے واقعات بے بنیاد افواہوں کی صورت بڑھاچڑھاکر ا فغانستان تک پہنچے تو طالبان اور پاکستان کے مابین بدگمانیوں میں مزید اضافہ ہوگا جو ایسی تلخیوں کا موجب بھی ہوں گی جن کا ازالہ شاید کسی کے بھی بس میں نہ رہے۔